مچھر کی شرارتیں

Mosquito

Mosquito

تحریر : قرتہ العین سکندر
سرشام ظہیر صاحب گھر کے قریب واقع باغ میں روزانہ چہل قدمی کے لیے جایا کرتے وہاں ان کی ملاقات اپنے ایک دیرینہ دوست احتشام سے ہوئی۔دونوں بغل گیر ہوے خوب گرمجوشی سے احوال دریافت کیا گیا۔دونوں دوست سنگی بینچ پر بیٹھے عہد رفتہ کی باتوں میں گم ہو گئے۔ ”اور سناو والد محترم کی صحت اب کیسی ہے سنا تھا پچھلے دنوں بے حد علیل تھے۔؟” احتشام نے پاوں پر مچھر کی واردات پر کھجلی کرتے ہوے پوچھا۔ دونوں کے سروں پر مچھروں کا ایک جھنڈ تھا جو سروں پر منڈلاتے ہوے کاٹنے میں سرگرم عمل تھا۔ ”بچ گیا مردود”۔ ظہیر صاحب ہنستے ہوے دونوں ھاتھوں سے تالی بجاتے ہوے بولے۔ ”کیا؟؟ ”احتشام جس کے بازو پر مچھر دانت گاڑے خون چوسنے میں مصروف عمل تھا۔حیرت کی زیادتی سے کھجانا ہی بھول گئے۔ ”اوہ آپ غلط سمجھے میں تو مچھر کے متعلق کہہ رہا تھا۔والد محترم تو بہت بہتر ہیں”۔

ظہیر صاحب نے کھسیانہ ہو کر شرمندہ سے لہجے میں وضاحت کرتے ہوے کہا۔ اور آپ بتائیں برخوردار کیسے ہیں؟ ظہیر صاحب نے بھی مروتا احوال دریافت کیا ان للہ وانا الیہ راجعون احتشام نے ہاتھ مسلتے ہوے کہا۔ اوہ بے حد دکھ ہوا جواں موت پر۔ تاسف سے گھلے لہجے میں ظہیر بولے اللہ نہ کرے میں تو مچھر کے مر جانے پر بول رہا تھا میرا بیٹا ماشاء حیات ہے برسرروزگار ہے۔ احتشام برا منا گئے۔ ”اچھا مبارک ہو۔

Mosquito

Mosquito

بھابھی کیسی ہیں؟” ”چٹاخ ۔۔۔”تھپڑ سے ظہیر صاحب کا منہ لال ہوچکا تھا۔جو احتشام نے ان کے رخ روشن پر رسید کیا تھا۔رنج اور الم سے ظہیر صاحب کا منہ کھلے کا کھلا رہ گیا۔ ”معذرت یہ مردود مچھر آپ کے گال پر بیٹھا خون چوسنے میں مصروف عمل تھا”۔احتشام نے مچھر ان کی آنکھوں کے سامنے لہرایا۔ دونوں مسکرادیے۔ ”یہ جگہ قطعاً معقول نہیں دو شرفا ء کی ملاقات کے لیے۔چلیں میرا غریب خانہ یہاں سے قریب ہی ہے وہاں چل کر بات چیت ہوتی ہے” ظہیر صاحب نے قطعیت سے کہا۔

”واقعی آپ درست کہہ رہے ہیں اس علاقہ کی نالیاں بے حد گندی ہیں اور پانی کی نکاسی کا نظام بھی درست نہیں۔مچھروں کی بہتات ہے جو نت نئی بیماریوں کا سبب بن رہا ہے مگر اہل علاقہ خاموش ہیں۔حکومتی اہل کار ووٹوں کے حصول کے وقت بلند و بانگ دعوے کرتے ہیں اور مطلب نکل جانے کے بعد طوطا چشم ہو کر آنکھیں پھیر لیتے ہیں اور ہم کم عقل عوام نئے سرے سے پاگلوں کی طرح ہر نئے انتخابی مہم میں انہی دغا بازوں کو ووٹ دے دیتے ہیں۔” پھر دونوں دوست مچھروں سے جان خلاصی کے لیے تیزی سے اٹھ کر باغ سے باہر آگیے۔

تحریر :قرتہ العین سکندر