ماہ ربیع الاول میں رحمت و برکت کے پیکر پیغمبر حضرت محمد مصطفی احمد مجتبیٰۖ کی آمد

 Jashn-e-Eid Milad-un-Nabi

Jashn-e-Eid Milad-un-Nabi

تحریر: عتیق الرحمن
چھٹی ساتویں صدی عیسوی میں انسانی معاشرہ درندگی و ذلت اور پستی کی تاریک و عمیق گہرائیوں میں جی رہی تھی کہ وہاں پر انسان انسان کے حقوق کا تحفظ کرنے سے انکاری تھا ، خواتین کا استحصال ہوتا تھا، بیٹیاںح زندہ درگرو کی جاتی تھیں، عورت وراثت میں مال کی طرح منتقل ہوجاتی تھی ، امیر و غریب میں بدترین تفاوت تھا کہ سردار قبیلہ و وقت کا حکمران جو چاہے جیسے چاہے رعایا سے بزور قوت حاصل کرلیتا تھا۔مزدور کی مزدوری و حق سلب کرلیا جاتاہے۔گویا کہ انسانی معاشرہ حیوانیت کا روپ دھار چکاتھا ایسے میں رحمت الٰہی کو جوش آیا کہ نبی آخر الزمانۖ کو مبعوث کرنے کا فیصلہ کیا ۔محمد مصطفیٰۖ و احمد مجتبیٰۖ کی بعثت کے ساتھ ہی زمانے سے ظلمت و تاریکیوں کے بادل کافور ہوگئے۔آپۖ کی آمد کے ساتھ ہی کتاب اللہ تاروز محشر کیلئے ہدایت نامے کے طور پر بھیجی گئی اور اللہ نے امت محمدیہۖ کو یہ بھی اعزاز بخشا کہ آپ کی بعثت کے ساتھ ہی امت کی بعثت کا اعلان کیا کہ”تم وہ بہترین امت ہو جولوگوں کو نیکی کی دعوت اور برائی سے منع کرنے کیلئے بھیجے گئے ہو”۔

محبوب خداۖ کی بعثت کے نتیجہ میں تمام ظلم و جور ہمیشہ کیلئے ختم ہونے کے ساتھ ہی تمام بت کدوں پر زوال و ذلت کی چادر دائمی پڑگئی۔ اور نبی کریمۖ نے انسانی معاشرے کے تمام افراد کو برابر و یکساں حقوق عطاکیے کہ کوئی فرد بشر درکنار حیوان و نباتات کے حقوق کی حفاظت کا حکم بھی آپۖ نے صادر فرمایا یہاں تک کہ نبی اکرمۖ نے کوہ صفاء کی پھاڑی پر دعوت اسلام کا اعلان بالجہر کیا تو اپنے ہی خاندان کے لوگوں سمیت چچا ابولہب و مشرکین مکہ آپۖ کے مخالف ہوگئے ۔جو لوگ آپ کو صادق و امین کہہ کر اپنے اہم فیصلے آپۖ سے کراتے تھے اور اپنی امانتیں آپ کے پاس جمع کراتے تھے ان بین صفات کو جاننے پہنچانے اور ان کا اعتراف کرنے کے باوجود اعلان نبوت کے بعد آپۖ کے جانی دشمن بن گئے ۔اللہ تعالیٰ نے 13سال کی طویل ترین مشکل زندگی کے بعد مسلمانوں کو مدینہ میں کامیابی عنایت کی کہ آپۖ نے یہود و نصاریٰ و قبائل مدینہ کے ساتھ میثاق و معاہدہ بھی کیا کہ ہم اپنے شہرمدینہ کی حفاظت پر متفق ہیں کوئی بھی ایک دوسرے پرچڑھائی نہیں کرے گا اور اگر کسی نے باہر سے دست درازی کی تو معاہدہ کرنے والے مسلم و غیر مسلم مشترکہ طورپر اپنے شہر کا دفاع کریں گے۔

باوجود اس کے کہ متعدد لوگوں نے پیغمبر دوعالمۖ کی دعوت کو پنپتے اور پھلتے پھولتے دیکھ کر آپ کی دعوت پر لبیک کہا اور بظاہر حلقہ بگوش اسلام ہوئے ان کے بارے آپ ۖ کو بذریعہ وحی مطلع بھی کردیا گیا مگر آپۖ نے اپنے ازلی و ابدی دشمنوں اور بظاہر ہمدردی و اتفاق کا اظہار کرکے عبداللہ بن ابی و دیگر منافقین یہود و نصاریٰ و مشرکین کو مسلمانوں کیخلاف اکساتے اور کوششیں کرتے رہے ۔ان لوگوں کے خلاف آپ ۖ نے کوئی ایکشن نہیں لیا بلکہ منافقین کا جنازہ بھی پڑھایا اور ان کی تدفین کیلئے اپنا لباس بھی عنایت کیا باوجود اس کے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں واضح حکم دیا کہ ”منافقین کی نماز جنازہ نہ پڑھیں ”اورفرمایا کہ ” منافقین کیلئے ایک نہیں ستر بار بھی دعائے مغفرت کریں تب بھی ان کی بخشش نہیں ہوسکتی”اس کے باوجود رحمت دوعالمۖ یہ خواہش رکھتے تھے کہ امت کا ہر فرد ذلت و رسوائی کی زندگی سے نکل کر ہمیشہ ہمیشہ کی بھلائی و خیر سے مستفید ہوکر جنت میں جانے والا بن جائے۔یہی نہیں آپۖ نے اپنے چچاجنت میں شہداء کے سردار سید نا امیر حمزہ کے قاتل و حکم دینے والوں اور خود آپۖ کیخلاف سازش و کوشش کرنے والوں کو بھی معاف کردیا۔

