تحریر : جاوید ملک یہ کہانی نہیں ایک عبرت ہے، تلخ ترین حقیقت، سچائی کی مٹی میں گندھا ہوا ایک سبق۔ لیکن سبق تو زندہ قومیں سیکھتی ہیں مردہ قومیں تو گدھے کھاتی ہیں گردے بیچتی ہیں خودکشیاں کرتی ہیں اور پھر خود ہی اپنی ذلالت کا تماشہ کرتی ہیں سیٹیاں بجاتی ہیں بھنگڑے ڈالتی ہیں اور تالیاں پیٹتی ہیں۔
فد محمد میرا کالج فیلو تھا ۔کلاس کا ذہین ترین طالبعلم ،ہروقت پڑھائی کی فکر میں غلطاں ،جب ہم سب لوگ موج مستی کررہے ہوتے تو اس وقت بھی وہ کالج لان ،لائبریری یا کیفے ٹیریا کے کسی کونے میں بیٹھا موٹی کتابوں میں الجھا ہوتا تھا ۔ پڑھاکو ،بقراط سقراط ،کتابی کیڑانہ جانے ہم نے اس کے کیا کیا القابات دے رکھے تھے ۔ ہم سب اسے جی بھر کر چھیڑتے، آوازیں کستے مگر وہ اپنی دھن میں مگن رہتا کسی سے الجھتا نہیں تھا سنی ان سنی کردیتا ہر بار جب نتائج آتے تو وہ نمایاں پوزیشن لیتا یونیورسٹی میں بھی جب اس کی پوزیشن آئی تو اخبار میں تصویر چھپی لمحہ بھر کیلئے ہم سب دوستوں کو رشک آیا تھوڑی حسد بھی محسوس ہوئی مگر پھر سب بھول بھلا کر اپنی فضولیات میں لگ گئے۔
ہم نے کالج کلاسوں میں حاضری کم دی اور ہڑتالیں زیادہ کیں ۔نو ورک نوکلاس بائیکاٹ بائیکاٹ کا نعرہ بلند کرنے کا بہانہ ڈھونڈتے تھے مگر جیسے تیسے کرکے ایک دو کے سوا سبھی دوست ہی ماسٹرز کرگئے۔کالج اور شہر بھر میں ہنگاموں کی وجہ سے مشہوریہ سارے حکمران سیاسی جماعت کے مقامی نمائندوں کے منظور نظر تھے اس لیئے کالج کے دروازے سے قدم باہر رکھتے ہی نوکری کا پروانہ ان کے ہاتھ میں تھا۔
مجھ پر صحافت کا بھوت سوار تھا دوستوں کے بے پناہ اصرار کے باوجود میں نے سرکاری ملازمت اختیار کرنے سے انکار کردیا اور شعبہ صحافت میں قسمت آزمائی کیلئے شہر اقتدار کا رخ کرلیا ۔وقت کا پہیہ اپنی رفتار سے گھومتا ہے خبر ہی نہ ہوئی اور سالوں بیت گئے ۔ میں اب ایک اخبار کا ایڈیٹر تھا مصروفیات اس قدر تھی کہ دن رات کی تفریق مٹ گئی تھی کولہوکے بیل کی طرح ہروقت اخبار کے مسائل میں الجھا رہتا تھا ۔وہ بھی ایک ایسا ہی دن تھا اخبار کے صفحہ اول پر ایک خبر غلط چھپ گئی تھی اور میں نیوز روم والوں پر گرج برس رہا تھا کہ آفس بوائے نے اطلاع دی کہ کوئی فدا محمد نامی شخص مجھ سے ملنا چاہتا ہے۔دماغ پر زور دیا مگر کچھ یاد نہ آیا ۔ میں نے آفس بوائے کو کہا کہ اسے انتظار کا بولے اور پھر اپنے کام میں لگ گیا ۔ مجھے یاد نہیں کتنا وقت گزر گیا لیکن ڈھیڑھ دو گھنٹے تو ضرور ہوگئے تھے جب آفس بوائے چائے دینے آیا تو پوچھا ”سر اس شخص کو کیا کہوں …انتظار کرے یا چلا جائے ” تب مجھے یاد آیا کہ میں نے تو کسی کو انتظار کا کہا تھا ۔ میں نے اسے فوراًبلانے کا کہا اور جیسے ہی وہ میرے کمرے میں داخل ہوا انکھوں کے سامنے برسوں پہلے کی جیسے فلم سی چل گئی ہو۔ ”ارے پڑھاکو تو … یار بہت معذرت مجھے اندازہ نہیں تھا کہ تم ہو ” اپنے کالج فیلو کو اتنا انتظار کرانے پر مجھے عجیب سی خفت محسوس ہورہی تھی اپنی شرمندگی کو رفع کرنے کیلئے میں اسے بڑے پرتپاک طریقے سے ملا اور اس کے لاکھ انکار کے باوجود فوراً کھانا منگوالیا۔
اِدھر اُدھر کی باتیں ،کالج کی کچھ یادیں ہلکی پُھلکی گپ شپ کے بعد میں نے پوچھا ” کیا کررہے ہو آج کل؟” ” میں ابھی تک بے روزگار ہوں ” ایک لمحہ کیلئے تو مجھے ایسے لگا جیسے کسی نے کھولتا ہوا گرم تیل میرے کانوں میں اُنڈیل دیا ہو ۔میرے کالج کا سب سے ہونہار ،نصابی و غیر نصابی سرگرمیوں میں اپنا لوہا منوانے والا طالبعلم ابھی تک حصول روزگارکیلئے جوتیاں چٹخارہا ہے ۔ ”تم ابھی تک بے روزگار ہو” فرط حیرت سے میری آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں ”ہاں یار مجھے نہیں معلوم کے یہ نظام زیادہ برا ہے یا میرے نصیب …میں ملازمت کیلئے درخواستیں دے دے کر بنک چالان بھر بھر کے ،ٹیسٹ اور انٹرویوز میں جاجاکر تھک گیا ہوں … بچوں کو ٹیوشنز پڑھا کر بہ مشکل دال روٹی اور حصول ملازمت کیلئے طلب کردہ فیسیں پوری کرتا ہوں مگر ابھی تک نامراد ہوں ۔ اب تو اپنی کم عقلی پر رونا آتا ہے کہ جتنی رقم حصول ملازمت کی کوششوں پر ضائع کی اسے جمع کرلیتا تو کم ازکم ایک کریانہ کی دوکان تو ضرور ڈال سکتا تھا ۔مجھے بہت دیر سے سمجھ آئی کہ دوست یہاں قابلیت کوڑیوں کے بھائو بھی نہیںبکتی سفارش اور رشوت ہی سکہ رائج الوقت ہے ‘وہ ایک لمحہ کیلئے رکا اس کے ہونٹوں پر عجیب طنزیہ سی مسکراہٹ تھی ”تم صحافی ہو ان حکمرانوں سے کیوں نہیں پوچھتے کہ ہر آسامی خالی ہے کہ اشتہار کے ساتھ یہ سینکڑوں روپے طلب کرکے پہلے ہی بے روزگاری کی آگ میں جھلستے ہوئے نوجوانوں کو مزید امتحان میں کیوں ڈالتے ہیں ۔ نت نئی ٹیسٹنگ سروسز کے نام پر ان بے روزگار وں کی جیبیں کیوں کھنگالتے ہیں ؟جب چند سفارشی پہلے سے ہی بھرتی کیلئے منتخب کرلیئے جاتے ہیں تو پھر ملک بھر سے ہزاروں لوگوں کو خوار کرکے ان کی بے بسی کا تماشہ کیوںلگایا جاتا ہے …کیوں،کیوں آخر کیوں ؟” وہ چلاگیا مگر اس کے سوالوں کے چابک کئی روز تک میرے ضمیر کو لہو لہان کرتے رہے ۔کئی دن تک اس کی آنکھوں میں بسی مایوسی مجھے رلاتی رہی مگر پھر اپنی ہی ذہانت ،قابلیت بھاری بھر کم نمبروں اور میڈلز کے بوجھ تلے دبا سسکتا ہوا یہ نوجوان میری مصروفیات کی دھول میں کہیں گم ہوگیا۔
