انسانی سمگلنگ کے جرم میں دنیا کے ان گنت لوگ جیلوں میں سزائیں کاٹ رہے ہیں وہ اس بات سے باخبر تھے کہ انسانی سمگلنگ جرم ہے لیکن روپوں کی لالچ میں بھول گئے کہ جرم کبھی نہیں پَھلتا اورنہ ہی قانون سے چھپ سکتا ہے ۔کئی سال قبل یورپ میں یہ دھندہ کافی عروج پر تھا خاص طور پر ایشیا اور افریقا کے پس ماندہ ممالک کے افراد انہی انسانی سمگلرز جنہیں عرفِ عام میں ” ایجنٹ ” کہا جاتا ہے کے ذریعے ہزاروں ڈولرز اور اپنی جانوں کو ہتھیلی پر رسک لیا کرتے اور ہر قدم مصائب اور تکالیف برداشت کرتے ہوئے پُلِ صراط سے گزر کر یورپ کے کسی نہ کسی ملک پہنچ جاتے ، بد قسمتی یا غلطی سے کوئی ایجنٹ بمعہ اپنے کلائنٹ بورڈر پولیس کے ہاتھ آجاتا تو پہلے سب جیل کی ہوا کھاتے اور سزا پوری ہونے کے بعد ڈی پورٹ کر دئے جاتے۔
ہجرت کے ان خطرناک راستوں پر کئی معصوم لوگوں کی جانیں بھی گئیں کسی یورپین اخبار میں کبھی کبھار چھوٹی خبر چھپ جاتی کہ فلاں فلاں ملک کے لوگ بورڈر کراس کرتے ہوئے گرفتار کر لئے یا ڈی پورٹ کر دیا گیا ، اُن دنوں یورپی یونین قائم نہیں تھی اور یورپی ممالک ان معاملات کو ہیڈ لائن بنانے سے اجتناب کرتے لیکن آج بھی اگر البانیہ ، رومانیہ ، چیکو سلو واکیہ ، ہنگری ، پولینڈ کے علاوہ یونان ، اٹلی ، فرانس ، آسٹریا اور جرمنی کے پینتیس اور چالیس سال پرانے اخبارات نکال کر مطالعہ کیا جائے تو کئی بے گناہوں اور ایجنٹوں کی سچائیاں نظر سے گزریں گی۔
کئی ماؤں کی گودیں اجڑیں ، کئی عورتیں بیوہ ہوئیں کیوں کہ انہی ایجنٹ حضرات کی نااہلی سے کئی بے گناہ بورڈر پولیس کی گولیوں کا نشانہ بنے بعد از معمولی کارروائی اور سر سری خانہ پری کے ان کی لاشوں کو غائب کر دیا گیا یا ان کے ملکوں میں واپس بھیج دیا ۔ آج بھی اس ترقی یافتہ دور میں کسی ترقی پذیر ملک کی ہمت نہیں کہ ان یورپی ممالک سے سوال جواب کرے تو چالیس سال قبل کوئی ان سے کیا سوال کرتا کہ ہمارے ملک کے باشندے کو کس جرم میں گرفتار کیا یا اس پر کیوں گولی چلائی؟۔
جرمنی کے شہر بریمین کی ایک ضلعی عدالت نے انسانی سمگلنگ میں ملوث سینتالیس سالہ شخص کو ایک سال اور چھ ماہ کی سزا سنائی، پولیس رپورٹ کے مطابق اس نے ایک وین میں غیر یقینی نقل وحمل سے تین غیر ملکی باشندوں کی زندگیوں کو خطرے میں ڈال کر جرمنی سمگل کیا ۔ پاکستان سے تعلق رکھنے والے ایجنٹ نسیم کو دوہزار بارہ میں ایک بار پہلے بھی اسی جرم میں ایک سال کی سزا سنائی گئی تھی۔
رپورٹ کے مطابق نومبر دوہزار تیرہ میں پولیس اپنی روٹین چیکنگ کے فرائض انجام دے رہی تھی کہ ایک موٹر وے جو بریمین سے ہیمبرگ جاتی ہے پر ایک پرانی فورڈ ٹرانزٹ ویگن کو محض اسلئے روکا کہ وہ بہت کم سپیڈ سے موٹر وے پر رواں تھی ، پولیس اوفیسر کا کہنا تھا کہ جب ہم نے ویگن کو روکا تو ڈرائیور کی ساتھ والی سیٹ پر چودہ پندرہ سالہ لڑکا بیٹھا تھا جو شدید گھبراہٹ کا شکار تھا ، شک کی بنا پر ویگن کے پچھلے حصے کو چیک کیا تو سامان کی بجائے خودسے بنائے گئے لوہے کے بینچ پر تین افراد کو پایا ، ابتدائی تفتیش کے بعد انہیں حراست میں لے لیا گیا اور پولیس کسٹڈی میں تمام بات سچ اگلوا لی۔