8ہجری کو جب مکہ مکرمہ میں آپۖ بحیثیت فاتح داخل ہوئے تو آپۖ نے مشرکین مکہ کے سردار ابوسفیان کو اسلام قبول کرنے کے بعد اکراماً تمام مشرکین مکہ سے برملا اعلان کیا کہ آج کے دن کوئی بدلہ نہیں لیا جائے گا ۔بلکہ ماضی کی تمام خطائوں کو توبہ کرنے اور اسلام میں داخل ہونے پر معاف کردیا گیا ہے اور جو لوگ اپنے گھروں کے دروازے بند کرلیں، ابوسفیان کے گھر چلے جائیں ان سب کو امان حاصل ہے۔یہ آپۖ کی آمد کا فیض ہی ہے کہ رستم کے دربار میں حضرت ربعی ابن عامر کھڑے ہوکر اعلان کرتے ہیںکہ ”ہمیں اللہ نے بھیجا ہے لوگوں کو بندوں کی بندگی سے نکال کر ایک خدابرحق کی بندگی میں لانا،مذاہب و ادیان کے ظلم و جور سے نکال کر اسلام کے عدل میں پناہ عنایت کرنا اور دنیا کی تنگی سے نکال کر دنیا کے کشادگی کی طرف لانے کیلئے”یہ ایک ایسا پیغام ہے کہ جو انسان دردر پرسرجھکاتا ہے اس ک حمیت و غیرت اور آزادی سلب ہوجایا کرتی ہے اور ایک اللہ تعالیٰ پر ایمان لانے کے بعد کسی بت، پتھر، سورج، فرشتے، آگ اور کئی قسم کے بنائے اور گھڑے گئے معبودوں سے دائمی نجات مل جاتی ہے خوف و خطر بھی ابد کیلئے زائل ہوجاتاہے۔

مسلمانوں کیلئے مینارہ رشد و ہدایت اور منبع رحمت و برکت آپۖ کی ہی ذات اقدس تھی اور انہوں نے ہر وہ حکم جو اللہ تعالیٰ نے دیا اس کو پیش کرنے کے ساتھ اپنے زندگی میں عمل بھی کرکے دکھایا تاکہ کوئی بھی فرد بشر یہ نہ کہے کہ آپۖ نے تو صرف تعلیمات و فلسفہ بیان کیا ہے عمل کا طریقہ اور طرز عمل تو پیش نہیں کیا یہی وجہ ہے کہ سفر و حضر میں، جنگ و امن میں، گھر و بازار میں، عقیدہ و عبادت اور مالی معالات میں، ازدواجی مسائل ہوں یا گھریلوں زندگی، اولاد کے ساتھ رویوں میں، چھوٹوں پر شفقت اور بڑوں کا احترام کرنے میں، امیر و غریب، یتیم و مسکین، حاکم و محکوم ، بحیثیت حاکم و جرنیل ،دوست و دشمن کے ساتھ تعلق،بحیثیت شوہر، باپ، قاضی و مصلح ہر اعتبار سے آپ ۖ نے صداقت و امانت، سخاوت و شجاعت ،حکمت و تدبرکا اختیار کرتے ہوئے اپنی ذات کو بطور نمونہ کے پیش کردیا یہی وجہ ہے کہ آپ ۖ کی زندگی کے بارے میں پوچھنے والے صحابی کوام المئومنین سیدہ عائشہ صدیقہ نے کہا کہ آپۖ کے اخلاق و کردار اور عادات عالیہ کو دیکھنا اور پرکھنا چاہتے ہوتو قرآن مجید کا مطالعہ کروآپۖ کے اخلاق وہی تھے جو کچھ قرآن بیان کرتاہے گویا کہ آپ زمین پر چلنے والے قرآن ہیں۔

