بحیرہ روم (اصل میڈیا ڈیسک) سال رواں کے پہلے نو ماہ کے دوران بحیرہ روم کے راستے یورپ پہنچنے والے تارکین وطن کی تعداد اکیاسی ہزار رہی، جن میں سے تقریباﹰ ایک چوتھائی بچے ہیں۔ یہ بات اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین کی ایک نئی رپورٹ میں کہی گئی ہے۔
اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین (یو این ایچ سی آر) کی یہ رپورٹ اسی ہفتے جاری کی گئی اور اس کا عنوان ہے: ‘ناامیدی میں کیے جانے والے سفر۔‘‘ اس رپورٹ کے مطابق زیادہ تر شمالی افریقہ سے بحیرہ روم کے راستے اس سال جنوری سے ستمبر کے آخر تک یورپی یونین کے مختلف رکن ممالک میں پہنچنے والے پناہ کے خواہش مند تارکین وطن کی تعداد 81 ہزار سے تجاوز کر چکی تھی۔
اس کے برعکس گزشتہ برس کے انہی نو ماہ کے دوران پناہ کی تلاش میں بحیرہ روم کے راستے انتہائی پرخطر سفر کر کے یورپ پہنچنے والے تارکین وطن کی تعداد ایک لاکھ تین ہزار رہی تھی۔
یو این ایچ سی آر کے یورپی دفتر کی ڈائریکٹر پاسکال مورو نے نیوز ایجنسی کے این اے کو بتایا کہ 2019ء کے پہلے نو ماہ کے دوران جو اکیاسی ہزار تارکین وطن یورپ پہنچے، ان میں سے تقریباﹰ ایک چوتھائی بچے تھے۔
مزید یہ کہ ان نابالغ تارکین وطن میں سے بہت سے ایسے بھی تھے، جو اپنے والدین کے بغیر اکیلے ہی یورپ پہنچے۔
اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین کی اس اعلیٰ یورپی عہدیدار نے کہا کہ ایسےکم عمر تارکین وطن کی تکالیف یورپی سرحدوں پر بھی ختم نہیں ہوتیں۔
پاسکال مورو کے مطابق مختلف یورپی ممالک میں ان کم عمر مہاجرین اور تارکین وطن کو زیادہ تر ایسے بڑے بڑے مراکز میں رکھاجاتا ہے، جہاں ان کی مؤثر حفاظت نہیں ہو سکتی اور اسی لیے وہاں ان بچوں کا جنسی اور جسمانی استحصال بھی ہوتا ہے اور انہیں تشدد کے علاوہ بہت زیادہ تفسیاتی دباؤ کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔
اس پس منظر میں عالمی ادارہ برائے مہاجرین نے یورپی ممالک کی حکومتوں سے مطالبہ کیا ہے کہ ایسے بچوں کو یورپی ممالک میں داخل ہونے کے بعد حراست میں نہ لیا جائے بلکہ ان کے لیے ایسے خصوصی ماہرین اور تعلیم یافتہ سماجی کارکنوں کی خدمات حاصل کی جائیں، جو ان کی سلامتی اور ان کے لیے تعلیمی امکانات کو بھی یقینی بنائیں۔
یو این ایچ سی آر کی اس رپورٹ کے مطابق بحیرہ روم کے کنارے واقع یورپی ممالک میں سے ایسے بچوں کے سب سے زیادہ خصوصی رہائشی مراکز یونان میں قائم ہیں۔ اس سال اب تک سمندری راستے سے یونان کے ذریعے یورپی یونین میں داخل ہونے والے کم عمر تارکین وطن کی تعداد تقریباﹰ 13 ہزار بنتی ہے، جن میں سے تقریباﹰ 2100 بچے ایسے تھے، جو تنہا سفر کے کر یونان پہنچے تھے۔
ان بچوں کا تعلق زیادہ تر شام اور افغانستان سے ہے۔ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین نے اپنی اس رپورٹ میں یہ بھی کہا ہے کہ اس سال ستمبر کے آخر تک ان بچوں میں سے اکثر ایسی رہائشی گاہوں میں مقیم تھے، جو ان کے لیے موزوں نہیں تھیں۔ یو این ایچ سی آر نے یہ مطالبہ بھی کیا ہے کہ یونان سے ایسے نابالغ تارکین وطن کو یونین کے رکن دیگر یورپی ممالک میں منتقل کیا جانا چاہیے۔