آج پھر برسوں بعد مجھے فدامحمد بہت یاد آیا ہے ۔ آج کل سوشل میڈیا پر سی پیک جیسے حساس پروجیکٹ میں کام کرنے والی ایک مشہور چائینہ کمپنی کے نام سے منسوب ایک پیغام چل رہا ہے کہ کمپنی کو تین لاکھ سے زائد ہنر مند افراد کی ضرورت ہے اس پیغام کے آخر میں دو رابطہ نمبر اور ایک ای میل بھی دیا گیا ہے ۔ اس چائینہ کمپنی کا شمار دنیا کی چند بہترین کنسٹریکشن کمپنیوں میں ہوتا ہے اور اس کے چند ذمہ داران سے میری اچھی دعا سلام ہے جب اس حوالے سے میں نے ان سے استفسار کیا تو معلوم ہوا کہ یہ سب جھوٹ ہے اور کمپنی کا اس سے کوئی تعلق نہیں گویا نوسربازوں کا کوئی گروہ سادہ لوح بے روزگاروں کی جیبیں کاٹنے کیلئے متحرک ہو گیا ہے۔
آپ نے کبھی سوچا کہ دنیا میں سب سے غلیظ ترین کام کون سا ہے میرے خیال میں تو محرومیوں ،پریشانیوں اور تنگ دستی میں گھر ے کسی لاچار کو خواب دکھا کر لوٹ لینا ہے۔یہ لوگ جونک سے بھی بدتر ہیں وہ بھی جسم میں خون کے دوچار قطرے چھوڑہی دیتی ہے گدھ بھی اتنا نہیں نوچتے جتنے معاشرے کے یہ ناسور بے روزگاروں کو نوچتے ہیں۔حکومتی چھتری تلے بیٹھے بابوئوں کو تو ہم نوسرباز بھی نہیں کہہ سکتے کہ مبادا کہیں کار سرکار میں مداخلت نہ ہوجائے ۔ وہ تو جو کھیل رچا رہے ہیں سورچا رہے ہیں کوئی شاید کبھی یہ بھی پوچھنے کی جرأت نہ کرسکے جہاں حکومتی اللوں تللوں پر اربوں خرچ ہوجائیں وہاں بے روزگاروںسے ٹیسٹ انٹرویو کے نام پر رقوم بٹور نے کا کیا اخلاقی جواز ہے ؟لیکن ہم ہاتھ باندھ کر اپنے سیکورٹی اداروں سے یہ ضرورپوچھتے ہیں کہ ان کی ناک تلے نت نئے فراڈ کھیلے جاتے ہیں ۔ کبھی مضاربہ کے نام پر عام لوگوں کی جمع پونجی لوٹ لی جاتی ہے کبھی بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے نام پر ایک جعلی میسج کے ذریعے عام لوگوں کو پھانسا جاتا ہے ۔ کبھی بیرون ملک اور کبھی اندرون ملک ملازمتوں کے پر کشش جھانسے دے کر پہلے ہی دووقت کی روٹی کو ترستے مفلسوں کی زندگی کو اور مشکل بنادیا جاتا ہے مگر ادارے میٹھی لسی پی کر سورہے ہوتے ہیں ان کو انگڑائی اس وقت آتی جب لوٹ مارکرنے والے پیسہ ہضم کھیل ختم کا باقاعدہ اعلان کردیتے ہیں بے روزگاری کی آگ میں جھلستے فدا محمد جیسے یہ لاکھوں نواجون جو حصول ملازمت کیلئے مانگ تانگ کر فیسیں بھرتے ہیں ہمارے معاشرے کا ایک ایسا بھیانک اور مکروہ چہرہ ہیں جس کا سوچ کر بھی اس نظام سے گھن آتی ہے اور اس پر آنکھیں بند کرلینے والے ارباب اختیار پر لعنت بھیجنے کو من چاہتا ہے۔