ایک پڑھا لکھا انسان خواہ وہ مرد ہو یا عورت جب اپنے ذہنی انتشار کا خاتمہ مثبت انداز میں نہیں کر سکتا تو وہ جرائم کا راستہ اپنا لیتا ہے اور ہر مجرم کے پاس اپنے جرم کی کوئی نہ کوئی تاویل بھی ضرور ہوتی یے۔ جس سے وہ اپنے دل کو کھوکھلی تسلیاں دیتا رہتا ہے ۔ کہ وہ درست ہے، وہ ٹھیک ہے، باقی سب غلط ہیں۔ ایسا ہی ایک خوفناک واقعہ پچھلے دنوں کراچی کے ساحل پر پیش آیا جہاں ایک ظالم عورت نے اپنی ہی اولاد کو دو سال کی معصوم بیٹی انعم کو اپنے ہاتھوں گلہ گھونٹ کر سمندر میں ڈبو کر مار ڈالا۔ سنتے آئے ہیں کہ ڈائن بھی کلیجہ چباتے ہوئے سات گھر چھوڑ دیتی ہے۔
یہ کیسی بدبخت عورت ہے جس نے ماں کے نام پر بھی کالک مل دی اور اپنا ہی کلیجہ نکال کر چبا ڈالا ۔ کوئی بھی اخلاقی، سماجی یا قانونی شق اسے نہ تو تحفظ دے سکتی ہے اور نہ ہی اس کے جرم کی نوعیت کی سنگینی کو کم کر سکتی ہے۔
اپنی شادی شدہ زندگی کی کامیابی یا ناکامی کو ان دونوں افراد کو برابر کا جھیلنا چاہیئے ۔ اس بدبخت باپ راشد کو، جو اپنی بیوی کو عزت اور تحفظ نہ دے سکا ۔ اسے گھر کی چھت اور دو وقت کی روٹی تک نہ دے سکا ۔ اسے بھی برابر کی سزا ملنی چاہیئے ۔ اس عورت کو جو اپنے شوہر کیساتھ اپنی زندگی ابھی مطمن انداز میں سیٹل نہیں کر پا رہی تھی تو اس نے اس بچی کو دنیا میں لانے کا فیصلہ کیوں کیا ؟
اگر کر ہی لیا تو حالات اس قدر سنگین ہو گئے یا وہ اسقدر مجبور ہو گئی کہ اس بچی کو سنبھالنا اس کے لیئے ممکن نہیں رہا تو کیا اس شہر میں کسی اور بے اولاد کی جھولی میں یہ پھول نہیں ڈالا جا سکتا تھا؟ کیا کوئی اور ادارہ یتیم لاوارث بچوں کو پالنے والا ہی اس کی کفالت کو موجود نہیں تھا ؟
کیا یہ پڑھی لکھی عورت اس شہر میں کسی کو نہیں جانتی تھی جو اسے کسی بھی معمولی سی ہی نوکری پر لگوا دیتا ۔ اور جب تک رہنے کا ٹھکانہ نہ ہوتا کسی دارالامان میں ہی اسے رہنے کو جگہ نہ مل پاتی ۔
ہونے کو بہت کچھ ہو سکتا ہے ۔ ماں جو اللہ کی تشبیہہ میں جنم دینے والی اور پالنے والی قرار دی گئی ۔ جس کی گھٹی میں مامتا کے نام پر مہربانی ، قربانی ،ایثار گوندھ دیا گیا ہے وہ اس قدر سفاک ہو جائے کہ محض اپنے شوہر سے بدلہ لینے کے لیئے اپنی ہی کوکھ اجاڑ لے ۔ اپنی اولاد کی قاتلہ بن جائے ۔۔۔ایسی سفاک عورت کو اس معاشرے میں کسی قیمت پر کھلا نہیں چھوڑا جا سکتا ۔
ایسی عورت کو سرعام پھانسی ہونی چاہیئے ۔ کیونکہ اگر یہ زندہ رہی تو کس قدر خوفناک ڈائن ثابت ہو گی ۔ جو عورت اپنی کوکھ سے جنی اولاد کی نہ ہو سکی وہ اس معاشرے میں کسی بھی عہدے یا رشتے میں کس قدر خطرناک ہو گی ۔ یہ غیروں کیساتھ کیا کیا نہیں کرے گی ۔ اس عورت کو سر عام پھانسی کی سزا ملنی چاہیئے ۔ تاکہ آئندہ کے لیئے ایسے جرائم کا راستہ روکا جا سکے ۔ اس کے شوہر کو برابر کی سزا ہونی چاہیئے تاکہ ہمارے معاشرے کا کوئی بھی باپ اپنی ذمہ داریوں سے منہ نہ موڑ سکے۔
مجرم مجرم ہوتا ہے اس کی نہ تو کوئی ذات ہوتی ہے ، نہ فرقہ ہوتا ہے، نہ اس کا کوئی مذہب ہوتا ہے ، نہ اس کا کوئی رنگ ہوتا ہے، نہ اس کی کوئی نسل ہوتی ہے اور نہ ہی اس کی کوئی جنس ہوتی ہے ۔ وہ صرف مجرم ہوتا ہے ۔ اور اس کی سزا میں صرف اس کے جرم کی نوعیت کو ہی مد نظر رکھا جانا چاہیئے۔ تبھی انصاف کے تقاضے پورے کیئےجا سکتے ہیں۔
چپ مت رہیں اس بات پر آواز اٹھائیں ۔ اس سے پہلے کہ کل کو یہ جرم معاشرے کا چلن بن جائے۔