اسلام آباد(جیوڈیسک)سابق صدر پرویز مشرف نے غداری کا مقدمہ چلانے سے متعلق درخواستوں کی سماعت میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بنچ پر عدم اعتماد کا اظہار کر دیا۔ جسٹس خلجی عارف حسین نے ریمارکس دیے ہیں کہ کیا ہر حکومت کیلئے ضروری ہے کہ ماضی کے غلط کاموں کا بھی دفاع کیا جائے۔سپریم کورٹ میں پرویز مشرف کے خلاف غداری کا مقدمہ چلانے سے متعلق درخواستوں کی سماعت میں تین رکنی بنچ پر عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے۔
احمد رضا قصوری کا کہنا ہے کہ ان کے موکل کو جسٹس جواد خواجہ کی ذات کے حوالے سے تحفظات ہیں۔ انہیں ہدایات دی گئی ہیں پہلے فل کورٹ کا معاملہ طے کیا جائے۔ پرویز مشرف کے وکیل ابراہیم ستی نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ وفاق کو تین نومبر کے اقدامات کا دفاع کرنا چاہیے تھا جس پر جسٹس خلجی عارف حسین نے کہا کہ آپ کا کہنا ہے کہ جب بھی آئین سے انحراف ہو عدالت اور پارلیمنٹ اس کی توثیق کرے۔ ابراہیم ستی نے کہا کہ تین نومبر کا اقدام وزیر اعظم کے خفیہ خط پر کیا گیا۔
سپریم کورٹ پرویز مشرف کو غداری کا ملزم سمجھتی تو مختصر حکم میں ذکر کرتی ابراہیم ستی نے کہا کہ چیف جسٹس نے اپنے کیس میں پرویز مشرف کے خلاف بیان حلفی داخل کرایا تھا اور سپریم جوڈیشل کونسل کے تین ارکان پر جانبداری کا الزام عائد کیا تھا اس حوالے سے انھوں نے چھ دلائل دیے ان کا انحصار بھی انہی پر ہے۔ انہوں نے کہا کہ پرویز مشرف کی والدہ شدید بیمار ہیں۔ انہیں دوبئی جانا پڑ سکتا ہے۔
جسٹس خلجی عارف حسین نے کہا کہ اگر پرویز مشرف کو دوبئی جانا ضروری ہو تو درخواست دائر کر دیں، غور کریں گے۔ دوران سماعت کمرہ عدالت میں دلائل کے دوران مداخلت پر ابراہیم ستی نے ساتھی وکیل احمد رضا قصوری کو جھاڑ دیا۔ ابراہیم ستی نے کہا کہ وہ قانونی نکات پر بات کر رہے ہیں مداخلت نہ کریں۔
احمد رضا قصوری نے کہا کہ وہ بنچ کو اپنے مکل کی نئی ہدایات پہنچانے کا ناخوشگوار فریضہ ادا کر رہے ہیں اس پر جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ آپ نے اپنا فریضہ ادا کرنا ہے اس کیلئے ناخوشگوار کا لفظ ادا نہ کریں۔