تحریر : پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی میں مسجد نبوی میں اپنی پہلی نماز فجر پڑھ چکاسرور مستی اور سرشاری سے سرشار میں مسجد نبوی کی خوبصورتی اور روشنیوں میں گم ہو چکا تھا کبھی مسجد نبوی کے سنگ مرمر کے بنے ہوئے خوبصورت ستونوں کو دیکھ رہا تھا جن کے انگ انگ سے نور کے فوارے پھوٹ رہے تھے زائرین کا ایک ہجوم تھا زیادہ تعداد مقامی لگ رہی تھی جن کی قسمت پر مجھے رشک آرہا تھا کہ اِن کی قسمت میں مدینہ لکھ دیا گیا تھا مسجد کی لا محدود وسعتیں اور رنگ و نور کا سمندر میری آنکھوں کو خیرہ کر رہا تھا اور میں کسی حیرت زدہ بچے کی طرح خوشگوار حیرت سے چاروں طرف دیکھ رہا تھا ۔ آج مسجدِ نبوی کی وسعت کا یہ عالم تھا کہ مسجد کے اندر اِس کی چھتوں پر اور صحنوں میں تقریبا آٹھ لاکھ نمازی بیک وقت نماز ادا کر سکتے تھے لیکن چودہ صدیاں پہلے والی ابتدائی مسجد نبوی کی حدود اور وسعت کیا تھی ۔میں چشمِ تصور سے دیکھ رہا تھا کہ شہنشاہِ مدینہ ۖ کو مدینہ تشریف لائے ہوئے چودہ دن ہو چکے تھے اِن چودہ دنوں میں جہاں نماز کا وقت آتا وہیں نماز پڑھ لیتے ۔پھر مسجد بنانے کا ارادہ فرمایا۔ہماری ماں حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ سرورِ کونینۖ اپنی اونٹنی پر سوار ہو کر نکلے اونٹنی مسجد والی جگہ پر بیٹھ گئی تو پیارے آقاۖ نے فرمایا یہ جگہ ہماری مسجد کے لیے ہو گی پتہ چلا کہ یہ جگہ دو یتیم بچوں سہل اور سہیل کی ملکیت ہے جو اسعد بن زرارہ کے ہا ں پرورش پا رہے تھے پھر اِن دونوں یتیم بچوں کو بلایا گیا۔
اِن دونوں کا قیامت تک دائمی شہرت اور اعلی مقام ملنے والا تھا ایسا مقام کہ بادشاہ وقت بھی ان کی قسمت پر رشک کرتے رہیں گے ۔نبی کریم ۖنے بچوں کو قیمت دینی چاہی لیکن سعادت مند بچوں نے کہا حضور ۖ یہ جگہ آپۖ کوبطور عطیہ دیتے ہیں ۔فخر کائنات ۖنے صحابہ کے ساتھ مل کر مسجد کی تعمیر شروع کی ‘شہنشاہ ِ دو عالم ۖ خود اپنے ہاتھوں سے پتھر اور گارا اٹھاتے اور ساتھ ساتھ یہ شعر پڑھتے جاتے ‘ یہ بوجھ خیبر کی کھجوروں کا بوجھ نہیں اے ہمارے رب یہ تو انتہائی پاکیزہ اور نیک کام ہے۔
کچی مٹی اور اینٹوں سے بنی یہ چھوٹی سی مسجد جِس کی چھت کھجور کی شاخوں پر مشتمل تھی پہلی اسلامی ریاست کا دارلخلافہ ، پارلیمنٹ ہاس ، سر چشمہ رشد و ہدایت ، عدل و انصاف کا مرکز اور اسلامی علوم کی پہلی درس گا ہ تھی۔ مسجد نبوی کی توسیع اور تعمیرِ نو کا کام مختلف ادوار میں جاری رہا ۔ہر مسلمان حکمران اپنے لیے سعادت ِ عظیم سمجھتے ہوئے مسجدِ نبوی کو خوبصورت سے خوبصورت بنانے کی کوشش میں لگا رہا ۔ لیکن آلِ سعود کے دور میں خصوصا شاہ فیصل شہید اور شاہ فہد بن عبدالعزیز کے ادوار میں ہونے والا کام سب سے بڑھ کر ہے ۔آج جو مسجد نبوی ہمیں نظر آتی ہے یہ حسن ، خوبصورتی کا شاہکار ہے آج مسجد میں سینکڑوں چاند اور ستارے جگمگاتے برقی قمقموں کی صورت میں رنگ و نور کا سیلاب لا ئے ہوئے تھے نرم اور گذار قالین اور ائر کنڈیشنڈ مسجد میں بیٹھا۔ صدیوں پرانی مسجد کو تلاش کر رہا تھا جو کچی اینٹوں ، کھجور کی شاخوں اور تنوں پر مشتمل تھی جس کی اینٹوں ، گارے ، کھجورکی شاخوں اور تنوں میں پیارے آقا ۖ کے پسینے کی خوشبو رچی بسی تھی ۔