آپۖ نے انسانی معاشروں کو یوم حساب تک زندگی میں پیش آنے والے مسائل و پریشانیوں سے باخبر کردیا تھا اور ان سے نجات پانے کیلئے حل بھی تجویز فرمائے ۔کف افسوس ملنا پڑتا ہے کہ آج کا مسلم معاشرہ سیرت طیبہ ۖ اور مقصد بعثت نبیۖ سے ناواقف ہوچکے ہیں فقط محب و مودت کا اظہار نعروں ، جلسوں اور جلوسوں کے ذریعے ظاہر کرنے کی کوشش کرتے ہیں جوکہ سعی لاحاصل ہے کیونکہ آپۖ نے خوداپنی صاحبزادی سیدہ فاطمہ اور پھوپی سید صفیہ سے ارشاد فرمادیا تھہ کہ”عمل کروقبر و حشر میں میری نسبت کچھ فائدہ نہیں دیگی” کیا وجہ ہے کہ تعلیم یافتہ مسلمان آج صرف میلاد کی خوشی مناکر یا چند نعت و تقریر یا تحریر کے ذریعے میٹھے بول بول کر جن کی اہمیت و افادیت اپنی جگہ پر مسلم ہے مگر انہی پر اکتفا کرلینا شفاعت و نجات کیلئے کافی و شافی نہیں۔ بلکہ ہمیں زندگی کے ہر لمحہ اور ہر آن اٹھتے بیٹھتے ، چلتے پھرتے، عبادات و معاملات ، تجارت و ملازمت، در س و تدریس، جنگ و امن ، اختلاف و اتفاق ، نفرت و محبت کا اظہا کرتے وقت آپۖ کی سیر ت طیبہ ۖ سے رہنما اصول لینے چاہئیں۔کیونکہ ملت اسلامیہ اس وقت تک اقبال و عروج پر نہیں پہنچ سکتی تاوقتیکہ آپۖ کی حیات پاکیزہ پر عمل کرے کیونکہ یہ حکم قرآنی بھی ہے اور ہر مسلمان کیلئے حضور سرورکونین ۖ کی ذات اطہر ہی نمونہ و مثالی اور آئڈیل ہے اور ہوبھی کیوں نا کہ خود قرآن نے بیان کردیا ہے کہ”تحقیق تمہارے درمیان اللہ کے رسول بطور نمونہ و اسوہ حسنہ ہیں جو اللہ تعالیٰ اور آخرت پر ایمان رکھتے ہوںاور یادکرو اللہ کو بہت زیادہ”اور پھر قرآن میں ہی آپۖ کو ہی اعلیٰ اخلاق کا پیکر بتلایا گیا ہے اور خود آپۖ نے بھی حدیث میں بیان فرمادیا ہے کہ میں اخلاق کی تکمیل کرنے کیلئے بھیجا گیا ہوں۔

سو ہم سب مسلمانوں کیلئے آپ ۖ کی بعثت باعث برکت و رحمت تو ہے ہی کہ آپ کے صدقہ سے ہم باوجود سرکشی و طغیان میں گرفتار ہونے کے اجتماعی عذاب سے محفوظ کرلیے گئے اور آپۖ نے اپنے یوم وصال کے دن اور روح کے پرواز کے عالم میں بھی امت کی مغفرت و بخشش کیلئے دعا کی ہے تو یہ امر ہم سے اس کا متقاضی ہے کہ ہم زندگی کے ہر پہلو اور مسئلہ جو ہمیں دینی و دنیا وی لحاظ سے درپیش ہو، انفرادی و اجتماعی ، اصولی و فروعی جو کوئی بھی مشکل سے مشکل امر ہوآپۖ کی سیرت طیبہۖ کے ذریعہ حل کرنے کی کوشش کریں چونکہ آپۖ نے فرمادیا ہے واشگاف الفاظ میں کہ زمانہ اخیر میں لوگ صبح مسلمان اٹھیں گے تو شام کو کافر مرینگے اور رات کو مسلمان سوئیں گے تو صبح کافر ہوجائینگے ۔جب صحابہ کرام نے اس فتنہ سے چھٹکارا حاصل کرنے کا طریقہ معلوم کیا تو ارشاد فرمایا کہ میں تمہارے درمیان دوچیزیں چھوڑے جارہاہوں جب تک ان کی حفاظت و پابندی کرتے رہیں گے تب تک کوئی بھی فتنہ و سازش آپ پر اثر انداز نہیں ہوگی۔اولین مسلمانوں نے دنیا پر اپنی دھاگ ،رعب و دبدبہ قرآن مجید اورآپۖ کی تعلیمات کے ذریعہ ہی قائم رکھا جب سے مسلمانوں نے قرآن و سنت کو سمجھنا اور پڑھنا چھوڑدیا ہے اور فقہی و مسلکی، لسانی و سیاسی مسائل میں الجھ کر گروہ بندی کے شکار ہوگئے ہیں تب سے دنیا بھر میں ذلیل و رسوا ہورہے ہیں۔اب ہم پر لازمی ہے کہ ہم امت میں تفرقہ ڈالنے کی بجائے اللہ کے پیارے حبیب ۖ کی سیر ت و سنت پر عمل کرنے کی کوشش کرکے ازلی و ابدی نجات حاصل کرنے کی سعی کریں۔اللہ جل شانہ ہم سب مسلمانوں کو آپۖ کی اطاعت و فرمانبرداری ،تابعدار و محبت و عشق کی توفیق عنایت فرمائے۔اور اسی کے صدقہ سے مسلمانوں کو قرون اولیٰ کی طرح عروج و اقبال مندی سے سرفراز فرمائے ۔آمین۔

Atiq ur Rehman

Atiq ur Rehman

تحریر: عتیق الرحمن
(اسلام آباد)
دیس کی بات
03135265617
03325292433
[email protected]