اللہ عزوجل ، قادر مطلق کی جملہ مخلوقات میں جو کہ نور سے ، نار سے یا مٹی سے پیدا کی گئیں سب میں عظیم ترمخلوق حضرت انسان ہے۔ اور پھر انسانوں میں انسان کامل، بے مثل بشر، خاتم المرسلین، سیّدالعالمین، صاحب قاب قوسین، جناب طٰہٰ و یٰسین، حامل مقام محمود، رسول کریم محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہیں۔ سرکار دوعالم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام کی عظمت و رفعت کا کیا ٹھکانہ ، جہاں باری تعالیٰ کا نام آتا ہے ، وہیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کا نام مبارک آتا ہے ۔ کلمہ طیبہ آپۖ کے شرف کی دلیل ، کلمہ شہادت آپۖ کی صداقت کا ثبوت ہے ۔ مساجد کے مینار آپ ۖ کی قدرو منزلت کا نشان ہیں ، اذان آپۖ کی شان و عظمت کااعلان ہے۔
تکبیر آپۖ کے علو ِمرتبت کی علامت ہے ، نمازآپۖ کی جلالت قدر کی شہادت ہے۔ آپۖ کی اطاعت اللہ کی اطاعت ہے ، قرآن میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود وسلام کا حکم آپۖ کے ارتفاع منزلت کا نقش ہے ۔ اللہ ربّ العزت نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسا بنایا کہ نہ اس سے پہلے ایسا کوئی بنایا ہے نہ بعد میں کوئی بنائے گا۔ سب سے اعلیٰ، سب سے اجمل، سب سے افضل، سب سے اکمل، سب سے ارفع، سب سے انور، سب سے آعلم، سب سے احسب، سب سے انسب، تمام کلمات مل کر بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان کو بیان کرنے سے قاصر ہیں،اگر سارے جہاں کے جن و انس ملکر بھی خاتم النبین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان اقدس اور سیرت طیبہ کے بارے میں لکھنا شروع کریں تو زندگیاں ختم ہو جائیں مگر رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان کا کوئی ایک باب بھی مکمل نہیں ہو سکے گا۔ کیونکہ اللہ رب العزت نے قرآن کریم میں ارشاد فرمایا ہے ”اے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہم نے آپ کے ذکر کو بلند کر دیا ہے۔
جس ہستی کا ذکر مولائے کائنات بلند کرے،جس ہستی پر اللہ تعالیٰ کی ذات درودوسلام بھیجے، جس ہستی کا ذکر اللہ رحمن و رحیم ساری آسمانی کتابوں میں کرے، جس ہستی کا، چلنا ،پھرنا ،اٹھنا، بیٹھنا،سونا، جاگنا،کروٹ بدلنا، کھانا، پینا۔ مومنین کیلئے باعث نجات، باعث شفائ، باعث رحمت ،باعث ثواب،باعث حکمت، باعث دانائی ہو، اور اللہ ربّ العزت کی ذات نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات کبریا کو مومنین کیلئے باعث شفاعت بنا دیا ہو، اس ہستی کا مقام اللہ اور اللہ کا نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی جانتے ہیں۔ پھر اس ہستی کے مطلق سب کچھ لکھنا انسانوں اور جنوں کے بس کی بات نہیں۔اللہ تعالیٰ نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بے شمار خصوصیات عطافرمائی ہیں جن کو لکھنا تو در کنارسارے جہان کے آدمی اور جن ملکر گن بھی نہیں سکتے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس الفاظ اور ان کی تعبیرات سے بہت بلند وبالا تر ہے۔
آپ کا ئنات کا مجموعہ حسن ہیں، آپ کا قد نہ زیادہ لمبا تھا نہ پست ، ماتھا کشادہ تھا، سر بہت خوبصورتی کے ساتھ بڑا تھا، آپ کے بال نیم گھنگریالے تھے، آپ کی بھوئیں گول خوبصورت تھیں جہاں وہ ملتی ہیں وہاں بال نہ تھے وہاں ایک رگ تھی جو کہ غصے میں پھڑکتی تھی، آنکھ مبارک کے بارے میں ہے کہ آپ کی آنکھیں لمبی، خوبصورت، سرخ ڈوروں سے مزین تھیں، موٹی اور سیاہ، سفیدی انتہائی سفید، آپ کی پلکیں بڑی دراز، آپ کی ناک مبارک آگے سے تھوڑا اٹھا ہوااور نتھنوں سے باریک ، ایک نور کا ہالہ تھا جو ناک پر چھایا رہتا تھا ، آپ کے ہونٹ انتہائی خوبصورت تراشیدہ، تھوڑے دہانے کی چوڑائی کے ساتھ ، دانت بڑے خوبصورت اور متوازی اور ان میں کسی قسم کی کوئی بے ربطگی نہ تھی، انتہائی باہم مربوط، پہلے چار دانتوں میں خلاء تھا، جب آپ مسکراتے تو دانتوں سے نور نکلتا ہوا سامنے پڑتا تھا، گال مبارک نہ پچکے ہوئے نہ ابھرئے ہوئے ، چہرہ چودھویں رات کے چاند کی طرح چمکتا ہوا گول تھا، داڑھی مبارک گھنی تھی۔
