تحریر: عرفانہ ملک پچھلے کئی سالوں سے ہمارے یہاں دوچاند کا تنازعہ چلا آرہاہے،رمضان المبارک کا چاند کسی کی نظر سے اوجھل ہوجاتاہے تو کسی تو نظرآجاتاہے ،اسی طرح پھر روزہ بھی کسی کا ایک دن پہلے تو کسی کا ایک دن بعد اوریہ تنا زعہ ایک عرصہ سے چلا آرہاتھا مگر اللہ تعالیٰ کے کرم وفضل سے امسال پورے ملک میںایک ہی دن روزہ رکھا گیا ،اسے اتفاق کہیں یا پھر حکومتی چابکدستی ۔۔۔خیر ملک میں ایک ہی دن روزہ اورعید ملک میں امن وامان کی صورتحال بحال کرنے میں اہم کرداراداکرتے ہیں۔اسی لئے امسال وفاقی مذہبی امورکے وزیر سرداریوسف نے ایک اہم کام سرانجام دیا کہ جس کی وجہ سے ملک میں ایک ہی دن روزہ رکھا گیا۔۔اللہ کرے ہمارے ملک میںایسا ہمیشہ کے لئے ہو تاکہ ملک کے باسی جوکہ نفرتوںکا شکار نظرآتے ہیں۔آپس میںگھل مل جائیں ۔۔۔پنجابی،پٹھان،بلوچی اورسندھی کا نعرہ ختم ہوکر پاکستانی کا نعرہ لگنا شروع ہوجائے۔
ایسا جناب تب ہی ممکن ہوپائے گا جب ہم اس صبرکے مہینہ میں برداشت کے لبادے کو اوڑھے رکھیںگے مگر افسوس سے کہنا پڑجاتاہے کہ ہم رمضان جیسے مقدس مہینے۔۔۔۔ویسے تو تمام اسلامی مہینے مقدس ہوتے ہیں لیکن رمضان میں چونکہ عبادات کااہتمام عام دنوںکے مقابلے میںکچھ زیادہ ہی دیکھنے کوملتاہے۔اس لئے رمضان کو اور مہینوںپر زیادہ فوقیت حاصل ہے۔۔بات ہورہی تھی رمضان میں عدم برداشت کی۔۔ہمارے ہاں اکثر دیکھنے کوملتا ہے کہ رمضان کا مہینہ شروع ہوتے ہی ہم برداشت کے لبادے کو نکال پھینکتے ہیں جس سے براہ راست ہمارا روزہ متاثر ہوتاہے تو ساتھ معاشرہ میں امن واما ن کی صورتحال میںبھی خلل پڑتاہے۔۔ہم جہاں عام دنوںمیں ایک دوسرے کے ساتھ امن ومحبت وآشتی کے ساتھ زندگی گزاررہے ہوتے ہیں وہا ں رمضان کے شروع ہوتے ہی جیسے پورے سال کے شیاطین ہم میں گھس جاتے ہیں۔۔۔جس طرف دیکھو لڑائی جھگڑے روز کا معمول بن جاتے ہیں۔ایسے میں گالم گلوچ نہ ہو ہوہی نہیںسکتا۔خیر یہ تو ہماری فطرت میں شامل ہوتا ہے کہ ہم اپنا رویہ کیسے برقراررکھ سکتے ہیں۔۔
Ramadan
