تحریر: شفقت اللہ خان آج نہ جانے کیوں ہمارے ضمیر مردہ ہوچکے ہے۔آج کے اس دور میں ہم صرف نام کے مسلمان بن کررہے گئے ہے۔آج ہم کو کوئی مسلمان بھائی ملنے چلا آئے۔یا پھر کسی جگہ راستے میں مل جائے ۔تو ایک دوسرے کو بڑے خوش ہوکر ایسے ملے گئے ۔کہ اس سے بڑاہمارا کوئی ہمدرد نہیں لیکن جیسے ہی ایک دوسرے سے دور ہوئے تو اس کے پیٹھ پیچھے اس کی برائیاں کرنا شروع کردیتے ہیں۔اور تھوڑے سے لالچ کے لیے یہ بھی بھول جاتے ہے۔کہ ہم جس کے پیٹھ پیچھے خنجر مار رہے ہے۔اس اچھے اور مخلص انسان کے ہم پر کتنا احسان ہے۔ آج تو لوگ احسان فراموش بن چکے ہیں۔کہتے ہے کہ دنیا میں کوئی چیز ناکارہ نہیں ہوتی۔
لیکن ہم تو پھر انسان ہے۔اور مسلمان ہے۔ہمارے ضمیراگر مردہ نہ ہوتے۔تو ہم میں انسانیت نام کی کوئی چیز ہوتی ۔لیکن کیا کرئے۔کہ ہمارے ضمیر مردہ ہوکررہے گئے ہے۔کیا ہمارے دین اسلام سے ہم کویہی درس ملتا ہے۔کہ ہم اپنے ہی مسلمان بھائی کی برائی کرئے۔اس کا حق کھا جائے۔جو کوئی ہم کواپنی انگلی پکڑ ائے۔تواس کا بازو ہی کھینچ لیے ۔آج جو کسی کے ساتھ اچھا کرتاہے ۔وہ اس کا دشمن بن جاتاہے۔وہ یہ بھول جاتا ہے کہ اس نے ہی تو اس کو راستہ دیکھایا ہے۔اور مشکل وقت میں اس کی مدد کی تھی۔لیکن اپنے مفاد کی خاطر یہ سب کچھ ہم بھول جاتے ہے۔ہمارئے پیارئے نبی ۖ نے توہم سب مسلمانوں کو بتایا کہ تم سب آپس میں مسلمان بھائی ہو۔چاہیے کوئی گورا ہویا کالاامیرہویا غریب سب آپس میں بھائی بھائی ہے۔لیکن آج بغل میں چھوری منہ میں رام رام ۔آج ہم مسجد میںنماز پڑھنے کی بجائے۔
اس سے دور بھاگتے ہیں۔کیبل ۔سی ڈی وغیرہ پر گانے فلمے دیکھتے رہتے ہیں ۔اذان آرہی ہوتی ہے مگر ہم اس کا احترام نہیں کرتے ۔نمازجمعہ نہیں پڑھتے۔جب عید وغیرہ ہو تو مسجد کا رخ کرتے ہے۔آج جس کو دیکھوں وہ اس دوڑ میں ہے ۔کہ میں نمبر ون بنوں لیکن اس دوڑ میں وہ اپنے۔رشتے ناتے ۔اپنابھائی چارہ پائوں میں روند کر بھاگ رہے ہے۔اس میں یہ نہیں دیکھتے کہ اگلے بندے کا تو میں نے نقصان تو کیا لیکن میں نے کیا کھویا اور کیا پایا۔آج ایسی دوڑ میں آپ کسی سرکاری محکمہ میں کام کروانے چلے جائے ۔وہاں آپ کا جائز کام بھی ہو آپ کو پریشان کرتے رہے گئے۔جب تک آپ ان کومٹھائی نہیں دیتے ۔آج تو رشوت بھی ایک فیشن بن گیا۔جو نہیں لیتے وہ کرسی ان کے لیے عذاب بن جاتی ہے۔اس کو یا تو تبدیل کروادیا جاتا ہے ۔یا پھر یہ کرپٹ لوگ اس کو بھی اپنے ساتھ شامل کرلیتے ہیں۔آج کوئی کرپشن میں نمبرون بننے کی کوشش میں ہے ۔تو کوئی ملائوٹ کررہاہے۔ تو کوئی حرام گوشت عوام کو کھلانے میں لگاہے۔
