لاہور (ایچ ایم مہر سے) کویت بزمِ ادب کا ماہانہ اجلاس تنظیم کی صدر محترمہ شاجہاں جعفری حجاب کی رہائش گاہ پر منعقد ہوا۔اسکی اجلاس کی صدارت پاکستان سے تعلق رکھنے والے نوجوان شاعر رانا ظہیر مشتاق نے کی۔
جبکہ مہمانِ خصوصی کویت میں مقیم ہندوستان کیمعروف شاعر صابر عمر تھے۔نظامت کے فرائض کویت بزم ادب کے سیکرٹری جنرل معسود حساس نے ادا کیے، سیکرٹری جنرل معسود حساس نے تنظیمی حوالے سے مختصر روشنی ڈالتے ہوے کہا عرصئہ دراز سے کویت میں اردو بولی اور سمجھی جاتی ہے جس کا اصل سبب ان اشخاص کا وجود ہے جو اپنے مادر وطن سے اردو ساتھ لے کر چلے تھے اور یہاں پہنچ کر انفرادی کوششوں کے اجتماع سے تنظیموں کو وجود بخشا۔
یہ سچ ہے کہ یہاں کی زمین پہ باوجود ہزار ھا کوشش کے کوئی بھی خالص اردو تنظیم اس حد تک نہ جا سکی کہ ماہانہ پروگرام کا انعقاد تواتر سے ہوتا رہتا اور تشنگان ادب اس سے حسب مقدور اپنے جرعات اخذ کیا کرتے۔گو کہ مختلف تنظیموں نے بارہا اس کا بیڑا اٹھایالیکن بوجوہ اس پہ عمل پیرا نہ ہو سکیں ۔
شاید اس کی بنیادی وجوہات پروگراموںکے اخراجات اور وقت کی تنگی کو گردانا جا سکتا ہے۔ لیکن کویت بزم ادب نے ماضی قریب میں اپنے اراکین کی میٹنگ میں متفقہ فیصلہ کیا کہ نہ تو مصاریف بڑھانے ہیں اور نہ ہی ایسا وقت متعین کرنا ہے جس میں احباب کا جمع ہونا قدرے مشکل ہو۔اس لیے ہر ماہ کے پہلے جمعہ کو سہ پہر تین بجے میٹنگ کے ساتھ نششت کا فیصلہ کیا ۔تمام مدعو حضرات کم و بیش وقت مقررہ پر پہنچے اور پروگرام رانا ظہیر مشتاق کی صدارت میں شروع کر دیا گیا جبکہ مہمان خصوصی صابر عمر کو بنایا گیا۔
انجمن کے جنرل سکریٹری مسعود حساس نے اپنے مخصوص لب و لہجے میں آج کی میٹنگ اور نششت کے اغراض و مقاصد بیان کیے اور پھر شعرا کو برائے کلام پیش کیا جن میں شاہ جہاں جعفری حجاب ، فیاض وردگ ، نسیم زاہد ، صداقت حسین ترمذی ، کمال انصاری ابراہیم سنگے راجا ، امیر الدین امیر اور ایوب ڈھوکلے بھی تھے۔ اس محفل میں مشہور کالم نگار غلام حیدر کے علاوہ معروف سماجی کارکن شبیر بٹ اور ادب نواز لیاقت بٹ ، آفتاب عالم اور حمیرا روشی نے شرکت کی۔
رانا ظہیر مشتاق نے اپنا اظہار خٰال کرتے ہوے کہا اردو ادب کی تحریکوں نے جہاں ادبی فضا میں جمود کو عہد بہ عہد وقتی ضرورتوں کے مطابق توڑ کر اسے تحرک سے رُوشناس کروایا وہاں مختلف مکتبہ ء فکر بھی وجود پذیر ہوئے یہ دراصل فکری تصادم کا نتیجہ تھا جو کسی بھی ارتقا کرتی ہوئی تہذیب اور اس کی زبان کے زندہ ہونے کی نشانی ہوتی ہے۔ مختلف افکار و نظریات کے لوگوں نے ادبی خدمات کے لئے تنظیمی ڈہانچے تشکیل دیے۔ آج انجمن ترقی پسند مصنفین حلقہ اربابِ ذوق اور سیکڑوں اور پلیٹ فارمز اسی ارتقائی عہد سے یادگار ہیں۔
کویت کی طرح دنیا کے کونے کونے میں جہاں جہاں اردو بولی جا رہی ہے وہاں کے سماجی تقاضوں کے مطابق انجمنیں کام کر رہی ہیں۔ اُنہیں میں سے پاک و ہند کے وسیع القلب اور اردو سے محبت کرنے والے ادیب اور سماجی کارکن جنکا کسی بھی سرحدی تعصب سے کوئی لینا دینا نہیں کویت بزم ادب کے پلیٹ فارم سیکویت میں ایک نئی تاریخ لکھ رھے ہیں۔ میں تمام جملہ اراکین اور منتظمین کا دل کی اتھاہ سے ممنون ھوں کہ انہوں مجھے عزت بخشی۔
محفل کے اختتام کے بعد حاضرین کو مخاطب کرتے ہوئے مسعود حساس نے کہا کہ ابھی کچھ دیر قبل میں نے کہا تھا کہ کویت میں ایک ادبی تاریخ مرتب ہونے جا رہی ہے اور اب وہ تاریخ مرتب ہو چکی ہے ۔ان شاء اللہ ہماری تنظیم پابندی سے ہر ماہ نششت یا مشاعرے کا اہتمام کرے گی اور حسب مقدور ادب کی خدمات جاری وساری رکھے گی ۔آخر میں محترمہ جعفری صاحبہ نے اس کی افادیت پہ ایک انتہائی جامع اور بلیغ تقریر کرتے ہوے کہا میں آپ سبھی حضرات کی ممنون ہوں کہ آپ ایسے وقت میں یہاں تشریف لائے جو آرام کا وقت ہوتا ھے۔
جمعہ کے دن کا قیلولہ کتنا عزیز ہوتا ہے، اسکا اندازہ ھے مجھے۔ اپنی نیند قربان کر کے اس نشست میں موجود ہونا آپ کی ادب دوستی، سخن فہمی اور سخن پروری کی دلیل ہے۔ اردو ہماری زبان کی نہیں ہماری تہذیب بھی ہے۔ شاعر کہتا ھے ابھی تہذیب کا نوحہ نہ لکھنا ابھی کچھ لوگ اردو بولتے ہیں،آپ انھیں کچھ لوگوں میں سے ہیں۔اپنی زبان کے تشخص اور وقار کو قائم رکھنے کے لیے ہی ہم ایک بینر کے تلے جمع ہوتے ہیں۔
آج کی یہ نشست ایک کوشش تجربہ تھا۔ میں بہت سہمی ہوء تھی کہ لوگوں کا ردعمل نجانے کیا ہو لیکن آپ لوگوں کو اتنی تعداد میں یہاں دیکھ کر میرے حوصلے میں دوگنا اضافہ ہو گیا ھے۔ آپ کے تعاون کا شکریہ ادا کرنا میرا فرض بنتا ہے۔ آپ کے مخلصانہ جذبے کو سلام اس امید اور یقین کے ساتھ کہ ادب کے اس سفر میں مستقبل میں بھی آپ کا تعاون اسی طرح میرے ساتھ رہے گا۔
آپ کی تشریف آوری کا شکریہ جسے حاضرین نے خوب سراہا۔اللہ تعالی ہم سب کو خوش رکھے اور ادب کی مزید خدمات کی توفیق عنایت فرمائے۔۔۔