درویش کے گرد حسب ِ معمول لوگوں کا ہجوم تھا ہر عمر کے افراد ہمہ تن گوش حکمت ودانش بھری باتیں سن کر سرہلارہے تھے۔ ایک شخص نے دوسرے کے کان میں سرگوشی کی ۔یہ درویش بھی کیا خوب ہوتے ہیں باتوں باتوںمیں معرفت کی ایسی بات کہہ جاتے ہیں کہ انسان دنگ رہ جاتاہے۔۔دوسرے نے ناگواری سے اس کی طرف دیکھا ہونٹوںپر انگلی رکھ کر اسے خاموش رہنے کی تنبیہ کی اور اشارے سے ادھر متوجہ ہونے کو کہا۔ درویش اپنی دھن میں کہہ رہا تھا ۔خواہشیںپالتے رہنا کوئی برائی نہیں لیکن اپنے آپ کو خواہشات کا غلام بنا لینا انتہائی معیوب ہے آج لوگوںنے اپنے دل کو خواہشات کا قبرستان بنا لیا ہے جس کا اخلاقی،سماجی اور معاشرتی کوئی جواز نہیں حالانکہ خواہش کو ترقی کی جانب پہلا قدم کہا جا سکتا ہے۔ایک شخص نے سوال کیا جناب ! خواہش ترقی کی جانب پہلا قدم ہے تو خواہش میں برائی کیونکر آگئی ؟۔ درویش نے سر اوپر اٹھایا ان کے چہرے پر ہلکا سا تبسم تھا وہ گویا ہوئے آپ لوگوں نے وہ شعر سے ضرور سنا ہوگا جس میں شاعر نے کہا۔
ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہرخواہش پر دم نکلے بہت نکلے میرے ارمان مگر پھر بھی کم نکلے
اللہ کے بندوں خوب جان لو کچھ خواہشیں ایسی نامعقول ہوتی ہیں دنیا کو خبرہوجائے تو انسان ذلیل ہوکررہ جائے۔کچھ اتنی شرمناک کہ سال دو سال بعد اس کا خیال بھی آجائے تو خواہش رکھنے والا دل ہی دل میں خود شرمسارہونے پر مجبور ہوجائے۔ یہ رب العزت ہی ہے جو بھرم رکھ لیتاہے دل میں کیسے ہی خیال آرہے ہوں کیسی ہی خواہشیں پنپ رہی ہوں وہ درگذر کرتاہے اور خاک کا پتلے میں کتنا تکبر ۔۔کتنا غرور ہے جو انسان کو انسان بھی نہیں سمجھتا ہر وقت میں ۔۔میں کرتا پھرتاہے۔ اسی لئے میرا کہنا یہ ہے کہ دل میں خواہش ر کھنا برائی نہیں لیکن بری۔نامعقول اول جلول خواہشوںکی آبیاری کرتے رہنا گناہ کے مترادف ہے۔ ترقی کا سوچتے رہنا، معاشرے میں باوقار بننے کی تگ و دو ،بچوں کے بہتر مستقبل ،کاروبار کی بہتری کا خواب یہ سب خواہشیں ہی تو ہیں جس نے یہ راز پالیا سرخرو ہو گیا۔
بری خواہشوںسے چھٹکارا کیسے ممکن ہے؟ ۔ایک نوجوان نے استفسارکیا۔۔درویش کا چہرہ ایک دم چودھویں کے چاندکی طرح روشن ہوگیا اس نے نوجوان کی طرف انگلی کا اشارہ کرتے ہوئے کہا۔مثبت سوچ سے ہی دل و دماغ کو بری خواہشوںسے نجات مل سکتی ہے۔دراصل بری خواہشات نفس کی غلامی کا دوسرا نام ہے بناوٹ، نمودونمائش، سستی شہرت، مصنوعی عزت ، لالچ، دنیاوی آسائشوں کیلئے دوسروں سے مقابلے بازی،حسد سب کی سب بری خواہشیں ہیں۔۔