میں اندازہ لگانے کی کوشش کر رہا تھا کہ وہ مسجد کس جگہ پر ہوگی ۔ پیارے آقا ۖکے دنیا سے جانے کے بعد حضرت ابوبکر صدیق ، حضرت عمر فاروق ، حضرت عثمان اور حضرت علی کا دور میرے تصورمیں گھوم رہا تھا کہ مسجد کے کس حصے یا جگہ پر پیارے آقاۖ کے یہ عظیم ساتھی آتے جاتے ہونگے ۔پھر اچانک مجھے امام مالک یادآئے جو ساری عمر عشقِ رسولۖ میں مدینہ سے باہر نہ جاتے اگر کبھی گئے تو فوری واپس آجاتے پھر ان کا درس ِ حدیث امام مالک درس دیتے اور امام شافعی جیسا جلیل القدر شاگرد اپنی علمی پیاس بجھاتا اور جب امام مالک روضہ رسولۖ کی طرف اشارہ کرتے اور فرماتے پیارے آقاۖ نے یہ فرمایا ۔امام مالک زیادہ تر ننگے پاں پھرتے کبھی کسی سورری پر اِس لیے سواری نہ کی کہ میں اس زمین پر سواری پر بیٹھوں جہاں شہنشاہِ مدینہ ۖ آرام فرما رہے ہیں۔
پھر امام اعظم ابو حنیفہ کا یہاں آنا اور امام احمد بن جنبل کا عقیدت بھرا انداز کون بھول سکتا ہے پھر میں کھجور کے اس تنے والی جگہ کو ڈھونڈنے لگا ۔ جو مسجد کی چھت کا ستون بھی تھا ۔ پیارے آقا ۖ جمعہ کے دن خطبہ دیتے ہوئے اکثر اِس کھجور کے تنے کا سہارا لیتے اور اِس کے ساتھ کھڑے ہو کر خطبہ جمعہ ارشاد فرماتے ۔پھر عشقِ نبی ۖ سے معمور ایک انصاری خاتون نے سوچا کہ آپ ۖ کو کھڑے ہونے سے تھکاوٹ ہو جاتی ہے ۔اِس لیے کیوں نا آپ ۖ کے لیے منبر بنا دیا جائے ۔ حضورۖ کو درخواست کی گئی تو شہنشاہِ عالم نے قبول فرمائی تو درخت کی لکڑی اور شاخوں سے بنا تین سیڑھیوں والا منبر تیار کر لیا گیا اورمسجد میں رکھ دیا گیا۔جمعتہ المبارک کے دن سرورِ دو جہاں ۖ خطبہ ارشاد فرمانے کے لیے کھجور کے تنے کے پاس سے گزر کر نئے منبر پر جلوہ افروز ہوئے ۔ابھی خطبے کاآغاز بھی نہیں ہوا تھا کہ مسجد میں سسکیوں اور چیخوں کی آوازیں آنے لگیں کہ جیسے کوئی جدائی میں بچوں کی طرح بلک بلک کر رو رہا ہے ۔صحابہ کرام حیران تھے کہ یہ کون رو رہا ہے تو پتہ چلا کہ حضور پاک ۖ کی جدائی میں کھجور کا خشک تنا رو رہا تھا۔
حضرت جابر بن عبداللہ فرماتے ہیں کہ وہ بچے کی طرح چیخ چیخ کر رو رہا تھا حضرت انس فرماتے ہیں وہ ایک مصیبت زدہ شخص کی طرح دہائی دے رہا تھا ۔محسنِ انسانیت ۖ منبر سے تشریف لا کر اس تنے پر دستِ اقدس رکھتے ہیں گلے لگاتے ہیں حوصلہ دیتے ہیں گفتگو کرتے ہیں اسے اختیا ر دیتے ہیں کہ اگر تو چاہے تو تجھے جنتی درخت بنا دیا جائے یا تجھے دنیا کا پھل دار درخت بنا دیا جائے ۔ لیکن آپ ۖ کی جدائی میں رونے والے تنے نے جنتی ہونا پسند فرمایا ۔عشقِ رسول ۖ کی کیا بات ہے ایک دن حضرت عبداللہ بن عمر ایک مقام پر اونٹنی پر سوار دائر ہ بنا رہے تھے (گول چکر لگا رہے تھے) ان سے پوچھا گیا اِس طرح گول چکر لگانے کی کیا حکمت ہے تو انہوں نے کہا مجھے کچھ نہیں پتا میں نے اِس مقام پر رسول اللہ ۖ کو چکر لگاتے دیکھا تھا سو میں بھی اسی طرح چکر لگا رہا ہوں ۔ ایک دن حضرت عمر نے حجرِ اسود کو مخاطب ہو کر کہا خدا کی قسم مجھے یقینا علم ہے کہ تو صرف ایک پتھر ہے نہ نفع دے سکتا ہے اور نہ نقصان اور اگر میں نے رسول اللہ ۖ کو تجھے بوسہ دیتے نہ دیکھا ہوتا تو تجھے کبھی بوسہ نہ دیتا۔