پولیس نے عدالت کو بتایا کہ چاروں افغانی تھے جنہیں نسیم ڈین مارک لے جا رہا تھا ، عدالت نے سب سے کم عمر لڑکے سے ٹرانسلیٹر کی موجودگی میں سوالات کئے جن کے جواب میں کہ لڑکا زندگی میں کبھی اپنے گاؤں سے باہر نہیں نکلا اور اسے نہیں معلوم کہ نسیم کن راستوں سے یہاں لایا ہے اسے یہ بھی نہیں معلوم کہ وہ افغانستان سے کیسے نکلا ، وہ بالکل ان پڑھ ہے اسے نہ تو لکھنا آتا ہے اور نہ پڑھنا ، اس نے بتایا کہ کابل میں اس کا بھائی پولیس میں تھا جسے قتل کر دیا گیا ، ہمیں رات کو ایک خط موصول ہوا کہ جتنی جلدی ہو سکے یہاں سے غائب ہو جائیں نہیں تو قتل کر دئے جائیں گے میرے چچا نے مجھے وہاں سے بھگانے کا انتظام کر دیا اور میری ماں کو اپنے ساتھ لے گیا، میں نسیم کے ساتھ کابل سے چل پڑا راستے میں یہ تینوں بھی شامل ہو ئے۔
وہ تینوں بھی افغانستان کے مختلف شہروں سے تعلق رکھتے تھے ان کے بیان کے مطابق ہم لوگ ایران داخل ہوئے راستے میں ایک دفعہ گاڑی بھی تبدیل ہوئی ، کسی اور ملک سے دو پاکستانی بھی ہمارے قافلے میں شامل ہوئے ہمیں نہیں معلوم کہ وہ کس ملک میں تھے کس جگہ رکے پھر گاڑی تبدیل ہوئی البتہ تمام راستوں میں تین جاگتے اور باقی سوتے اور یوں کئی دن یہ سفر سوتے جاگتے گزرا کہ یہاں دھر لئے گئے۔
Court
کچھ عرصہ بعد تمام چھان بین اور حقائق کے ساتھ پولیس نے ثبوت اور ریکارڈ عدالت میں پیش کئے۔ پولیس کے مطابق ان لوگوں نے کافی دروغ گوئی کا استعمال کیا لیکن ہماری چار ماہ کی انویسٹی گیشن رپورٹ بتاتی ہے کہ نسیم نے ان چاروں افغانیوں کو ڈین مارک کی بجائے سویڈن پہنچانے کے چودہ ہزار ڈولرز لئے انہیں افغانستان سے ایران ، ترکی ، یونان اور اٹلی تک کوئی اور انسانی سمگلر لایا میلان میں گاڑی تبدیل ہوئی اور نسیم دو اور پاکستانیوں سمیت گاڑی میں بیٹھا دورانِ سفر کوئی بات نہیں ہوئی دونوں پاکستانی پیرس میں اتر گئ۔
نسیم بڑی ہوشیاری سے انہیں سویڈن پہنچا دیتا لیکن شاید یہ بھول گیا کہ جرمنی کی موٹر ویز پر کم سے کم رفتار بھی اسی کلو میٹر ہے لیکن وہ اپنی وین کو ساٹھ کی رفتار سے چلا رہا تھا اور ہمارا شک درست ثابت ہوا کہ کوئی گڑ بڑ ہے جو یہ وین موٹر وے پر اتنی کم سپیڈ سے رواں ہے ، نسیم جھوٹ بولنے کی پوزیشن میں نہیں تھا کیونکہ پولیس نے وین میں نصب نیوی گیشن سسٹم کو قبضے میں لینے کے بعد تمام اگلے پچھلے روٹس کا پتہ لگا لیا اور مکمل چھان بین کے بعد فیصلہ عدالت پر چھوڑ دیا۔
پراسکیوٹر نے دو سال اور دس ماہ قید کا مطالبہ کیا تھا لیکن نسیم کے دفاعی وکیل نے اسے بَری کرنے اور آئندہ ایسا نہیں ہو گا کی درخواست دی جسے رَد کرتے ہوئے عدالت نے اسے ایک سال اور چھ ماہ کی سزا سنا ئی۔ اور سخت وارننگ دی اگر آئندہ ایسا ہوا تو نسیم کسی مراعات کا حق دار نہیں ہو گا اور شاید ایک لمبی سزا کے بعد ہمیشہ کے لئے ملک بدر کر دیا جائے گا۔
ایک عام آدمی یہ مختصر کالم پڑھنے کے بعد سوچتا ہے کہ دنیا میں نوے فی صد لوگ لیگل طریقے سے اپنا اور اپنی فیملی کا پیٹ پال رہے ہیں کیا وہ انسان نہیں؟ کیا ان کی خواہشات نہیں؟ کیا وہ یہ نہیں چاہتے کہ راتوں رات امیر کبیر بن جائیں ؟ لیکن ان کی سوچ ان کا ضمیر غلط کام اور جرم کرنے سے روکتے ہیں۔ اگر ہر انسان جرم کرنے لگے تو دنیا میں گھر کم اور جیلیں زیادہ ہوں، جرائم پیشہ افراد یہ سوچ لیں کہ ان کا دی اینڈ جیل ہے یا گولی، جو یہ نہیں دیکھتی کہ گولی کھانے والا کون ہے۔ عیسیٰ، موسیٰ، اوساما، اوباما، وسیم، نسیم، میں یا تم؟