لندن (جیوڈیسک) متحدہ قومی موومنٹ کے قائد الطاف حسین منی لانڈرنگ کیس میں ضمانت کی مدت ختم ہونے پر آج سینٹر لندن پولیس اسٹیشن میں پیش ہو گئے۔
اسکاٹ لینڈ یارڈ کے 6 افسران الطاف حسین کو ان کی رہائش گاہ سے پولیس اسٹیشن لے کر آئے ، الطاف حسین کےوکلاء اور رابطہ کمیٹی کے سینئر اراکین محمد انور، فاروق ستار اور بابر غوری بھی ان کے ساتھ ہیں تاہم پولیس اسٹیشن کے اندر صرف الطاف حسین کے وکلاء کو جانے کی اجازت دی گئی ہے۔
متحدہ کے قائد الطاف حسین کی ضمانت میں دسمبر 2014 میں توسیع دی گئی تھی۔ الطاف حسین کو اینٹی ٹیررسٹ آپریشنل یونٹ نے منی لانڈرنگ کیس میں باضابطہ طور پر گزشتہ برس 3 جولائی کو ان کی رہائش گاہ سےحراست میں لیا گیا تھا۔
الطاف حسین کے خلاف منی لانڈرنگ کیس میٹروپولیٹن پولیس کی جانب سےعمران فاروق قتل کی تفتیش کے دوران شروع کیا گیا ۔ ایم کیو ایم کے مرکزی رہ نما ڈاکٹر عمران فاروق کو 16ستمبر 2010 ءکو لندن میں گھر واپس جاتے ہوئے قتل کر دیا گیا تھا اور اس سلسلے میں 20 جون 2013ءکو انسداد دہشت گردی یونٹ کے 35 افسران نے شمالی لندن کے دو گھروں کی مسلسل تین دن تک تلاشی لی۔
اس دوران پولیس نے متعدد فورنزک ٹیسٹ بھی حاصل کیے۔ دوران تلاشی الطاف حسین کے گھر سے بھاری مقدار میں نقدی برآمد ہوئی اورجس کے بعد دسمبر 2013 میں مزید 2 افراد کو بھی حراست میں لیا گیا تھا لندن پولیس کے مطابق 5 دسمبر 2013 کو 73 سالہ اور 44 سالہ شخص کو گرفتار کیا گیا تھا۔ 3 جون 2014 کو 61 سالہ شخص کو حراست میں لیا گیا۔
ان تمام افراد کی ضمانت بھی اپریل 2015 تک ہے ۔اس کے بعد 12 جنوری 2015 کو ایک 41 سالہ شخص کو حراست میں لیا گیا۔ اس کی ضمانت بھی رواں برس اپریل تک ہے جبکہ 17فروری 2015 کو حراست میں لیا گیا شخص بھی ضمانت پر رہا ہے۔ منی لانڈرنگ کیس ہی کے سلسلے میں لندن پولیس نے الطاف حسین کے قریبی ساتھی 64 سالہ محمد انور کو ان کی رہائش گاہ سے اسی ماہ کی پہلی تاریخ یکم اپریل کو گرفتار کیا اور ان کے گھر کی مکمل تلاشی بھی لی گئی۔
محمد انور لندن میں ایم کیو ایم کی رابطہ کمیٹی کے رکن ہیں۔ اس کے علاوہ طارق میر ،سرفراز مرچنٹ، سرفراز احمد اور افتخار قریشی کوبھی انہی الزامات کا سامنا ہے۔ لندن پولیس کے جانب سے جاری کیے گئے اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ الطاف حسین سمیت ضمانت پر رہا تمام افراد پولیس کے سامنے مقررہ تاریخ پر پیش ہونے کے پابند ہیں۔