تحریر : رانا اعجاز حسین چوہان وہ چھبیس رمضان کا دن اور ستائیس رمضان المبارک کی شب تھی جب برصغیر کے مسلمانوں کی جدوجہد آزادی رنگ لائی، اور خالق ارض و سماء اللہ ربّ العزت کے خاص فضل و کرم سے ایک آزاد، خود مختار، اسلامی فلاحی ریاست ”اسلامی جمہوریہ پاکستان” کے قیام کا اعلان ہوا۔ یہ مالک عرض وسماںاللہ عزو جل کا خاص احسان ہے کہ اس نے اپنے فضل و کرم سے زرخیز خطہ سرزمین کے علاوہ پاکستان کو بے شمار قدرتی وسائل اور معدنیات سے نوازا، اورسر زمین پاکستان کی دبیز تہوں میں قیمتی دھاتیں اور غیر دھاتی معدنیات کثیر مقدار میں رکھے۔ چاغی اور پنجاب میں کروڑوں ٹن خام لوہے کے ذخائر،زوق اور بگٹی مری کے علاقہ میں سونا چاندی ، تانبہ کے وسیع ذخائر ، بلوچستان میں کرومیٹ، بارینیٹ کوارٹرائیٹ کے ذخائر، اورصوبہ بلوچستان اور سندھ میں تیل اور گیس کے وسیع ذخائر، اور صوبہ سندھ کے تھر میں کوئلہ کے ذخائر کے علاوہ بھی اللہ تعالیٰ نے اس خشک صحراء میں قیمتی و نایاب چیزیں چھپاکر اہل پاکستان کو قدرتی نعمتوں سے مالا مال کیا ہے۔ جبکہ چین کی کمپنی میٹالرجیکل کارپوریشن آف چائنہ کے مطابق پنجاب کے علاقہ چنیوٹ میں اب تک کی تحقیقات کے مطابق بہترین سونا ، چاندی، تامبے اور لوہے سمیت قیمتی دھاتوں کے ذخائر دریافت ہو چکے ہیں۔
ان لا محدود خزانوں کے علاوہ خالق ارض و سماء اللہ ربّ العزت نے اہل پاکستان کو انتہائی خوبصورت خطہ سرزمین سے نوازاہے جہاں ایڈونچر سے بھرپور ٹورازم، قدرتی حسن و خوبصورتی سے مزین مقامات کے علاوہ مذہبی و تاریخی مقامات کثیر تعداد میں موجود ہیں۔ سرزمین پاکستان کے قدرتی مناظر میں ساحل سمند رسے لے کر آسمان کو چھوتی برف پوش پہاڑی چوٹیاں ، خوبصورت آبشار یں، چشمے و جھرنے ، سرسبز گھنے جنگلات سے بھر ے پہاڑ اور وادیاں ، خوابوں سے بھری رومان خیز جھیلیں اور وسیع و عریض دنیا کے مشہورصحرا شامل ہیں۔ اور ان سب سے بڑھ کر یہ کہ قیام پاکستان کی بدولت اہل پاکستان کو غلامی کے طوق سے نجات ملی جو کہ قدرت الٰہی کی انمول ترین نعمت ہے۔ رمضان المبارک کی مبارک ساعتوں میں پاکستان کا قیام درحقیقت قدرت الٰہی کا بہت بڑا انعام ،اور رمضان المبارک میں مسلمانوں کی دعاؤں کی قبولیت، قرآن کریم کی تلاوت اور کلمہ طیبہ کی برکت تھی ۔ مگر صد افسوس کہ ہم اہل پاکستان قیام پاکستان سے آج تک اہل پاکستان اس بحث کا شکار ہیں کہ قیام پاکستان کا مقصد کیا تھا۔ تحریک پاکستان کا اگر غیر جانبداری سے تجزیہ کیا جائے تو یہ بھی حقیقت آسانی کے ساتھ سمجھی جا سکتی ہے کہ مختلف صوبوں، علاقوں اور مختلف فرقوں سے تعلق رکھنے والے مسلمانوں کو جس قوت نے ایک متحدہ قوم بنا دیا وہ قوت اسلامی نظرئیہ تھا، تحریک پاکستان میں قائد اعظم محمد علی جناح کا پرزور موقف یہ تھا کہ مسلمان اپنے الگ مذہب کی بنیاد پر ایک جداگانہ قوم ہیں۔ گویا جتنی چاہے بحث اور تجزیہ کر لیں تحریک پاکستان کی بنیاد اسلام ہے۔ اسلام ہی نے ہمیں قیام پاکستان کے مخالفین کے مقابلہ میں سیسہ پلائی ہوئی دیوار بنا دیا تھا۔