Jhang
جھنگ جو قدیمی اضلاع میں سے ایک ہے۔اس کے کسی بھی چوک میں آج تک کوئی ٹریفک سکنل نہیں لگ سکے۔کچھ عرصہ قبل یہ بات سننے کو آئی کہ جھنگ میں ٹریفک سگنل لگ رہے ہے ۔اس کے لیے ٹی ایم اے جھنگ نے اخبار اشتہار کروا دیا کہ اس کے ٹھیکے کروا ئے جائے ۔اور چوکوں میں ٹریفک سگنل لگ رہے ہے۔اس خبر سے عوام کے دلوں میں کافی حد تک خوشی کی لہر دیکھنے میں آئی ۔مگر پھر نہ جانے کیا ہوا ۔کہ ٹریفک سگنل والی بات صرف خبر ہی بن کر رہے گئی ۔اور ٹریفک سگنل آج تک نہ لگ سکے۔آپ کو جھنگ کا لاری اڈاویران ملے گا۔وہ اس لیے کہ ایوب چوک جو جھنگ کا مین اور مشہور چوک ہے ۔اس پر کافی عرصہ سے بس اڈئے۔اور ویگن سیٹیڈ بنادئیے گئے۔اور دوسری طرف ٹرک اڈئے بنادئیے گئے ہیں۔ لیکن اس مسئلے کا ابھی تک کوئی حل نہیں نکالا گیا۔
یہاں تو ایسی حالات ہوئی پڑی ہے جیسا کہ میں پہلے بھی لکھتا رہو اور جب تک مسلئے حل نہیں ہوتے اس وقت میں بھی لکھتا رہوگا۔اور اپنے شہر کی خاطر لکھتا رہوگا۔کوئی تو ایسا فرض شناش افیسر آئے گا ۔جھنگ کے مسائل کو ختم کرکے دم لے گا۔آج شہر میں پھرے تو آپ کو یہ معلوم نہیں ہوگا۔کہ جو کروڑوں روپے کے ٹینڈر ہوئے۔جو محکمہ ٹی ایم اے جھنگ۔لوکل گورنمنٹ اور پبلک ہیلتھ کے ٹینڈر بھی ہوئے اور کام ہوئے یا کئی سکیمے ابھی بھی نامکمل پڑی ہوئی ہے۔جن پر ابھی تک ٹھیکیدار حضرات نے کام بھی شروع ہی نہیں کیا۔اب تینوں محکموں کے کام کئی چل رہے ۔آج تک یہ بات ہم نہیں سمجھ سکے کہ ہمارے شہرکے جتنے بھی محکمے ہو ۔لیکن شہرمیں آپ کو ہرطرف دھول مٹی اڑتی نظرآئے گئی ۔جھنگ شہر محلہ گادھیاں والا۔کچہ ریلوے روڈ۔پکہ ریلوئے روڈ۔وغیرہ کواکھاڑکے سیوریج توڈال دیاگیامگران جگہوںپرآج تک دوبار سڑکے تعمیرنہیں کی گئی۔
انصاف کی فراہمی کے نعرے تو بڑے لگتے ہے۔مگر ان میں سے کسی ایک کو آج تک اس پر عمل کرتے ہوئے نہیں دیکھا۔جیسا کہ ٹی ایم اے جھنگ کے افسران کے پاس کالموں کے تراشے جاتے رہے ہے۔مگر آج تک ان پر کوئی عمل نہ کیا گیا ہے۔یہی حال محکمہ ہیلتھ نہ جانے ان افسران کو کیا مجبوریاں ہے ۔کہ یہ ان پر غور نہیں کرتے اور ان کو ردی کی نوکری کے نظر کردیتے ہے۔