اگر تو ہم عام دنوںمیں بھائی چارے سے کام لیتے ہیں تو آخررمضان میں شیاطین جوکہ پہلے سے قید کر لیے جاتے ہیں پھر کیونکر ہمیں تنگ کرنے آجاتے ہیں یا پھر ہماری سوچ اوردل ودماغ پر انکا اثرورسوخ کچھ زیادہ ہی ہے۔میرا اشارہ ان کی طرف ہے جو اس صبرکے مہینے میںبے صبری کا مظاہرہ کرتے ہیں۔اگرہم ان راہ گیروں یا گاڑی سواروںکو دیکھ لیںکہ وہ ٹریفک کے امڈتے ہوئے سیلاب میںبھی ایک دوسرے سے تلخ کلامی تو کبھی مشت وگریباں سے گریز نہیںکرتے۔تو کبھی ہارن بجابجا کر ماحول میں شور کی آلودگی پیداکرتے ہیں۔کیایہ سب ہمیں زیب دیتاہے ۔اورجیسے ہم رمضان میں قیامت کا سماں باندھ دیتے ہیں۔جس میںہر ایک کو اپنی اپنی پڑی ہوتی ہے۔حالانکہ ہم صرف روزہ ہی میں ایسے حالات پیدا کرتے ہیں۔ہم میں کوئی کسی کے ساتھ احسان یا بھلائی کا برتائو روارکھنے کی سعی کرتا نظرنہیں آتا۔جیسے ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ روزہ جوکہ صبر وتحمل کا آئینہ کہلاتاہے میں ہم دوسرے مسلمان بھائیوںکی خوشیوںمیں شریک ہوتے ۔۔
اپنے اردگردکے غریب غرباء کی مدد کرنے کی ہرممکن کوشش کرتے ۔۔مگر ہم تو لڑنے کے بہانے ڈھونڈتے نظرآتے ہیں۔ہمیں تو لڑنے بھڑنے میںزیادہ مزاآتاہے۔ہمیںتوہنگامہ برپا کرنے میںزیادہ مزاآتاہے۔ہم یہ یکسر بھول جاتے ہیںکہ روزہ ہمیں کیادرس دیتاہے ۔۔کیا سکھاتاہے۔۔کیا سیکھنا چاہیے ہمیں روزہ میں۔۔کیا صرف بھوکا پیاسا رہنا ہی روزہ ہے؟اورکیا صرف بھوک اورپیاس سے ہم رب کریم کے ہاں صابرین کی فہرست میں آجائیںگے؟ایسا نہیں ہمیں اپنا یہ رویہ ترک کرناہوگا۔روزہ صبر وشکر اورقناعت وتقویٰ کانام ہے۔جہاںتک مردوں میں آپس کی بحث وتکرارچلتی نظرآتی ہے۔وہاں ساتھ عورتیں بھی مردوںسے کسی بھی حال میں پیچھے نہیںہیں۔جہاں مرد حضرات لڑبھڑکر اپنا اوردوسروںکاروزہ خراب کرتے نظرآتے ہیں وہاں عورتیںبھی کمرکس لیتی ہیں۔
Society
جیسے گزشتہ رو زپڑوس میں ایک عورت نے دوسری کو تھپڑ دے مارا ۔۔جس سے بات آگے نکل گئی۔حالانکہ رمضان کا مہینہ ہمیں برداشت کا درس دیتاہے۔نہ صرف کھانے پینے بلکہ ہر اس قسم کی برائی سے دوررہنے کی جس سے ہماری زندگی بلکہ ساتھ ہمارے معاشرے میں امن وسکون کی فضا کونقصان پہنچے۔افسوس ہمارے حوصلے کتنے پست ہوچکے ہیں۔صبر وتحمل توجیسے ہم کہیں دورچھوڑآئے ہیں۔اورشاید یہی وجہ ہے کہ جس سے ہمارا معاشرہ بے سکونی کا شکار بن رہاہے۔اس لئے ضرورت اس امرکی ہے کہ ہم نے اس مقدس مہینہ میں اپنے اردگردکے ماحول کو خوشگواربنانے میںاپنا مثبت کرداراداکرنا ہوگا ورنہ ہمارامعاشرہ جوپہلے ہی سے امن وسکون کھو چکاہے مزید بے سکونی کا شکار ہوگا اور جس کے براہ راست اثرات ہم پر اورہماری آئندہ نسلوںپر پڑیںگے۔