مراکش (اصل میڈیا ڈیسک) مراکش کی وزارت خارجہ نے مغربی صحارا کے حوالے سے برلن کے موقف پر جرمنی کے ساتھ گہرے اختلافات کی بات کہی ہے۔مراکش میں مقامی میڈیا نے پیر یکم مارچ کو خبر دی کہ رباط نے مغربی صحارا کے حوالے سے برلن کے موقف کے ساتھ شدید اختلافات کی وجہ سے جرمن سفارت خانے سے اپنے تمام تعلقات منقطع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
جرمنی نے گزشتہ دسمبر میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ پر مغربی صحارا کے علاقے پر مراکش کی خود مختاری کو تسلیم کرنے کے لیے شدید نکتہ چینی کی تھی۔
اطلاعات کے مطابق مراکش کے وزیر خارجہ ناصر بوریتا نے مغربی صحارا پر برلن کے ساتھ گہرے اختلاف کا حوالہ دیتے ہوئے حکومت سے رباط میں جرمنی کے تمام اداروں سے روابط معطل کرنے کو کہا ہے۔
میڈیا رپورٹوں کے مطابق ایک سینیئر سفارتی اہلکار کا کہنا ہے کہ جرمنی نے گزشتہ برس لیبیا پر ہونے والی کانفرنس میں مراکش کو دعوت نہیں دی تھی اور وہ اس پر بھی اپنے رد عمل کا اظہار کر رہا ہے۔
برلن نے جنوری 2020 میں لیبیا کی صورت حال پر تبادلہ خیال کے لیے ایک بین الاقوامی کانفرنس بلائی تھی۔ جرمنی نے اس کانفرنس میں افریقی یونین، یورپی یونین اور عرب لیگ کے نمائندوں کو دعوت دینے کے ساتھ ساتھ ان تمام سربراہان مملکت کو دعوت دی تھی جو اس تنازے کا حصہ ہیں۔
اس وقت مراکش نے کہا تھا کہ اسے اس بات پر حیرت ہوئی ہے کہ اسے اس کانفرنس میں شرکت کے لیے دعوت نہیں ملی۔ رباط کا موقف ہے کہ اس نے لیبیا کے تنازعے کے خاتمے کے لیے عالمی سطح پر ہونے والی کوششوں میں اہم کردار ادا کرتا رہا ہے۔
سن 1975 سے شمال مغربی افریقہ کے بحر اوقیانوس کے ساحل پر واقع مغربی صحارا کے علاقے پر مراکش کا قبضہ ہے۔ پہلے یہ علاقہ اسپین کی نو آبادیات ہوا کرتا تھا۔ الجیریا کی حمایت یافتہ ‘دی پولیساریو فرنٹ’ نامی ایک آزاد تنظیم اس علاقے میں طویل عرصے سے استصواب رائے کا مطالبہ کرتی رہی ہے۔
یہ تنظیم مقامی آبادی صحراوی کی نمائندگی کرنے کے ساتھ ساتھ مغربی صحارا کی آزادی کے لیے بھی مہم چلاتی رہی ہے اور خطے کی آزادی کے لیے برسوں سے مراکش سے بر سرپیکار بھی رہی ہے۔
سن 1991 میں جنگ بندی کے ایک معاہدے کے تحت مغربی صحارا کے مشرقی اور جنوبی علاقوں پر اس تنظیم کو کنٹرول بھی دے دیا گیا۔ یہ الجیریا کی سرحد سے متصل والا علاقہ ہے۔ تنظیم نے بعد میں اس علاقے کو ‘صحارن عرب ڈیموکریٹک ریپبلک’ (ایس اے ڈی آر) کا نام دے دیا۔
ٹرمپ انتظامیہ نے جیسے ہی مغربی صحارا پر مراکش کی خود مختاری کو تسلیم کیا تھا، جرمنی نے فورا ہی اس معاملے پر اقوام متحدہ کی سکیورٹی کؤنسل کا اجلاس طلب کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔
سن 2019 میں مراکش نے بیرونی ممالک کو اس متنازعہ علاقے میں رباط کے مشن کے تحت سفارت خانہ کھولنے کی بھی اجازت دے دی تھی۔ سن 2018 میں پولیساریو فرنٹ کی حمایت کا الزام عائد کرتے ہوئے مراکش نے ایران سے بھی اپنے سفارتی تعلقات منقطع کر لیے تھے۔
سن 2016 میں اس وقت کے اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل بان کی مون نے جب مغربی صحارا کو مراکش میں ضم کرنے کو اس پر قبضہ کرنے کے مترادف بتا یا تھا تو اس وقت مراکش نے رد عمل کے طور پر اقوام متحدہ کے 70 اہلکاروں کے ملک نکل جانے کو کہا تھا۔