آسٹریلین کرکٹر سر ڈانلڈ بریڈ مین کا انتقال با نوے سال کی عمر میں ہوا تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ جن کرکٹرز نے جتنے زیادہ ٹیسٹ میچ کھیلے انہوں نے اتنی ہی طویل عمر پائی۔
برطانیہ میں یونیورسٹی آف سینٹ اینڈریوز کے ایک مطالعے کے مطابق اٹھارہ سو چھہتر اور انیس سو تریسٹھ کے دوران انگلینڈ کے چار سو اٹھارہ ٹیسٹ کرکٹرز میں سے جن لوگوں نے زیادہ ٹیسٹ کھیلے انہوں نے اتنی ہی لمبی عمر پائی۔
اسی بنیاد پر محققین کا کہنا ہے کہ انگلینڈ کے مایہ ناز کرکٹرز اینڈریو فلِنٹوف اور مائیکل وان عمرِ دراز کی امید رکھ سکتے ہیں۔
پروفیسر پال بوئیل کہتے ہیں کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ زندگی میں کامیابیاں صحت اور عمر کو بڑھاتی ہیں۔
کامیابی اور طویل العمری کامیاب ترین کرکٹرز کی طویل العمری کا ایک منہ بولتا ثبوت وہ آسٹریلین ٹیم ہے جس نے انیس سو اڑتالیس میں انگلینڈ کا دورہ کیا تھا۔ یہ ٹیم ’ناقابل تسخیر‘ کہلائی کیونکہ میزبان ٹیم اسے کسی میچ میں شکست نہ دے سکی۔ ٹیم میں شامل تیرہ میں سے سات کا اب انتقال ہوچکا ہے۔ ان سب نے کم سے کم اسّی برس کی عمر پائی، سوائے سِڈ بارنس جن کا انتقال پینسٹھ برس کی عمر میں ہوا۔ اس ٹیم میں شامل سر ڈونلڈ بریڈمین کا انتقال بانوے برس کی عمر میں جبکہ بِل براؤن کا انتقال پچانوے برس کی عمر میں ہوا۔ اس ٹیم کے بقیہ ارکان ابھی زندہ ہیں اور ان میں سب سے کم عمر اناسی برس کے نیل ہاروی ہیں۔ برٹش جرنل آف سپورٹس میڈیسن میں شائع اس رپورٹ کے مطابق زیادہ شوقیہ ٹیسٹ میچ کھیلنے والے کرکٹرز نے اوسطاً نواسی اعشاریہ تین برس کی عمر پائی۔ اس کے مقابلے میں کم ٹیسٹ کھیلنے والوں کی اوسط عمر پچھتر برس رہی۔
برٹش جرنل آف سپورٹس میڈیسن میں شائع اس رپورٹ کے مطابق زیادہ شوقیہ ٹیسٹ میچ کھیلنے والے کرکٹرز نے اوسطاً نواسی اعشاریہ تین برس کی عمر پائی۔ اس کے مقابلے میں کم ٹیسٹ کھیلنے والوں کی اوسط عمر پچھتر برس رہی۔
اسی طرح پیشہ ورانہ طور پر زیادہ ٹیسٹ میچ کھیلنے والوں کی عمر چھہتر اعشاریہ چھ برس رہی جبکہ کم ٹیسٹ میچ کھیلنے والے پیشہ ور کھلاڑیوں کی اوسط عمر اکہتر اعشاریہ پانچ برس تھی۔
کام کی جگہ پر دباؤ اس سے قبل کیے گئے مطالعوں میں یہ بات سامنے آئی تھی کہ جو لوگ سماجی لحاظ سے کم درجے والا پیشہ اپناتے ہیں ان کی صحت زیادہ اچھی نہیں ہوتی۔ شاید اس کا سبب ذہنی اور جسمانی دباؤ اور جھنجلاہٹ ہے۔
پروفیسر بوئیل کہتے ہیں کہ ان کی تحقیق سے اس کے برعکس بات سامنے آئی ہے۔ اور وہ یہ کہ کامیابی اور پیشہ ورانہ اطمینان صحت کو بہتر کرتا ہے۔
ان کا کہنا ہے: ’قومی ٹیم کے لیے کھیلنا کرکٹ کی دنیا میں عروج کی بات ہے۔ اس کے فوائد لمبے عرصے کے لیے ہوتے ہیں۔ شاباش بھی خوب ملتی ہے اور کام کے مواقع بھی۔‘
تاہم ان کا کہنا ہے کہ انتہائی عروج یعنی ٹیم کی قیادت کرنے سے عمر کی مزید طوالت کے بارے میں شواہد نہیں ملے۔
یونیورسٹی کالج آف لندن کے ڈاکٹر تارانی چینڈولا نے کام کی جگہ پر پائے جانے والے دباؤ کے اثرات کا مطالعہ کیا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ کسی بھی سماجی ماحول کی طرح کام کی جگہ کا ماحول بھی صحت اور طویل العمری پر اثرانداز ہوتا ہے۔
کام کی جگہ پر دباؤ کے ذہنی اور جسمانی صحت پر اثرات کے بارے میں شعور پیدا ہو رہا ہے۔ اور یہ بات کئی مطالعوں میں سامنے آئی ہے کہ اس دباؤ کے منفی اثرات پڑتے ہیں۔