تحریر: پروفیسر رفعت مظہر بستیاں تو بستے بستے بستی ہیں پھر پتہ نہیں کیوں کپتان صاحب اور مُرشد نے اسلام آباد کے ڈی چوک میں اتنی محنتوں سے بسائی اپنی بستی اپنے ہی ہاتھوں سے اجاڑ کے رکھ دی۔وہ جگہ جہاں ہر طرف رونقیں ہی رونقیں تھیں اب وہاں اُلو بولنے لگے ہیں۔ ہم جیسے ” نومولود و نو آموز”لکھاریوں کے لیے تو یہ کسی سانحے سے کم نہیں کیونکہ ہم تو خوش تھے کہ ہمیں اپنے کالموں کا پیٹ بھرنے کے لیے وافر مواد مِل رہا تھا لیکن ہماری اُمیدوں پر پانی پھر گیا اورہم سوچنے پر مجبور ہو گئے کہ اب مواد ”کتھوں”ملے گا۔ ہمیں تو یقین تھاکہ یہ دھرنے ساڑھے تین سال تک اپنی بہاریں دکھاتے رہیں گے کیونکہ پھر تو الیکشن ہوہی جانے تھے لیکن مرشد اور کپتان نے ہمارے خوابوں کو چکنا چور کرتے ہوئے ہمیں یہ کہنے پر مجبور کر دیا کہ”جِن پہ تکیہ تھا ،وہی پتّے ہوا دینے لگے۔ اِس اُجڑی بستی نے تو ہمارے کالموں کی دُنیا ہی اجاڑ کے رکھ دی جس کے بعد ہم بھی یہ سوچنے پر مجبور ہو گئے کہ کیوںنہ اپنی ذاتی سیاسی جماعت ہی بنا لی جائے تاکہ اِس قسم کا کوئی خطرہ باقی نہ رہے۔ اب ہم نے اپنی سیاسی جماعت کا ڈھانچہ تقریباََ مکمل کرلیا ہے بَس نوک پلک سنوارنا باقی ہے یا پھر ایجنڈا۔۔۔۔لیکن ایجنڈا ہمارے لیے کوئی مسلٔہ نہیں کیونکہ ہمارا ایجنڈا بھی وہی ہے جو خاں صاحب اور علامہ صاحب کا ہے۔ اِس ایجنڈے کی تکمیل کے لیے ہم بھی”فنڈریزنگ”کے لیے نکلنے والے ہیں۔
ہمیں یقین ہے کہ ہمارے بیرونی دوست ہمیں مالامال کر دیں گے اور اندرونی دوست تو نوٹ، سپورٹ اورووٹ دلائیں گے ہی۔پروگرام تو ہم نے بھی یہی بنایا تھا کہ لندن میں بیٹھ کے گوہرِ مقصود کے حصول کا پلان مرتب کریں لیکن مسٔلہ یہ آن پڑا کہ ہمارے پاس تو لندن کے ریٹرن ٹکٹ ”جوگے” پیسے بھی نہیں تھے اِس لیے گھر بیٹھ کر ہی پلان ترتیب دینا پڑا۔ اب توہم نے چوری چوری،چپکے چپکے ”قائدانہ پریکٹس”بھی شروع کر دی ہے اور خوابوں خیالوں میںاپنے گھر کی سب سے اونچی کُرسی پر بیٹھ کرکئی مرتبہ قوم سے خطاب بھی کر چکے ہیں۔یہ خواب ہی تو ہیں جن کے ہم بلا شرکتِ غیرے مالک ہوتے ہیںاور بِلاروک ٹوک جب جی چاہے راج سنگھاسن پر براجمان ہو سکتے ہیں۔ اِس لیے خواب دیکھنے میں حرج ہی کیا ہے۔
فیصل آباد کے عظیم الشان جلسے کے شُرکاء کی تعداد مُرشد نے تین سے چار لاکھ بتائی جبکہ نجی ٹی وی چینلز اسے بیس سے تیس ہزارتک قرار دے رہے ہیںاور حکمرانوں نے تو حد ہی کر دی جنہوں نے انسانوں کے اِس سمندر کومحض دَس بارہ ہزار کا مجمع قرار دے دیا۔اپنی انہی حرکتوں کی بنا پر تو حکمران ”وَخت”میں پڑتے اور چار وناچار اُن لوگوں کو مدد کے لیے پکارتے رہتے ہیں جنہیں عام حالات میں وہ مُنہ لگانا بھی پسند نہ کریں ۔ہم تسلیم کرتے ہیں کہ جلسے میں فانی انسانوں کی تعداد تو دَس بارہ ہزار ہی تھی لیکن ‘فرشتوں”کی تعداد چار لاکھ سے بھی زیادہ، جو صرف مُرشدکو ہی نظر آرہے تھے اِسی لیے اُنہوں نے اِس مجمعے کو انسانوں کا سمندر قرار دیااور یہ تو ہمارے عقیدے کا جُزوِلایَنفک ہے کہ مُرشد کبھی جھوٹ بولتے ہیں نہ عمران خاںکیونکہ دونوں ”بھائی بھائی”ہیں۔بھائی بھائی بن جانے کے بعد تو”دو ملّاؤں میں مُرغی حرام”والا خطرہ بھی ٹَل چکا ہے اور آنے والے دنوں میں دونوں بھائی حقِ حکمرانی والا وہی فارمولا استعمال کرنے والے ہیں جو امریکہ کی مہربانی سے افغانستان میں استعمال ہوا۔اِس فارمولے میں چونکہ ہماری کوئی گنجائش نکلتی نظر نہیں آتی ،اسی لیے ہم نے اپنی الگ پارٹی بنانے کی تگ و دَو شروع کر دی ہے۔ہمیں یقین ہے کہ آنے والے دنوں میں جب ہم بھی جلسے کیا کریں گے تو کچھ بَد بخت لوگ شرکاء کی تعداد سو ڈیڑھ سو ہی بتایا کریں گے کیونکہ وہاں بھی اُنہیں لاکھوں فرشتے نظر نہیں آنے کے۔