ام مبارک رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں ” میں نے ایک نوجوان دیکھا بڑا صاف ستھرا، حسین سفید چمکتا چہرہ، جیسے کلیوں میں ایک تازگی ہوتی ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا رنگ چمکتا تھا نوخیز کلیوں کی طرح، اورفرماتی ہیں نہ آپ ایسے موٹے تھے کہ نظروں میں جچے نہیں اور نہ ایسے دبلے اور کمزور تھے کہ بے ر عب ہوجائیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم وسیم وقسیم تھے (عربی زبان میں وسیم بھی خوبصورت کو کہتے ہیں اور قسیم بھی خوبصورت کو کہتے ہیں وسیم وہ خوبصورت ہوتا ہے جسے جتنا دیکھیں اس کا حسن اتنا بڑھتا ہے جیسے دیکھتے ہوئے آنکھ نہ بھرے ، قسیم اسے کہتے ہیں جس کا ہر عضو الگ الگ حسن کی ترجمانی کرتا ہو، جس کا ہر عضو حسن میں کامل اور اکمل ہو )۔ اللہ تعالیٰ نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سراج منیرکا لقب دیا یہ لقب صرف آپ کو ہی دیا گیا، جس کا مطلب ہے ” روشن چراغ ” آپ نبوت کا روشن آفتاب ہیں۔ آپ کے آفتاب کی کرنیں سب سے پہلے اصحاب رسول پر پڑی پھرتمام دنیا پر پھیل گئیں۔اور انہی کرنوں کی بدولت دنیا کے تمام خطے پر اسلام پھیل گیا۔ اور ان کرنوں نے چپہ چپہ پر ہدایت کا نور پھیلایا۔
علامہ قرطبی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے حسن و جمال میں سے بہت تھوڑا ساظاہر فرمایا اگر سارا ظاہر فرماتے تو آنکھیں اس کو برداشت نہ کرسکتیں۔ حضرت یوسف علیہ السلام کا سارا حسن ظاہر کیا لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حسن کی چند جھلکیاں دکھائی گئیں اور باقی سب مستور رہیں، کوئی آنکھ ایسی نہ تھی جو اس جمال کی تاب لا سکتی، اس لئے ہم وہی کچھ کہتے ہیں جو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ کر ہم تک پہنچایا۔ براء بن عازب رضی اللہ عنہ کی اس بات کو حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ شاعر رسول اللہ نے ان الفاظ میں بیان کیا” آپ جیسا حسین میری آنکھ نے نہیں دیکھا ، آپ جیسے جمال والا کسی ماں نے نہیں جنا ، آپ ہر عیب سے پاک پیدا ہوئے ، آپ ایسے پیدا ہوئے جیسے آپ نے خود اپنے آپ کو چاہا ہو۔ ” یہاں شاعر کا تخیل اتنی بلندی پر گیا ہے کہ قیامت تک آنے والے نعت خواں وہاں تک نہیں پہنچ سکتے ،ساری دنیا کا نعتیہ کلام ایک پلڑے میں اور یہ ایک مصرع دوسرے پلڑے میں ہوتو اس کا وزن زیادہ ہے۔
غرضیکہ آپ کے اسوہ حسنہ پر عمل پیرا ہو کر ہی ہم دنیا و آخرت میں کامیابی حاصل کر سکتے ہیں، اور محبوب ربّ العالمین کی جناب میں سرگوشی، جنبش لب، اشارۂ ابرو، آنکھوں کے ذریعے اس طرح رمز و کنایہ کرنا جس سے کسی قسم کی گستاخی کا پہلو نکلتا ہو ،ہر گز روا نہیں۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمارے دلوں میں سب سے زیادہ سرور کونین حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی محبت پیدا فرمائے ، اور ہمیں نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی سیرت و کردا رکو اپنا کر دین اسلام کی تبلیغ و ترویج اور معاشرے کی اصلاح کا ذریعہ بنائے،آمین۔
Rana Aijaz Hussain
تحریر : رانا اعجاز حسین چوہان
ای میل: ranaaijazmul@gmail.com رابطہ نمبر:03009230033