ان لوگوں نے محکمے کو اپنی جاگیر سمجھ رکھا ہے۔آج تک جوبھی ڈاک ان کو بھجی گئی ہے۔ان میں سے کسی ایک پر عمل تو دور کی بات اس کو یہ لوگ ردی کی نظر کردیتے ہے۔آج رشوت کے بغیر کسی غیریب آدمی کا کام نہیں ہوتا۔چاہیے وہ صوبائی محکمہ ہو یا وفاقی کامحکمہ اس مہنگائی کے دور میں ہر شخص اپنے گھر کا خرچہ نہیں جانے کیسے چلا رہا ہے۔مہنگائی تو ہے اوپر سے ہمارئے مسلمان بھائی جو دوکاندارحضرات ہے۔انہوں نے اور زیادہ مہنگائی کئی ہوئی ہے۔بڑئے گوشت تین سو روپے۔دودھ 60سے70فروخت کیا جارہاہے۔
Food Shop
دہی 80روپے کلواسی طرح فروٹ ہویا سبزی کوئی ریٹ لسٹ پر چیز فروخت نہیں کررہا ۔آپ کریانہ کی دوکان پر چلے جائے تو ان کا بھی یہی حال ہے۔کوئی پوچھنے والا تو ہے نہیں۔اندھا راجا بے دارنگری آج ضلع جھنگ کے اکثریت ہوٹل ایسے ہے ۔جن پرناکس اور غیرمعیاری کھانے فروخت ہورہے ہے۔چاہے کے ہوٹل پر جائے تو وہ چائے کی پتی دونمبر استعمال کر رہا ہے۔سموسے پکوڑئے کی دوکانوں کا یہی حال ہے۔صفائی تو شاہد ہی آپ کو کسی جگہ ملے۔اکثریت جگہ تو گندگی اور مکھیوں کی بھرمار نظر آئے گئی۔کچھ دن پہلے کی بات ہے کہ میرے دو دوست سموسے کھانے دوکان پر گئے ۔انہوں نے سموسے خریدئے اور ان کو ابھی پلیٹ میں توڑا ہی تھا۔کہ سب سموسوں میں سے مری ہوئی مکھیاں نکلی۔آج ایک دوست نے دوکان سے دہی خرید کی اور جا کر اپنے بچوں کے ساتھ ناشتا کرنے لگا کہ اس کی او راسکے تینوں بچوں اور اس کی بیوی کی حالات غیر ہوگئی۔ان کو1122والے ڈسٹرکٹ ہسپتال لیے آئے جہاںآصف منور کا معدے واش کیا گیااوران کا علاج شروع کیا گیااوران کو ہسپتال میں داخل کرلیاگیا۔ہاں تو میں بات کررہا تھا۔ کہ اندھا راجا بے دارنگری۔آج جگہ جگہ دودھ سیل پوائیٹ بنے ہوئے ہے۔
آج میلاد چوک جھنگ شہر پر دودھ کے پوائنٹ بنے ہوئے ہے۔موتیا مسجد۔محلہ گادھیاں والہ۔جوڑے کھوہ۔پکہ ریلوئے روڈ نذد پرانی چونگی وغیرہ جگہ جگہ سیل پوائنٹ بنے ہوئے ہے ۔مگر کیا ان کو کوئی ہیلتھ آفیسر ۔ریٹ لسٹ والے یا محکمہ پیمانے جات والے کوئی ان کوچیک کیوں نہیں کرنے جاتا۔آج جو دیہی علاقوں میں یہ لوگ کھویابنا رہے ہے ۔اس کو کبھی کسی نے چیک کیا کہ وہ کسے بنایا جاتاہے۔محکمہ ہیلتھ کے لوگوں نے آنکھوں پر کیوں پٹی باندھ رکھی ہے۔