Supreme Court
مُرشد نے اپنے ”فیصل آبادی”خطاب میں فرمایا کہ وہ پنجاب کے ہر ڈویژن کو صوبہ بنائیں گے، فیصل آباد میں سپریم کورٹ کا بنچ، تمام اضلاع میں ہائی کورٹ کے بنچ اور یونین کونسلوں میں سیشن کورٹ قائم ہوں گے۔پاکستان کا سارا قرضہ چھ ماہ میں ادا کر دیا جائے گا ،اشیاء کی قیمتیں آدھی کر دی جائیں گی اور وکلاء کی فیس ریاست ادا کرے گی ۔اُنہوں نے یہ بھی فرمایا کہ قوم اُنہیں نوٹ، ووٹ اور سپورٹ دے دے ،وہ قوم کو قائدِ اعظم کا پاکستان لوٹا دیں گے لیکن اگر کسی نے نوٹ اپنی جیب میں سینت سنبھال کر رکھے،سپورٹ اور ووٹ کسی اور کی جھولی میں ڈال دیئے توپھر انقلاب آئے گا نہ قائدِ اعظم کا پاکستان ملے گا۔ ہمیں مُرشد کے اِن فرمودات سے مکمل اتفاق ہے اور ہم بھی یہی کہتے ہیں کہ اگر قوم ہماری نومولود پارٹی کو نوٹ،ووٹ اور سپورٹ دے دے تو ہم بھی پاکستان کو امریکہ بنا کے دکھا دیں گے۔ہم چونکہ چادر دیکھ کر پاؤں پھیلانے والوں میں سے ہیں اِس لیے ہم فی الحال اپنی تحریک کا آغاز لاہور سے کریں گے اور ہمارا منصوبہ یہ ہے کہ ہم لاہور کو شرقی،غربی،شمالی،جنوبی اوروسطی لاہور میں تقسیم کرکے پانچ نئے صوبے بنا دیں تاکہ ”لاہوریوں”کو پانچ پانچ ”خادمِ اعلیٰ”میسر ہوںاور اُنہیں کسی ایک خادمِ اعلیٰ پر انحصار نہ کرنا پڑے۔ویسے بھی ہمارے خادمِ اعلیٰ بیچارے اکیلے بھاگ بھاگ کر تھک چکے ہیں اور اب اُنہیں آرام کی اشد ضرورت ہے۔اگر وہ تھک نہ چکے ہوتے تو کیسے ممکن تھا کہ وہ سانحہ ماڈل ٹاؤن سے بے خبر رہتے۔
اِس لیے ضروری ہو گیا ہے کہ ماڈل ٹاؤن کو الگ صوبہ بنا دیا جائے تاکہ ایسا سانحہ دوبارہ رونما نہ ہو سکے۔یہ وسطی صوبہ ہو گا اور باقی چار صوبے اِس کے ”گرداگرد ”گھومنے والے ہونگے۔ہم نے یہ بھی سوچ رکھا ہے کہ لاہوریوں کو بِلا امتیاز روٹی، کپڑا، مکان، صحت، تعلیم اور دیگر چھوٹی بڑی تمام سہولیات مفت فراہم کی جائیں۔ہر محلے کا اپنا ہائی کورٹ ہو اور ہر گلی میں ایک سیشن جج اور ایک تھانہ بنا دیا جائے تاکہ فیصلے عشروں نہیں، گھنٹوں میں ہونے لگیں۔
ہمارا یہ بھی منصوبہ ہے کہ ہر گھر میں نادرا کی شناختی کارڈ بنانے کی مشین فراہم کر دی جائے تاکہ جونہی کوئی بچہ پیدا ہو، اُس کا شناختی کارڈ بنایا جا سکے۔بھلا یہ کیا ہوا کہ شناختی کارڈ بنانے کے لیے پہلے اٹھارہ سال انتظار کیا جائے اور پھر لمبی لمبی قطاروں میں لگ کر گلتے سڑتے رہیں۔ہماری انہی سُستیوں نے تو ہمیں یہ دِن دکھائے ہیں ۔ہم تو یہ بھی چاہتے ہیں کہ جونہی کوئی ذی روح اِس عالمِ آب و گِل میں وارد ہو تو فوری طور پر اُسے ووٹ دینے کا حق دے دیا جائے۔ ہمیں یقین ہے کہ محترم عمران خاںہماری اِس تجویز سے نہ صرف اتفاق کریں گے بلکہ خوشی سے باغ باغ ہوجائیں گے کیونکہ اُن کے جلسوں میں بچوں کی تعداد زیادہ اور ووٹ دینے والوں کی کم ہوتی ہے۔ پہلے بھی بچوں کو ووٹ کا حق نہ دے کر تحریکِ انصاف کے ساتھ”دھاندلی”کی گئی۔اب جب کہ تمام سہولیات خود ہی فراہم کرنے کی ذمہ داری اٹھا لی ہے تو پھر لوگوں کو چاہیے کہ وہ اپنی تمام جمع پونجی فوری طور پر ہمارے پاس جمع کروا دیں تاکہ ہم الیکشن جیت کر اپنے منصوبوں کو پایۂ تکمیل تک پہنچا سکیں۔