تحریر: زینب ملک ندیم وہ صبح گھر سے نکلا تو جیب میں صرف سو روپے کا نوٹ تھا.مھینے کا آغاز تھا آج اس کو تنخواہ ملنی تھی.. دوپھر کو لنچ ٹائم میں وہ بہت خوش تھا لنچ کے بعد اس نے سوچا کہ قریبی بنک سے پیسے نکلوا لے..وہ بنک کی طرف جاتے مختلف سوچوں میں تھا..بیٹی پانچ ماہ کی ھو گئی اس کے کپڑے تھوڑے تنگ ھو گے ہیں ۔شام کو بازار سے بیٹی کے تین چار نئے سوٹ لیتا جاؤں گا.بیٹے کی سکول فیس اس کا ماھانہ خرچ..شام کو اس کے لئے کچھ کھلونے لے جاؤں گا..اور اتوار کو چڑیا گھر بھی کافی دن سے ضد کر رھا..بیوی کے بھتیجے کی سالگرہ وھاں کچھ نقد اور گفٹ بھی دینا وہ بھی لیتا جاؤں گا..بیوی کو اس دفعہ اضافی پیسے بھی دوں گا…اس کی بہن کے بیٹا ھوا وہ اپنے بھانجے کی شاپنگ کر لے۔ سب خرچے کر کے کچھ پیسے بچا کر اس ماہ اپنے نئے جوتے لوں گا..اور سب سے بھر کر شام کو بروسٹ لے کر گھر جاؤں گا والدہ کو پسند کافی دن ھو گئی کھلائے ھوئے..
وہ خوشی خوشی ATM سے پیسے لے کر نکلا تو بنک سے چند قدم دور دو لڑکوں نے اس کو گھیر لیا ایک نے پسٹل اس کی گردن پر رکھا ایک نے پسلیوں میں اور رقم کا مطالبہ کر دیا اس کی آنکھوں کے آگے اندھیرا چھا گیا وہ مزاحمت بھی نہ کر سکا اور وہ دونوں اس کی مھینے بھر کی تھوڑی سی کمائی اپنے ساتھ لے گئے ..وہ صرف پیسے ھی نھیں اس کے سارے خواب ساتھ لے گئے جو وہ سوچتا آیا تھا اس کی آنکھوں میں پانی بھر آیا اس کی آنکھ چھلکنے کو بیتاب تھی لیکن پتا نھیں کھاں کھاں پڑھا اور سنا اس کے دماغ میں آگیا..مرد کو درد نھیں ھوتا..مرد رویا نھیں کرتے..(آخر کیوں؟؟ کیا مردوں کے دل نھیں ھوتے کیا جزبات سے عاری ھوتے وہ کھاں جائیں ) اس نے اپنے سارے آنسو اپنے اندر اتار لیئے اور آسماں کی طرف دیکھا اور اپنی ردی ھوتی خواھشوں کا ماتم اپنے اندر سجا لیا اور جیب میں بچے اکلوتے سو روپے سے خواھشوں کا حساب لگاتا واپس اپنی منزل کو چل پڑا کہ اللہ مالک سب کا۔۔۔پاس گزرتی گاڑی میں اونچی آواز میں گانا بج رھا تھا وہ اس کو سنتا آنکھ صاف کرتا چل پڑا..