دھوکہ ہے اپنے آپ کو فریب دینے والی بات ہے۔ درویش نے کہا ترقی سب کا حق ہے اس کی خواہش کرنا فرض ہے لیکن کسی دوسرے کی حق تلفی کرنا۔کسی اورکودھوکہ فریب دینا۔ ناجائز طریقے سے مال و متاع اکھٹا کرنا انتہائی معیوب ہے جو معبود کو پسند نہیں۔۔۔ میرا فلسفہ ہے اچھی خواہشیں پالنا شہدکی مکھیاں پالنے کے برابرہے جس کا صلہ شیریں ملتاہے۔”پھر۔ ایک شخص نے پوچھ ہی لیا ۔۔ہم جیسے دنیادارکیا کریں؟۔
بڑی سادہ سی بات ہے۔ درویش نے مسکراکر جواب دیا خواہش اور نیت میں بڑی مماثلت ہے نیت نیک ہو تو منزل آسان ہو جاتی ہے ثواب بھی ملتاہے۔ صلہ بھی۔ صلہ تو اسی دنیا میں ترقی و خوشحالی کی صورت میں مل سکتا ہے ثواب اگلے جہان میں اور انسان کو ان دونوں چیزوںکی اشد ضرورت ہے۔یادرکھو خواہش بڑی ظالم چیزہے۔۔ خواہشیں انسان کو رسوائی بھی دے سکتی ہیں۔ محبت بھی نفرت بھی ۔۔ خواہشیں مقدر بدل بھی سکتی ہیں خواہشوں کی کوئی انتہا نہیں ۔۔ خواہشات جس دل میں گھر بنا لیں اس کا سلسلہ لامتناہی دراز ہو جاتاہے جن بھوت چمٹ جائیں تو وہ انسان کو چھوڑکر جا سکتے ہیں خواہشیں دل سے نہیں جاتیں۔
اس لئے انسان کے لئے ضروری ہے کہ خواہشات کی تکمیل کیلئے کوئی ایسا گھنائونا کام نہ کرے کہ اس سے انسانیت کوشرم محسوس ہو اسے خود اپنے آپ سے شرمساری ہو ۔۔ خود اپنی نظروں میں آپ گرنا کنویں میں گرنے سے بدتر بلکہ بدترین ہے شاید تم نہیں جانتے کس کی حق تلفی کرنا اللہ کے نزدیک بہت برا جرم ہے اس سے بچنے کی ایک ہی صورت ہے مثبت سوچ۔یقین جانو مثبت سوچ ہی انسان کو گناہ سے بچاتی ہے اور گناہ سے بچتے رہنے میں عافیت پوشیدہ ہے جائو منادی کروادو خواہشوں کے جزیرے میں بھٹکنے والوں کو اللہ پسند نہیں کرتا سرتاپا خواہشوں میں ڈوبے ،لتھڑے لوگ بھی کیا لوگ ہیں۔کیا وہ نہیں جانتے کہ سراب۔سراب ہوتاہے حقیقت نہیں اور حقیقت کے متلاشی نیک خواہشات کو اپنی طاقت بناکر ترقی کے زینے چڑھتے جاتے ہیں۔
یہ کہتے ہوئے درویش اٹھ کھڑا ہوااس نے آس پاس رکھے دئیے روشن کرنا شروع کردئیے درجنوں دئیے روشن ہو ئے تو ماحول پر چھائی تاریکی چھٹنے لگی اس نے انگلی کا اشارہ کرتے ہوئے عقیدت مندوںسے کہا اچھی خواہشات بھی ٹمٹماتے ہوئے دئیے کی مانندہیں اچھی خواہش امید دل میں ایک ٹمٹماتا دیا روشن کردیتی ہے ہر دل میں ایسا ایک دیا ضرور روشن ہونا چاہیے یہ دیا روشن ہوگیا توبری خواہشوں سے چھٹکارا مل جائے گا اورجان لو کہ ہمار ی تلقین و نصیحت کا حق ادا ہو گیا۔