چاند جب اُس کی ہتھیلی پہ ٹھہر جاتا ہے جو ہمیں دیکھ کے چُپ چاپ گزر جاتا ہے دل سے کب اُس کے تغافل کا اثر جاتا ہے ماند پڑ جاتے ہیں صبحوں کے ِطلسمات سبھی چاند جب اُس کی ہتھیلی پہ ٹھہر جاتا ہے جِس کی ہر بات میں ہوتا تھا تیرا ذِکر کبھی اب وہی شخص تیرے نام سے ڈر جاتا ہے عقل جِس سمت سے تاعمر گریزاں ہی رہی دل اُسی راہ پہ بے خوف و خطر جاتا ہے لوگ اُس کو ہی کئے جاتے ہیں نیلام یہاں جو بھی بازار میں دم بھر کو ٹھہر جاتا ہے جِس کو مِل جائے وراثت میں غلامی ساحل ایسا بد بخت جنم لیتے ہی مر جاتا ہے