تقریبا ایک کچھ ماہ قبل منڈی شاہ جیونہ کے علاقہ میں بھی کھویابننے والی فیکٹری پر صحافیوں نے چھاپا مارا اس کی نیوز چینل پر خبریں بھی چلتی رہی مگر نہ جانے اس کا کیابنا۔ایسے ہی نہ جانے کتنی کھویابننے والے کٹرہا لگے ہوئے۔ وہ بھی دیہی علاقوں میں جو کھوا بناتے ۔وہ کھویاخشک دودھ سے تیار کیا جاتا ہے۔ذرائع سے یہ بھی معلوم ہوا ہے ۔کہ یہ کھویااسلام آباد وغیرہ بھیجا جاتا ہے۔یہ جو کھویابناتے ہیں ۔کیا ان کے پاس اس کی کوئی ہیلتھ رپوٹ بھی ہوتی ہے کے نہیں ۔کیا ان کوکو ئی پوچھنے والا نہیں یا پھرتینوں محکموے خاص کر محکمہ ہیلتھ اور ریٹ لسٹ والے ۔پیمانہ جات والے انہوں نے آنکھوں پر پٹی کیوں باندھ رکھی ہے۔محکمہ ہیلتھ والے دیہی علاقوں میں جاکر ان جگوں پر چھاپے کیوں نہیں مارتے ۔جہاں یہ کھویابنانے والے کڑاہے لگے ہوئے ہے۔اور نہ ہی ان کے پاس کوئی ریٹ لسٹ ہوتی ہے۔کوئی پوچھنے والا نہیں ۔اندھا راجا بے دارنگری۔عوام تو جاگ رہی ہے۔
لیکن افسران نظر نہیں آتے ۔جو ریٹ لسٹ چیک کرئے یا یہ دودھ کوکوئی چیک کرئے۔اور کریانے اور ہوٹلوں پر کھانوںکوجاکرچیک کرئے۔کوئی تو ایسا نیک ایماندار فرض شناش افسر ہوگا ۔جس کا ضمیر زندہ ہوگا۔جو تمام چیزوں پر کنٹرول کرئے گا۔ آج ایک بھائی دوسرے کا حق ایسے کھا رہاہے ۔جیسے سب کچھ اس کا اپنا ہو۔ ہمارا شہر ترقی کیوں نہیں کرپارہا۔ترقی کرنے کی بجائے دن بادن اس کی حالات دیکھ کر رونا آتا ہے۔ایسا معلوم ہوتا ہے ۔کہ جیسے اس کا کوئی وارث ہی نہ ہو شہر میں وہ ہی ٹریفک جام لاری اڈے ویران اور ایوب چوک جس جگہ سے کراچی سے لیے کرخیبر تک کی ٹریفک کا گزار ہوتا ہے ۔وہاں بس اڈئے۔ویگن اڈئے بنے ہوئے ہے ۔اور تو اور کہ جھنگ جو پرانے اضلاع میں سے ہے۔اس میں آج تک ٹریفک سیگنل کسی چوک میں کسی نے نہیں لگوایااور نہ ہی اس شہر کے افسران کی اس طرف کوئی توجہ ہے۔کسی دوکان دار سے کوئی چیز خرید کرئے ۔تو اس کا ریٹ لسٹ سے زیادہ وہ رقم وصول کرئے گئے۔
Milk
نرخ نامہ سے زیادہ ریٹ وصول کررہے ہے۔آج اگر دودھ کو دیکھ لے شہر میں جو گوالے دودھ لیے کر آتے ہے۔اکثر دودھ ملاوٹ والا ہوگا۔اور اس نے اس دودھ کو بھی ڈیری کروایا ہوا ہوگا۔ایسے ہی آپ سرخ مرچ ۔دھنیا ۔ہلدی۔چائے کی پتی وغیرہ لے کر چیک کرئے ۔تو آپ کو پتہ چلے کہ ان دوکان حضرات جو ہمارئے ہی مسلمان بھائی ہے ۔ہم کوایک تو ریٹ لسٹ سے زیادہ پیسے وصول کررہے ہے۔