قائد اعظم کے مشہور سلوگن ایمان، اتحاد اور تنظیم پر ہی غور کر لیں کہ ایمان کی طاقت نے ہمیں متحد کیا۔ ہم ایک قوم بنے اور ہم اپنے لئے ایک الگ علاقہ، مملکت اور وطن حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ 8مارچ 1944ء کی مسلم یونیورسٹی علی گڑھ میں قائد اعظم کی تقریر کا یہ مختصر ترین اقتباس دیکھیں۔ ”پاکستان اسی دن وجود میں آگیا تھا جب ہندوستان میں پہلا ہندو مسلمان ہوا تھا۔ مسلمانوں کی قومیت کی بنیاد کلمہ توحید ہے ، وطن اور نسل نہیں”۔ غور کریں کہ قائد اعظم کے نزدیک کلمہ توحید کے مختصر ترین الفاظ کا مفہوم کتنا وسیع تھا کہ انہوں نے فرمایا کہ پاکستان اسی دن معرض وجود میں آگیا جب ایک ہندو مسلمان ہو گیا۔ جن لوگوں کا یہ دعویٰ ہے کہ قائد اعظم سیکولر ذہن رکھتے تھے اور وہ پاکستان میں سیکولر نظام لانے کے حق میں تھے، سیکولر ازم کا ڈھول بجانے والا یہ گمراہ ٹولہ اگر اس دور کے ہندو اخبارات میں ہندو سیاست دانوں کے بیانات پڑھ لیں تو انہیں علم ہو جائے گا کہ ہندو طبقہ پاکستان کی مخالفت ہی اس وجہ سے کر رہا تھا کہ وہ پاکستان کے مطالبہ کو اسلام ازم کی ایک کڑی سمجھتے تھے۔ وہ سیکولر طبقہ جو یہ پروپیگنڈا کرتا ہے کہ پاکستان اسلام کے نفاذ کے لئے نہیں بنایا گیا تھا اور نہ ہی پاکستان کا یہ مقصد تھا کہ یہاں اللہ کے آخری رسول حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم پر نازل ہونے والی اللہ کی آخری اور جامع کتاب قرآن کریم کے اصولوں کے مطابق نظام حکومت قائم کیا جائے گا شاید انہیں قائد اعظم کے درج ذیل فرمان ہی سے کچھ سمجھ آ جائے۔ ”اس حقیقت سے ہر شخص واقف ہے کہ قرآن مسلمانوں کا بنیادی اور مکمل ضابطہ حیات ہے۔ جو معاشرت، مذہب، تجارت، عدالت، فوجی امور، دیوانی، فوجداری اور تعزیرات کے ضوابط کو اپنے اندر لئے ہوئے ہے”۔ قائد اعظم نے مسلمانوں کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ حکم بھی یاد کروایا کہ ہر مسلمان کو چاہیے کہ وہ قرآن حکیم کا ایک نسخہ اپنے پاس رکھے تاکہ وہ اس سے اپنے لئے رہنمائی حاصل کر سکے۔
قائد اعظم نے بڑے واضح اور دو ٹوک انداز میں یہ بھی فرمایا تھا کہ ”پاکستان سے صرف حریت اور آزادی مراد نہیں اس سے فی الحقیقت مسلم آئیڈیاجی مراد ہے جس کا تحفظ ضروری ہے”۔ اب اگر مسلم نظریے کے تحفظ سے مراد سیکولر ازم ہے اور انسانی زندگی کے ہر شعبہ یعنی روحانی زندگی سے لے کر معاشرت، سیاست، معیشت اور فوجداری اور دیوانی قوانین تک قائد اعظم قرآن حکیم سے رہنمائی لینے کی جو بات کرتے ہیں، اس کا مطلب بھی سیکولر ازم ہے تو پھر یہ کہا جا سکتا ہے کہ قائد اعظم کا ایجنڈا سیکولر تھا۔ اور اگر قرآنی تعلیمات اور قرآنی احکامات کو نافذ کرنے کا مطلب سیکولر ازم نہیں ہے تو پھر قائد اعظم کی سوچ کو سیکولر کیسے کہا جا سکتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جس نظریہ پاکستان کی برکت سے ہم نے پاکستان حاصل کیا تھا اسی نظریے یعنی قرآن کریم کی اصولی ہدایات پر عمل کر کے اور اسوہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی سے ہی ہم پاکستان کو ایک بہترین اسلامی و فلاحی ملک بنا سکتے ہیں۔
Rana Aijaz Hussain
تحریر : رانا اعجاز حسین چوہان ای میل: ra03009230033@gmail.com رابطہ نمبر:0300-9230033