تحریر : میر شاہد حسین باوثوق ذرائع سے خبر ملی ہے کہ مچھروں کی تعداد میں بے حساب اضافہ ہو گیا ہے اور اب شہر میں مچھروں نے بھاری اکثریت حاصل کرلی ہے۔ ان کے ناپاک ارادوں سے ہر خاص و عام واقف ہے لیکن پھر بھی کسی کو جرات نہیں ہورہی کہ ان کے خلاف آپریشن کلین اپ کرکے ان کا قلع قمع کرسکے۔شہر میں موجود گندگی کے ڈھیر ، گٹروں سے ابلتے چشمے ان کی بہترین پناہ گاہیں ثابت ہورہے ہیں جہاں یہ اپنی افزائش کرکے روز بروز اپنی قوت میں اضافہ کررہے ہیں۔ اگر ان کی بڑھتی ہوئی تعداد کو آج روکنے کی تدبیر نہیں کی گئی تو وہ دن دور نہیں جب شہر میں مچھروں کا ہی راج ہوگا اور انسان ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملیں گے۔مچھروں سے آئے روز مذاکرات کیے جاتے ہیں لیکن بات شوں شوں سے آگے نہیں بڑھ پاتی۔کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ یہ چینی زبان بولتے ہیںاس لیے ان سے مذاکرات کیلئے چینیوں کی خدمات حاصل کی جائیں لیکن کچھ بزرگوں کا خیال ہے کہ مچھروں پر برطانیہ میں اچھی تحقیق ہورہی ہے۔ اس لیے ان سے مدد حاصل کی جائے۔ لیکن باجود کوششوں کے بات آگے نہیں بڑھ سکی۔ اب سمجھ میںنہیں آتا کہ مچھر ہماری بات نہیں سنتے یا ہم مچھروں کی نہیں سنتے۔
پہلے کے مچھروں میں اور موجودہ مچھروں کی جنریشن میں یہ فرق ہے کہ پہلے کے مچھر صرف رات میں کاٹتے تھے لیکن ینگ جنریشن دن دیکھتی ہے نہ رات۔انسانوں کو دیکھ کر انہوں نے بھی چوبیس گھنٹے سروس شروع کررکھی ہے۔کاش یہ مچھرانسانوں کو دیکھ کر ہڑتال بھی شروع کردیتے تو کتنا اچھا دن یا رات گزرتی کہ آج ناغہ ہے۔مچھروں کے کاٹنے پر شاید کسی کو بھی کوئی اعتراض نہ ہو اگر یہ مچھرکاٹنے کا کام علی الاعلان نہ کریں اور ہمارے کانوں میں بیں بیں نہ کریں۔ اب انہیں کیا پتا کہ بھینس کے آگے بین بجائیں تو شاید وہ سن بھی لے لیکن انسانوں پر کوئی اثر نہیں ہوتا۔مچھروں کی آئے روز نئی نئی قسمیں دریافت ہورہی ہیں۔ کوئی بھینگی ہے تو کوئی ڈینگی ہے۔کوئی صاف پانی کا ہے تو کوئی گندے پانی کا ۔ اگر ان کی قسمیں اسی طرح روز روز دریافت ہوتی رہیں تو وہ دن دور نہیں جب ہم ہر مچھر کا الگ الگ نام رکھ دیں گے۔مثلاً ڈینگی مچھر،کن کٹا مچھر، پر کٹا مچھر، دیسی مچھر، ولایتی مچھر، کالا مچھر، مچھرخان وغیرہ وغیرہ۔ان کو کوئی بھی نام دے دیں بہرحال ان کی ذات پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔ جن کی فطرت میں کاٹنا لکھا ہو وہ تو کاٹے بنا نہیں رہتے۔مچھروں کی یہی بات ہمیں اچھی لگتی ہے کہ یہ اپنا کام بڑی ایمانداری سے بلاتفریق کرتے ہیں۔
مچھروں پر جس قدر تحقیق ہو رہی ہے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ آنے والا مستقبل مچھروں کا ہی ہوگا۔اسی لیے ان کے نام پر کراچی میں ایک کالونی کا نام ”مچھر کالونی” رکھ گیا ۔اب پتا نہیں یہ انسانوں کی کالونی ہے یا مچھر کی کالونی ہے۔کراچی کی کالونی ملیر کو بھی مچھر نے خوب عزت بخشی ہے۔اب پتا نہیں ملیر میں رہنے والے مچھر نے ملیریا پیدا کیا تھا کہ ملیریا نے ملیر کو جنم دیا ہے۔یہ تو تحقیق طلب بات ہے جس پر انسانوں نے تو شاید تحقیق نہیں کی لیکن مجھے یقین ہے مچھروں میں اس پر تحقیق ضرور ہورہی ہوگی۔
