تحریر : پروفیسر رفعت مظہر دو دِن پہلے میرے میاں گھر آئے تواُن کاموڈ بہت بگڑا ہواتھا ۔وہ مُنہ ہی مُنہ میںکچھ بڑبڑاتے ہوئے کمرے میں چلے گئے ۔تھوڑی دیربعد جب ہم کمرے میںداخل ہوئے تواُنہیں پھر بڑبڑاتے پایا ۔ہم نے ہمت کرکے اِس ”ناسازیٔ طبع ” کی وجہ پوچھی تووہ تیوریاں چڑھا کربولے کہ اگرکوئی نوازلیگ کے زوال کاباعث ہوگا تووہ صرف وزیرِخزانہ ۔ہم نے پوچھا ”وہ کیسے”؟۔ جواب ملا ”سگریٹ کاوہ پیکٹ جو پچھلے سال اسّی روپے میںملتا تھا وہ اب ڈارصاحب کی مہربانی سے ایک سوتیس کا ہوگیا ہے۔ہماری زندگی تواجیرن ہوکے رہ گئی ہے”۔ ہم جی ہی جی میںبہت خوش ہوئے کہ شایداسی بہانے اِس ”مَرجانی” سے چھٹکارا مِل جائے کیونکہ ہم نے توجب بھی میاںکو سگریٹ چھوڑنے کاکہا اُن کاگھڑا گھڑایا جواب ملا ”یہ رسمِ عاشقی کے خلاف ہے ۔اگر میںسگریٹ سے چالیس سالہ رفاقت چھوڑ سکتاہوں توتمہیں بھی چھوڑسکتا ہوں”۔ اُن کے اِس جواب پرہم ہمیشہ جَل بھُن کر ”سیخ کباب” ہوتے رہے لیکن ”وہ اپنی خُو نہ چھوڑیں گے ،ہم اپنی وضع کیوں بدلیں” کے مصداق ہم بھی سگریٹ ترک کرنے کاتقاضہ کرتے رہے۔ ڈارصاحب کے اِس دِل خُوش کُن اقدام پر وفورِ مسرت سے ہماری باچھیںکھلنے ہی والی تھیں کی ہم کھسک لیے کیونکہ میاںکے سامنے اِس کااظہار جنگ وجدل سے بھرپور شاہکار کی صورت میںسامنے آتاجس کافی الحال ہماراکوئی ارادہ نہ تھا۔
جب ہم نے نیوزچینلز اوراخبارات میںاِس کی تفصیل پڑھی اورسُنی تو خودہمارے ہاتھوںکے مینا ،طوطے ،سب اُڑ گئے اورپاپی پیٹ کے کُتے بھونکنے لگے کیونکہ ڈارصاحب نے سوائے جینے مرنے کے ہرشے پرٹیکس لگادیا تھا۔ ویسے ہمارے وزیرِخزانہ اسحاق ڈالر صاحب ہیںبڑے ”مخولیے”۔ اُنہوںنے 40 ارب روپے کے اضافی ٹیکس عائدکرتے ہوئے یہ لطیفہ سنایا” اضافی ٹیکس سے عام آدمی متاثر نہیںہوگا”۔ جانتے وہ بھی ہیںکہ ٹیکس لگے نہ لگے حکومتی ”حرکات” سے متاثر توصرف عام آدمی ہی ہوتا ہے ،ڈارصاحب جیسی اشرافیہ توصاف بچ نکلتی ہے۔ ازلی ،ابدی اورمسلمہ اصول یہی کہ ”خربوزہ چھری پہ گرے یا چھری خربوزے پر ،نقصان توبیچارے خربوزے کاہی ہوناہوتا ہے’ وزیرِخزانہ نے 50 کروڑڈالر کی قسط لینے کے لیے عالمی مالیاتی فنڈکی شرائط پوری کردیں لیکن بہانہ یہ کہ دہشت گردی کے خلاف آپریشن ضربِ عضب کے نتیجے میںبے گھرہونے والوںکے لیے 40 ارب روپے درکار ہیں۔۔۔۔ واہ ! ڈارصاحب واہ ! کیا خوب بہانہ تراشاہے کہ دامن پہ کوئی چھینٹ نہ خنجر پہ کوئی داغ تم قتل کرو ہو کہ کرامات کرو ہو