اورجو بھی اشیاء اس سے خرید کی وہ بھی ایک نمبر نہیں ہوگئی۔ریٹ لسٹ تو دوکاندار حضرات کے پاس ہوتی ہے ۔اس کے باوجود وہ ریٹ زیادہ وصول کررہے ہوتے ہے۔خیر گوالوں کوہی دیکھ لے ۔کہ وہ جو دود ھ شہر سیل کرنے کے لیے کرآتے ہے۔پہلے اس کو ڈیری کرواتے ہیں ۔پھر جاکرلوگوں کے گھروں میں دیئے آتے۔ان لوگوں سے کوئی پوچھنے والا نہیں ۔کہ ریٹ تو یہ خالص دودھ کا وصول کررہے ہے۔اور دودھ وہ دے رہے جس میں سے کریم بھی نکال لی گئی ہو۔آنے والی اس نسل کا تو اللہ ہی حافظ ہے۔جس نے ایسا دودھ پینا ہے۔کچھ لوگوں کا تو دودھ میں سے کریم نکال کر بھی دل خوش نہیں ہوتا ۔وہ اس دودھ میں بھی پانی ڈال کرعوام کو پلانے میں لگے ہے۔یہ لوگ تو یہ بھی بھول گئے ہے۔کہ ایک دن مرنا ہے ۔اس دن اپنے رب کو کیا جواب دیئے گئے۔ شہر میں کئی دودھ کی دوکانے بن چکی ہے ۔جو منوں کے حساب سے ڈیلی دودھ سیل کررہے ہے۔ان کو آج تک چیک کرنے کوئی نہیں گیا۔۔
ان ہمارئے مسلمان بھائیوں نے مہنگائی پر مہنگائی کر رکھی ہے ۔ریٹ لسٹ ان دوکاندار حضرات کے لیے کوئی اہمیت نہیں رکھتی۔کوئی ان کو پوچھنے والا نہیں ۔دودھ 60سے70روپے کلو اور دودھ بھی وہ وہ جو گوالے دیہی علاقوں سے گوالے دودھ لا کر اس کو ڈیری کرواتے ہیں ۔اور وہ دودھ جو یہ گوالے دوکانداروں اور گھروں میں یہ دودھ دے کر آتے ہے۔یہ دودھ تو وہ ہی ہے جس میں سے کریم نکل لی جاتی ہے۔اور اس کو یہ گوالے ڈیری والے کو دیئے جاتے ہے۔وہ دودھ ہی 60سے70روپے فروخت کر رہے ہے۔یہ دودھ ہمارے بچے پی رہے ہے ۔ان کو اس دودھ سے کیا کوئی طاقت ملے گئی ۔کہ بس وہ صرف پیٹ بھرئے گا۔کیا بات ہے ہمارئے مسلمان بھائیوں کی پیسے خالص دودھ کے لیتے ہے ۔اور دودھ ڈیری والا۔اور ان دودھ والوں نے جو دودھ کی کے ناپ کے لیے پیمانے رکھے ہوتے ہے ۔وہ پیمانے بھی ایک لٹر کا مکمل نہیں ہوتا۔آج تک نہ تو ان لوگوں کے کسی نے پیمانے چیک کیے اور نہ ہی کوئی ان کو یہ پوچھنے والا ہے ۔کہ تم لوگ سرکاری ریٹ لسٹ سے زیادہ پیسے وصول کیوں کرتے ہے۔اور وہ دودھ جو محکمہ ہیلتھ والوں کو چیک کرنا چاہیے ۔مگر یہ تینوں محکمے نمبر ایک ۔پیمانے جات چیک کرنے والے۔نمبردو۔ریٹ لسٹ والے۔نمبر تین۔محکمہ ہیلتھ جس کو روزانہ سب کا دودھ چیک کرنا چاہئے ۔پر افسوس کہ اندھاراجا بے دارنگری کوئی تو ایماندار فرض شناش افسر ہو گا جو ضلع جھنگ کی غریب عوام کے بارئے سوچے گا۔