تحریر : ڈاکٹر عبدالمجید چوہدری رمضان المبارک اللہ کریم کی طرف سے اپنے نیک بندوں کے لئے بڑی خیر و برکت کا مہینہ ہے۔ عظیم الشان کتاب قرآن پاک جس کی بدولت ساری دنیا میں ہد ایت کی رو شنی پھیلی۔ گمراہی اور جہالت کی تاریکی دور ہوئی، اسی ماہ مبارک میں نازل ہوئی۔ رمضان شریف کی بنیادی اور اسلامی عبادت کا ا ہم رکن روزہ ہے قر آ ن پا ک کے دوسرے پا رے میں اللہ رب العزت نے روزہ کا مقصد اور روزے کی فرضیت اس طورپر بیا ن کی ہے۔
اے ا یماں والو! جس طر ح ان لو گو ں پر جو تم سے پہلے گز ر چکے ہیں روزے فر ض کیے گئے تھے ۔ اسی طر ح تم پر بھی کیے گئے ہیں ۔ تا کہ تم تقو ی والے بن جائو۔ تقوی یہ ہے کہ آدمی دنیا میں اللہ کی منع کی ہو ئی چیزوں سے با لکل بچ کر ز ند گی گذارے ۔ان چیزوں سے رکا رہے جن سے اللہ نے رو کا ہے ۔ و ہی کر ے جس کے کر نے کی ا للہ رب ا لعزت نے اجا زت دی ہے ۔ روزہ کی ظا ہر ی صورت کھا نا پینا چھوڑ دینا ہے ۔ یہ چھوڑنا اس با ت کی پہچا ن ہے کہ بند ہ اپنے رب کا فرما نبر دار ہے ۔وہ ہر اس کا م کو چھو ڑ نے کے لئے تیا ہو جا تا ہے جس کو چھو ڑنے کا اسے ا للہ نے حکم دیا ۔یہا ں تک کہ و ہ کھا نے پینے جیسی ضر وری چیزوں کو بھی تعمیل حکم میں چھو ڑ دے ۔ روزہ کا ا ہم مقصد یہ صلا حیت پید ا کر نا ہے ۔ کہ آدمی کی زند گی پا بند زند گی ہو نہ کہ آزاد ہے روزہ کی حا لت میں چند چیزوں کو چھڑا کر پر یکٹس کر ا ئی جا تی ہے کہ وہ سا ری عمر اپنے رب سے ڈر کر اور اس کے حکم کے مطا بق زند گی بسر کر ے گا ۔ وہان چیزوں کو چھو ڑ دے گا ،جو اس کے رب کو نا پسند ہیں ۔ اسی لئے روزہ دار اللہ اور اس کے رسو ل ۖ کی نظر میں محبو ب و مقبو ل ہو تے ہیں ۔رسول ا للہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ار شا د ہے ۔ اگر لو گو ں کو یہ معلو م ہو جا ئے کہ رمضا ن کر یم کی حقیقت کیا ہے ۔تو میر ی امت یہ تمنا کر ے کہ سا را سا ل ہی رمضا ن ہو جا ئے۔
ا للہ رب ا لعزت کا فر ما ن عا لی شا ن ہے ”روزہ خا ص میر ے لئے ہے اور روزہ کا بد لہ میں خو د ہی دوں گا ”۔قیا مت کے دن جب لو گو ں کے حقو ق کا فیصلہ کیا جا ئے گا ،اگر کسی کے ذمہ کچھ حقو ق ا لعبا د ہو ں کئے تو ان کے بد لہ میں اس کی نیکیاں اہل حقو ق کو دید ی جائیں گی ۔یہاں تک کہاس کا کو ئی نیک عمل با قی نہیں رہے گا ۔مگر جب نو بت روز ہ کی آئے گی تو اللہ رب العزت اس کے روزہ کو حقو ق اور جر م کے بد لہ میں نہ دیں گے اور یہی فر ما ئیں گے ۔اسے رہنے دو یہ تو خا لص میر ا تھا ۔اس شخص کے دوسرے بقیہ مظا لم کو خو د رکھ لین گے اور ا ہل حقو ق کو اپنے پا س سے ثواب دے کر راضی فر ما دیں گے ۔ چنا نچہ روزہ اس کے سا تھ ہو کر اس کو جنت میں لے جا ئے گا ۔ سر ور کا ئنا ت ۖ نے فر ما یا ۔ یہ غم خو ا ری کا مہینہ ہے ، خو د بھو ک پیا سے رہ کر غر یب اور لا چا ر انسا نو ں کی تکلیف کا ا ندازہ کرانا ہے ، جس سے معا سر ہ کے اندار ہمدری،غم خواری ،بھا ئی چا ر گی اور بر دا شت کی صفت پید ا کر ا کر ایک صا ف ستھرا اور پا ک معا شر ہ کو تر قی دینا اور بھو کا پیا سا رکھ کر جسم و روح کی اصلا ح کر ا نا ہے اور یہ صلا حیت بھی پیدا کر نا ہے کہ انسا ن کی پا بند زندگی ہو زند گی ہو نہ کہ بے مہا ر زند گی ۔ اللہ نے اس ما ہ مقد س کو بڑا قیمتی بنا یا ہے ۔اس ما ہ مبا رک کے ہر لمحہ کی قدر کر نا ہما ری خو ش نصیبی ہے ۔اللہ کے انعا ما ت کو د یکھئے وہ اس ما ہ مبا رک میں نیکیو ںکے بھا ئو کو بڑ ھا دیتا ہے ۔ چھو ٹا سا نیک کام کیجئے اور بڑی نیکی کما ئے۔
حد یث شر یف میں ہے” کہ اس مبا رک مہینہ میں نفل کا ثو اب فر ض کے بر ا بر اور فر ض کا ثو اب ستر سے سا ت سو گنا تک بڑھا دیا جا تا ہے” ۔ بد قسمت ا للہ کے مجر م اور رسو ل اللہ صلی ا للہ علیہ و سلم کی نا را ضگی و بد عا کے مستحق ہیں وہ لو گ جو روزہ نہیں ر کھتے ۔ زمین و آسما ن بھی ایسے لو گو ں کے لئے بد عا کر تے ہیں ۔ یہا ں تک کہ جس جگہ کھا یا پیا ہو گا وہ بھی قیا مت کے دن گو ا ہی دے گی۔
فر ما ن رسو ل صلی ا للہ علیہ وسلم ہے ”جو شخص روزہ کی حا لت میں کھا نا پینا تو چھو ڑ دے مگر ا للہ کی دوسر ی منع چیزوں ۔ مثلا جھو ٹ ، فر یب ، ظلم ، فسا د ،بد کا ری اور چغل خو ری کر تا ر ہے تو اس نے بھو کے رہنے کے سو ا اپنے لئے کچھ نہیں پا یا ”۔ درا ا صل رمضا ن ٹر یننگ کا ما ہ مبا رک ہے اور روزہ تما م بر ا ئی چھو ڑ نے کا دوسرا نا م ہے ۔ اسی کا روزہ ۔۔۔ روزہ ہے اس کے لئے ز ند گی کے تما م معا ملا ت میں بر ا ئی چھو ڑ نے کا ہم معنی بن جائے۔