Mosquito
ہمیں یہ بات سمجھ میں آئے یا نہ آئے لیکن امریکی سائنسدانوں نے یہ بات سمجھ لی ہے کہ مستقبل مچھروں کا ہے اسی لیے انہوں نے مچھروں جیسے ڈرونز بنا نا شروع کر دیئے ہیں۔امریکی سنڈی اور کتوں کے بعد اب امریکی مچھر بھی مارکیٹ میں آنے والے ہیں۔ اس بات سے اندازہ ہوتا ہے کہ امریکی انسانوں پر کم ہی بھروسہ کرتے ہیں اسی لیے وہ سنڈی، کتے اور مچھروں کو استعمال کرتے ہیں۔کیونکہ انسان دھوکہ دے جاتے ہیں وہ کہتے تو یہ ہیں کہ وہ ڈرتے ورتے کسی سے نہیں لیکن ایک معمولی مچھر سے بھی ڈر کر مچھر دانیوں میں پناہ لے لیتے ہیں آج کل ڈینگی مچھر کے بڑے چرچے ہیںاور اس نے بڑی دہشت پھیلا رکھی ہے۔یقینا اس کا تعلق گوجرانوالہ کے ڈینگا سے ہوگایا اس کی ڈینگیوں نے اس کو مشہور کیا ہوگا۔پتا نہیں یہ مچھر ہمارے خون کے اتنے پیاسے کیوں ہو گئے ہیں جبکہ ہم ان نے ان کے آرام و سکون میں کبھی کوئی خلل نہیں ڈالا۔ بلکہ ہمیشہ ان کے لیے اچھا ماحول رکھا ہے۔ لیکن لگتا ہے انہوں نے سیاستدانوں کا خون چوس لیا ہے تبھی اب ان کا کسی طرح پیٹ نہیں بھر تا۔ اب انہیں کیا پتا کہ سیاستدان اور مچھر میں بہت فرق ہوتا ہے۔ سیاستدان کا خون چوس کر کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ اب اس کی رگوں میں بھی سیاستدان کا خون دوڑ رہا ہے یا یوں کہہ لیں کہ سیاستدان کا خون پی کر کوئی سیاستدان نہیں بن سکتا۔ آج کل مچھروں کا یہ نعرے بڑے مقبول عام ہو رہا ہے اور ہر مچھر کی زبان زد عام پر سنا جاسکتا ہے۔
تم کتنے مچھر مارو گے… ہر گھر سے مچھر نکلے گا!! کل بھی مچھر زندہ تھا… آج بھی مچھر زندہ ہے!! مچھر تیرے جانثار…بے شمار بے شمار!! انسانوں کا جو یار ہے … غدار ہے غدار ہے!! گو انسان گو،یاپھر رو انسان رو!! اسی تناظر میںمیری آپ سے بھی یہ درخواست ہے کہ مچھروں سے دشمنی کرنا چھوڑ دیں مچھروں کے مینڈیٹ کو دل سے تسلیم کرلیں کیونکہ آئندہ حکومت مچھروں کی ہی ہوگی۔ جس میں انصاف سب کے ساتھ ہوگا۔کوئی بڑا چھوٹا نہیں ہوگا۔ کسی مچھر کے آنے پر سائرن نہیں بجایا جائے گا۔ سستا خون سب کو دستیاب ہوگا۔جب چاہیں ایزی مچھر سرنچ کے ذریعے ڈرپ لگوائیں بغیر کسی اضافی چارجز کے۔اس کے لیے کسی بھی مچھر فرنچائز پر بھی جانے کی ضرورت نہیں۔
کسی کو مچھروں کے بارے میں خوش فہمی کا شکار نہیں ہونا چاہیے کیونکہ جب مچھروں نے نمرود جیسوں کو نہیں چھوڑا اور اس کے ناک میں دم کرکے جان لے لی تھی تو وہ آج بھی یہ کام باآسانی کرسکتے ہیں ۔ اس لیے میں تو کہتا ہوں مچھروں کو مارنے کے بجائے مچھروں سے دوستی کرلیں اور ان کے ساتھ امن و شانتی سے رہنا سیکھ لیں ورنہ پھر نہ کہنا کہ خبر نہ ہوئی!!