اسلام آباد (اصل میڈیا ڈیسک) حکومت پاکستان نے رواں مالی سال کے پہلے دو ماہ میں ڈیڑھ ارب ڈالر کے بیرونی قرضے لیے ہیں جو گزشتہ سال اسی عرصہ کے دوران لیے گئے قرضوں کے مقابلے میں 108 فیصد زائد ہیں۔
غیرملکی قرضوں میں یہ اضافہ آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے کے بعد سے شروع ہوا ، آئی ایم ایف پروگرام کے تحت تین سال میں پاکستان کیلیے 38ارب ڈالر کی غیرملکی فنڈنگ کا تخمینہ ہے۔ وزارت خزانہ کے اعدادوشمار کے مطابق اس سال جولائی اور اگست میں غیرملکی کمرشل بینکوںاور مختلف قرض دہندگان نے پاکستان کو1.49ارب ڈالر دیے ہیں جبکہ 2018کے انھی دو ماہ میں 71.4کروڑ ڈالر قرضہ لیا گیا تھا۔ ڈیڑھ ارب ڈالر کے ان قرضوں کے علاوہ برطانیہ، امریکا اور جاپان سے غیرملکی گرانٹس کی شکل میں 4132.3ملین بھی لیے گئے ہیں۔
پی ٹی آئی حکومت نے اس سال کرنٹ اکاؤنٹ خسارے اور بیرونی قرضوں کی ادائیگی کی ضروریات کیلیے 13ارب ڈالر کے قرضے لینے کا ہدف رکھا ہے اور یہ ڈیڑھ ارب ڈالر مجموعی ہدف کا 11.5فیصد ہیں۔ حکومت نے اپنے پہلے سال کے دوران 16ارب ڈالر کے بیرونی قرضے لیے تھے۔ کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ اگرچہ کم ہو رہا ہے تاہم رواں مالی سال کے دوران یہ خسارہ پورا کرنے کے لیے تقریباً 8ارب ڈالر درکار ہیں۔ آئی ایم ایف نے رواں مالی سال کیلیے کم ازکم 25.6ارب ڈالر کی بیرونی امداد کی ضرورت کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔ یہ تخمینہ 6.6ارب ڈالر کے متوقع کرنٹ خسارے کی بنیاد پر لگایا گیا ہے جبکہ ڈپٹی گورنر اسٹیٹ بینک جمیل احمد کا کہنا ہے کہ رواں سال کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 8ارب ڈالر کے لگ بھگ رہ سکتا ہے۔ اس سال جولائی، اگست میں کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 1.3ارب ڈالر رہا جو گذشتہ سال کے اسی عرصہ کے مقابلے میں 53فیصد کم ہے۔
اس سال جولائی، اگست میں ڈیڑھ ارب ڈالر کے قرضوں میں 321.5ملین ڈالر کے کمرشل قرضے اور 500ملین ڈالر ایشیائی ترقیاتی بینک کی پہلی امداد شامل ہے ،دوطرفہ قرض دہندگان کی طرف سے 272ملین ڈالر وصول ہوئے جو کل قرضوں کا 18فیصد ہے۔ سعودی عرب نے 108ملین ڈالر دیے۔ چین نے پراجیکٹ فنانسنگ کی مد میں 158.3ملین ڈالر دیے جو گذشتہ سال کے اسی عرصہ کے مقابلے میں47فیصد کم ہے، سی پیک کی بہت سے اسکیمیں مکمل ہونے کے باعث چینی فنانسنگ میں کمی آئی ہے۔چین نے حویلیاں تھاکوٹ روڈ کیلیے 27.2ملین ڈالر اور سکھر ملتان موٹروے کیلیے 68.2ملین ڈالر دیے، یہ دونوں منصوبے مکمل ہو چکے ہیں اور وزیراعظم عمران خان کی طرف سے افتتاح کے منتظر ہیں۔
آئی ایم ایف کی شرائط کی وجہ سے سی پیک بہت زیادہ متاثر ہوا ہے اور9ارب ڈالر کے ریلوے مین لائن ون پراجیکٹ کے مستقبل قریب میں شروع ہونے کا کوئی امکان نظر نہیں آتا۔ حکومت نے321.5ملین ڈالر کے قدرے مہنگے کمرشل قرضے لیے ہیں جو مجموعی قرضے کا 21فیصد ہیں۔ کمرشل بینکوں کے قرضوں میں تقریباً 5گنا اضافہ ہوا ہے، رواں مالی سال کے دوران حکومت نے 2ارب ڈالر کے کمرشل قرضے لینے کا تخمینہ رکھا ہے۔ گزشتہ ماہ سٹی بینک نے حکومت کو 148.2ملین ڈالر شارٹ ٹرم سہولت کے طور پر دیے، دبئی بینک اور کریڈٹ سوئس کی سربراہی میں کنسورشیم نے لندن انٹر بینک ریٹس پر 173ملین ڈالر کے قرضے دیے۔گورنر اسٹیٹ بینک ڈاکٹر رضا باقر حکومتی سکیورٹیز میں سٹی بینک کی سرمایہ کاری لانے کیلے کوشاں ہیں۔ پی پی دور کے سابق اقتصادی مشیر ثاقب شیرانی نے ایکسپریس ٹربیون کو بتایا کہ ڈاکٹر رضا باقر نے بیرونی سرمایہ لانے کیلیے لندن میں سٹی بینک کے زیراہتمام کانفرنس میں شرکت کی ہے۔
گزشتہ ماہ کثیر طرفہ قرض دہندگان کی طرف سے قرضوں میں اضافہ ہوا اور حکومت نے ان سے 896ملین ڈالر کے قرضے لیے جو مجموعی قرضے کا 60فیصد ہیں۔ اسلامی ترقیاتی بینک نے551 ملین ڈالر کی آئل کریڈٹ کی سہولت کے تحت 285ملین ڈالر دیے۔ ایشیائی ترقیاتی بینک نے گزشتہ 2 ماہ میں 520ملین ڈالر دیے۔ پاکستان نے ایشیائی ترقیاتی بینک سے مجموعی طور پر 1.7ارب ڈالر قرضے کا تخمینہ لگا رکھا ہے اور اسے 2.2ارب ڈالر سے زائد ملنے کی توقع ہے۔ ورلڈ بینک نے 1.2ارب ڈالر کے قریب سالانہ تخمینے کے سلسلے میں 65ملین ڈالر جاری کیے ہیں۔ حکومت نے عالمی مارکیٹ میں لانگ ٹرم سیکیورٹی پیپرز جاری کرنے کے لیے مالیاتی مشیروں کی خدمات حاصل کرنے کا سلسلہ شروع کردیا ہے، یورو بانڈز اور سکوک کے ذریعے 3ارب ڈالر جمع کرنے کا منصوبہ ہے۔