مرسی اور ایردوآن مل کر کیا کھیل کھیلنا چاہتے تھے، چونکا دینے والے انکشافات

Mohammad Morsi and Tayyip Erdoğan

Mohammad Morsi and Tayyip Erdoğan

قاہرہ (اصل میڈیا ڈیسک) کالعدم مذہبی سیاسی جماعت اخوان المسلمون کے ایک منحرف لیڈر مختار نوح جو جماعت کے مشیر کی حیثیت سے خدمات انجام دیتے رہے ہیں نے سابق مصری صدر محمد مرسی اور ترک صدر رجب طیب ایردوآن کے درمیان ایک ایک خفیہ ڈیل کا بھانڈہ پھوڑا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ ترک صدر نے مصر میں فوجی اڈوں کے قیام کی اجازت حاصل کرنے کے ساتھ مصر اور ترکی کو ایک وفاق میں شامل کرنے پر متفق تھے مگر مصر میں فوج کی طرف سے محمد مرسی کا تختہ الٹے جانے کے بعد اخوان المسلمون اور ترکی کا منصوبہ ناکام ہوگیا۔

یہ پہلا موقع ہے جب کسی منحرف اخوانی لیڈر نے محمد مرسی کی حکومت کے قطر اور ترکی کے ساتھ خفیہ مراسم کی لرزہ خیز تفصیلات جاری کی ہیں۔

العربیہ ڈاٹ نیٹ کو دیئے گئے ایک انٹرویو میں مختار نوح نے کہا کہ “ترک صدر خلافت کے منصوبے کو عملی جامہ پہنانے اور خلافت عثمانی کی توسیع پسندی کے منصوبے کو بحال کرنے کے لیے اخوان کو استعمال کرتا رہا ہے “۔ انہوں نے مزید کہا کہ ترک صدر رجب طیب ایردوآن عرب ممالک میں حکمرانی کے لیے مذہبی گروہوں کو اپنے کنٹرول میں لانے کے لیے کوشاں ہیں۔ ساتھ ہی وہ ترکی میں تا حیات صدررہنے کے منصوبوں پربھی کام کررہے ہیں۔ محمد مرسی کے دور حکومت میں وہ مصر کو اپنے زیرنگیں لانے کی کوشش کرتے رہے۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے مصر کے ساتھ کئی ایسے خفیہ معاہدے بھی کیے جن کا مقصد ترکی کی نام نہاد خلافت اور اس کی توسیع کو آگے بڑھانا تھا۔

نوح نے مزید کہا کہ ایردوآن نے مصر کے سابق صدر محمد مرسی کے ساتھ قاہرہ میں اپنی پہلی ملاقات میں اسکیم کی تمام تفصیلات اتفاق کیا تھا۔ اس معاہدے میں مرسی کی حکومت کو رقم اور سیاسی مدد فراہم کرنا شامل ہے ، جس میں مرسی نے ترکی کو ملک میں فوجی اڈے قائم کرنے کی اجازت دی تھی۔

معاہدے کے تحت مصر میں ترکی کو فوجی اڈوں کے قیام کی اجازت دینے کے ساتھ یہ حق دیا جانا تھا کہ کہ وہ مستقبل میں کسی بھی دوسرے ملک کے مفاد کے لیے مصر میں کسی بھی فوجی اڈوں کے قیام کو منظور یا مسترد کرسکے گا۔

معاہدے کے تحت ترکی اور مصر کوایک فیڈرل یونین میں شامل کرنا اور دوسرے ممالک کو بھی اس یونین کا حصہ بنانا۔ عرب ممالک اور مسلمان ریاستوں کو اس میں شامل کرنے کی متفقہ کوششیں کرنا بھی معاہدے میں شامل تھا۔ معاہدے کے تحت ترکی فیصلہ سازی کا اختیار دینے، مشترکہ دفاعی حکمت عملی اپنانے اور مشترکہ معاشی منصوبوں پر کام شروع کرنا شامل تھا۔ مگر اخوان المسلمون کی حکومت کا تختہ الٹے جانے اور محمد مرسی کی معزولی سے ایردوآن اور اخوان کے تمام منصوبے ہوا میں تحلیل ہوگئے۔

سابق اخوانی رہ نما نے کہا کہ مصر میں اپنے عزائم کی ناکامی کے بعد ترک صدر ایردوآن خراب نفسیاتی صورتحال سے دوچار ہیں۔ ترکی میں ان کی حکومت کو بھی اب کافی مشکلات کا سامنا ہےجہاں ان کی پارٹی کے اندرپھوٹ پڑ چکی ہے اور جماعت کے لیڈر اپنے الگ الگ دھڑے بنانے میں مصروف ہیں۔ترکی پہلے کی نسبت زیادہ معاشی بحران کا شکار ہے۔ لیرا کی قدر میں مسلسل گر رہی ہے۔ اردوآن کو امید ہے کہ اس کا اثر ایک بار پھر آئے گا ، لہذا وہ مصر میں اخوان کو اقتدار میں لانے کے لئے مختلف طریقوں سے مداخلت کررہے ہیں۔

قطر کے بارے میں مختارنوح نے کہا کہ قطری حکام “اخوان المسلمون کو سیاسی ایجنڈے انجام دینے اور اپنے مخصوص اہداف پورے کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔” انہوں نے یاد دلایا کہ “یوسف القرضاوی ساٹھ کی دہائی میں اخوان سے نکل کر قطر کا سفر کیا ، جہاں وہ دوحا کا خادم بن گیا۔ پھر اسے حیران کن اور بغیر کسی تعارف کے گروپ میں دوبارہ حیرت میں ڈال دیا۔ .

انہوں نے مزید کہا کہ یوسف قرضاوی قطر سلطان کا مفتی بن گئے۔ انہیں جو سلطان کہتا ہے وہ اسکا فتویٰ جاری کردیتے ہیں۔

مختار نوح نے دعویٰ کیا کہ سنہ 2013ء اخوان کےخاتمے کا سال ہے۔ اس کے بعد اب یہ جماعت صرف اپنی قوت پرآگے بڑھنے کی کوشش کررہی ہے مگر سنہ 2028ء کے بعد اس کا سیاسی اور دعوتی وجود بھی ختم ہوجائے گا۔