“بدن میں ایک صحرا جل رھا ھے بجھ رھا میرے دریاؤں کو قیصر کنارا کون دے گا”
Wife And Children
ایک سچی آپ بیتی کسی کے زندگی کے سانحہ کو بیان کرنا آسان ہوتاہے مگر ان لغظوں کی تکلیف جس تن لاگے وہ تن جانے ایک باپ جو محنت کرتا اپنی تنخوا ملنے کی خوشی میں نہال ہوجاتا ہے اس کے خواب اس کی خواہشیں جو اسنے اپنے سے زیادہ اپنے بیوی بچوں کیلئے سوچی ہوتی ہیں اگر وہ ایک پل میں خاک ہوجائیں جب آپ کے مال کو کوئی اپنا حق سمجھ کر ناجائز اس پر ڈاکا ڈالے ؟؟؟اس شخص پر کیا بیتتی ہے وہی بہتر جانتا ہے اور اس کے اردگرد والے جو اس کی ذات اور اسے جانتے ہیں اس واقعے نے بہت دکھ دیا مگر دل نے ساتھ ساتھ یہ بھی شکر ادا کیا کہ اللہ پاک تو نے ہمارے اس بھائی کی جان کی حفاظت کی اسے اپنے حفظ و امان میں رکھا درد تو
مرد کو بھی ہوتا ہے تڑپتا وہ بھی ہے
مگر یہاں انسان کی ہمدردی کہا ہے وہ ہمدردی جو خلوص محبت سے پیوست ہوتی ہے ۔ جو ایسا جسد واحد ہوتیہ ے کہ حدیث ہے ” مسلمان جسد واحد کی طرح ہیں کہ جسم کے ایک حصے کو
تکلیف ہوتو پورا جسم درد کی شدت سے کانپ اٹھتاہے ” یہاں مسلمان جسد واحد ایک جسم کی مانند کہاں ہیں
ایک واقعہ سنا جاتا ہے کہ کیرالہ کے ایک ریستوران میں ایک شخص نے ایک غریب اور بھوکے بچے کو کھانا کھلایا اور جب ریستوران کی جانب سے اسے بل پیش کیا گیا تو اس شخص کی آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے کیونکہ بل پر اماؤنٹ نہیں بلکہ تبصرہ لکھا تھا “ہمارے پاس کوئی ایسی مشین نہیں جو انسانیت کا بل بنا سکے ” اس واقعے کو سن کے اندازہ ہوتا ہے کہ ہمدردی ہے اچھے لوگ ہیں جن کے باعث دنیا قائم ہے ایک وہ انسان بھی جو حلال رزق کماتاہے وہ بھی نیک اور اچھا انسان ہے ایسے لوگوں کے دم پر دنیا قائم ہے امید رکھی جاتی ہے کہ انکے ساتھ بڑا نا ہوگا مگر جذبات سے عاری انسان ان کی امیدوں کا محور مرکز نہیں بن پاتے ہمدردی انسانیت کہاں ہے پہلی آپ بیتی میں جب انسان اپنا پیٹ پالنے اور اپنی عادتوں میں مجبور دوسروں کو ہراساں کرکے انہیں تکلیف دے انکی خواہشات کو ملیامیٹ کرے کہاں ہے وہ انسانیت جہاں بھائی بھائی (اسلام میں سب مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں) کا دشمن ہو بھائی چارہ اخوت صرف کتابوں کی نظر رہ جائے جہاں کسی کے درد دکھ تکالیف کا احساس ختم ہوجائے ۔
Allah
ایک باپ سے اس کی تنخواہ چھین لی جائے ایک بندوق کی نوک پر چور لٹیرے جانوروں کا روپ دھار لیتے ہیں ۔۔۔دوسری طرف کچھ ایسے لوگ ہیں جو انسانیت ہمدردی کا پاس رکھتے ہوئے مدد کرتے ہیں لوگوں کے دکھوں کو سمجھتے ہیں درد بھوک کی شدت سے آشنا ہیں ۔ زندگی ببت مختصر ہے اگلی سانس سے بھی بیخبر ہیں ہم کہوکہ لے سے انسان جذبات و احساسات سے عاری جس کے باعث معاشرہ بیسکونی میں ڈوبا ہے جس باعث تکلیفیں چھائی ہیں جس باعث کدورت جنم لے رہی ہے جس باعث اخوت بھائی چارہ ختم ہورہااہے ضرورت ہے ایک مثبت سوچ اور ہمدردی کی انسیت کی اس صلاحیت کی جو دوسروں کے درد کو سمجھ سکے جو دوسرے انسان کی خواہشات کا پاس رکھ سکے جو معاشرے میں پھیلی کالی روشنگی کو اجالے میں بدلے ضرورت ہے خود کو بدلنے کی جب تک ہم خود کو نہیں بدلیں گے معاشرے میں اچھائی کا آغاز نہیں ہوگا دعا ہے کہ اللہ تمام لوگوں میں انسانیت کا جذبہ پیدا کرے اور چور لٹیروں کو ہدایت دے کہ وہ ایک بندوق کی نوک پر خواہشوں کو لے کر رفوچکر نہ ہوں آمین