سوال مگریہ کہ کیااربوں ،کھربوں روپے کی ”میٹروشیٹرو” اور ”اورنج لائن” بناناضروری ہے یامجبوروں ،مقہوروںکے آتشِ شکم کی سیری؟۔ہم میٹروکے خلاف ہیں نہ اورنج ٹرین کے ،اِن کی افادیت سے مفر ممکن نہیں لیکن یہ سب ”چونچلے” توترقی یافتہ ممالک کے ہیںجن کے عوام کے لیے راوی عیش ہی عیش لکھتاہے ۔اگر کسی ایک ”میٹرومنصوبے” کوبھی ملتوی کردیا جاتا اوروہی رقم شمالی وزیرستان کے بے گھروںپر صرف کردی جاتی توحکومت کے خلاف” آگ اورپانی کے اَکٹھ” کی نوبت نہ آتی۔ پیپلزپارٹی ، تحریکِ انصاف اورجماعت اسلامی ”ایک صفحے” پر، باہم شیروشکر حالانکہ کپتان صاحب کی زبان توسیّدخورشید شاہ کونوازلیگ کا”مُنشی” کہتے نہیںتھکتی تھی ۔آج یہ تینوںجماعتیں پارلیمنٹ کے جاری اجلاس کابائیکاٹ کیے بیٹھی ہیںاورمطالبہ یہ کہ جب تک ”مِنی بجٹ” اورپی آئی اے کی نجکاری کافیصلہ واپس نہیں لیا جائے گا، اجلاس کابائیکاٹ جاری رہے گا۔ ہمیں خوب معلوم کہ یہ سب کچھ سیاسی مفادات کے حصول اورنوازلیگ کو”ٹَف ٹائم” دینے کے لیے کیاجا رہاہے ،پھربھی ہم خوش کہ شایداسی طریقے سے حکومت ہوش کے ناخن لے لے۔
Ishaq Dar
ڈارصاحب نے پارلیمنٹ میں خطاب کرتے ہوئے فرمایا”40 ارب روپے اکٹھے کرنے کے لیے آئین اورقانون کے تحت قدم اٹھایا، اسے مِنی بجٹ نہ کہاجائے۔ اگرکسی نے اپنے کتے بلیوںکو درآمدشدہ خوراک کھلانی ہے تواُسے ملک کوپیسے دینے دیں”۔ بالکل بجاارشاد ،یہ” مِنی ” نہیں ،پورابجٹ ہے جوایک ہی سال میںدوسری دفعہ لگاکر عوام کووقفِ مصیبت کردیا گیا۔ ویسے بھی حکومت جوکام بھی کرتی ہے آئین وقانون کے ”دائرے” میںرہ کرہی کرتی ہے جس میںمقہوروں کی رگوںسے خون نچوڑنابھی شامل ہے۔ ڈار، المعروف ڈالرصاحب نے فرمایا ” جوٹوتھ پیسٹ استعمال کرتاہے اُسے ٹیکس بھی دیناچاہیے”۔ بالکل بجاہم ٹوتھ پیسٹ کی بجائے مسواک استعمال کرکے سنّتِ نبوی پرعمل کرلیں گے، ٹوتھ پیسٹ اُن کے خاندان اوراشرافیہ کے خاندانوںکو مبارک ہو لیکن اُنہوںنے توکنگھی چوٹی سے لے کرکھانے پینے اوراوڑھنے بچھونے تک ،سبھی پر ٹیکس لگادیا لیکن ایک چیزجس کی پاکستان میںفراوانی ہے وہ ڈار صاحب کی نظروںسے بچ گئی، وہ” موت” ہے
جوہمارے ہاںمفت ملتی ہے ۔اگر ڈارصاحب اِس پربھی ٹیکس لگادیں توہم اُنہیں یقین دلاتے ہیںکہ قومی خزانہ چھلکنا شروع ہوجائے گا۔ جہاںساڑھے تین سوسے زائداشیاء پرٹیکس لگایاگیا ،وہاںموت اورکفن دفن پرٹیکس بھی ضروری ہے کیونکہ اِس ٹیکس کے نفاذکے بعد شرح اموات بڑھنے کے روشن امکانات ہیں۔ شیخ رشیداحمد نے کہاتھا کہ اگرڈار صاحب ڈالر 96 روپے کاکر دیں تووہ پارلیمنٹ سے استعفیٰ دے دیںگے لیکن جب ڈارصاحب نے ہتھیلی پہ سرسوںجما کے دکھادی اورڈالر 96 روپے کاہو گیا توشیخ صاحب نے مستعفی ہونے سے انکار کرتے ہوئے کہاکہ یہ سب کچھ وقتی ہے اگرڈالر مستقل طورپر 96 روپے کارہا تووہ استعفیٰ دے دیںگے۔
تب ہم نے شیخ صاحب کاجی بھرکے مذاق اُڑایا لیکن آج جب ڈالر 107 روپے کاہو گیا توہمیںبھی تھوڑاتھوڑا یقین آنے لگا کہ شیخ صاحب کی ساری باتیں غلط نہیںہوتیں ،ہزارمیں سے ایک آدھ درست بھی ہوجاتی ہے۔ ماہرِ معاشیات وزیرِخزانہ سے یہ سوال توکیاہی جاسکتا ہے کہ جب ڈالر تیزی سے قلانچیں بھررہا تھا تواُن کی” معیشت دانی”کہاںجا سوئی؟۔