ماں باپ کی تلاش

Mother

Mother

اس کا نام ہاشم علی ہے، عمر گیارہ ،بارہ سال ہوگی اور تعلق کراچی کے علاقہ لیاری سے ہے۔۔۔ پانچ سال پہلے ہاشم کی آنکھوں کے سامنے اس کی ماں کو چھریاں مارکرزخمی کردیا گیا۔ چھریاں مارنے والا اس کا باپ اور بڑابھائی تھا۔۔۔ ہاشم ماں کو بچانے کے لئے بہت رویا ، باپ اور بھائی کے سامنے ہاتھ جوڑے۔۔چیخا چلایا اورپھران دونوں کو رحم آ گیا۔۔۔انہوں نے ہاشم کی ماں کو نیم مردہ حالت میں چھوڑ دیا،وہ دیر تک خون سے لت پت ماں سے لپٹ کر روتا رہا، ہمسایوں نے اس کی زخمی ماں کو اسپتال پہنچایا۔۔۔ وہ ہر روز ماں کی صحت یابی کی دعا کرتا۔

ادھر اس کی ماں کی درخواست پراس کے بھائی اور باپ کو گرفتار کر لیا گیا ،دونوں نے اپنے جرم کااعتراف کر لیااوراس وقت جیل ہیں۔۔ہاشم کی ماں بھی چند ہفتوں بعد صحت یاب ہو کر اسپتال سے گھر پہنچ گئی مگراس کا رویہ بدلاہواتھا، ہاشم کو ایسے لگتا جیسے اس کی ماں اس سے دورہوتی جارہی ہے۔۔۔اورپھرایک دن اس کا خدشہ درست ثابت ہوا،اس کی ماں اسے رات کو سوتاچھوڑ کر چلی گئی۔۔۔بعد میں پتہ چلااس نے دوسر ی شادی کرلی ہے۔۔۔ہاشم کی تو جیسے دنیا ہی اجڑ گئی۔۔باپ اوربھائی جیل چلے گئے ماں چھوڑ کر چلی گئی۔۔ وہ کئی روز لیاری کی گلیوں میں آوارہ گھومتارہا ۔۔۔رات کسی تھڑے پر سو کر گزار لیتا۔۔پھرایک دن اس کا دل روشنیوں کے اس شہرسے بھر گیا ۔۔۔اس نے کراچی کو خیر باد کہنے کا فیصلہ کیا۔۔ مگرجاتا تو جاتا کہا۔۔جیب میں توایک کھوٹاسکہ بھی نہیں تھا۔۔۔ دودن تک بھوکا پیاسا۔۔ کراچی ریلوے اسٹیشن پر پڑا رہا اورپھرایک دن ہمت کر کے کراچی سے لاہورآنیوالی ٹرین میں بیٹھ گیا۔۔ چندلمحوں بعدہی ہاشم نیند کی آغوش میں چلا گیا۔۔۔ اور جب اس کی آنکھ کھلی تو کراچی بہت پیچھے رہ گیا تھا۔۔۔ بالاآخر ہاشم لاہور گیا۔

ریلوے اسٹیشن سے داتا دربار پہنچا، یہاں جی بھر کر کھانا کھایااورپھردربارکے صحن میں ہی سو گیا۔۔۔اس کی آنکھ اس وقت کھلی جب ایک کرخت آواز کے ساتھ اسے بری طرح جھنجوڑا گیا۔۔۔ہاشم اٹھ کربیٹھ گیا، کالی وری میں ملبوس ایک سکیورٹی گارڈاسے جھنجوڑ کر پوچھ رہا تھا ،لڑکے کون ہوتم ۔۔۔یہاں کیوں سو رہے تمہیں نہیں معلوم یہاں سونا منع ہے۔۔ہاشم کھڑا ہو گیا اسے سمجھ نہیں آرہی تھی کہ وہ اب کہاں جائے۔۔۔ اس دوران قریب سے گزرنے والے ایک بزرگ نے شفقت بھرے انداز میں اس کے سرپرہاتھ رکھا اور پوچھا اور بیٹا کون ہو تم ،کہاں سے آئے ہو۔۔۔ہاشم نے روتے ہوئے مختصر لفظوں میں اپنی داستان زیست اس بزرگ کو سنائی۔۔ بزرگ نے ہاشم کو حوصلہ دیا ،چند روپے بھی دیئے اور پھر سے چائلڈ پروٹیکشن بیورو لاہور پہنچا دیا گیا۔

Child Protection

Child Protection

ہاشم سے میری ملاقات چائلڈ پروٹیکشن بیورو میں ہوئی تھی ،جہاں اس نے روتے ہوئے اپنی داستان سنائی ۔۔۔ ہاشم اورسندھ کے مختلف اضلاع سے تعلق رکھنے والے دیگر 16 بچوں کو چائلڈ پروٹیکشن این ڈویلفیئر بیورو نے سندھ بھیجنے کا فیصلہ کیا ہے، تاکہ ان بچوں کے والدین کو تلاش کرکے انہیں ان تک پہنچایا جا سکے۔۔۔میں نے ہاشم سے پوچھا کہ وہ کراچی میں کس کے پاس جائے گا تو بولا وہ اں اس کے چاچو لوگ رہتے ہیں وہ ان کے پاس رہیگا۔۔۔اس نے بتایا اس کی ماں بہت بری ہے جو اسے روتا چھوڑ گئی۔۔اسے اب بھی ماں کی یادآتی ہے مگروہ کبھی بھی اس کے پاس نہیں جائیگا۔۔۔ باپ اوربھائی سے ڈر لگتا ہے کہیں وہ اسے مارنہ دیں۔۔۔ چائلڈ پروٹیکشن بیورو میں مقیم بچوں میں ہرایک کی اپنی کہانی ہے جسے سن کر رونا آ جاتا ہے۔۔یہاں کئی بچے ایسے ہیں جو گھروں سے بھاگ کریہاں پہنچے توبعض ایسے بھی ہیں جن کے ماں باپ غربت کے ہاتھوں مجبور ہو کر خود انہیں یہاں چھوڑ گئے۔

تین چارسال کا ایک بچہ ایسا بھی ہے جسے اس کا باپ خودیہاں چھوڑگیا کیونکہ اس نے تیسری شادی کرنی تھی اورماں اس بدنصیب کو اس لئے بھول گئی کہ اس نے بھی دوسری شادی کر لی ہے، کئی بچے ایسے بھی ہیں جن کا ماں باپ کا کچھ پتہ نہیں ہے ،انہیں چند دن یا پھرچندماہ کی عمر میں یہاں لایا گیا ،ان بچوں کو نام بھی اسی چائلڈ پروٹیکشن بیوروسے ملے ہیں چائلڈ پروٹیکشن اینڈ ویلفیئر بیورو کی چیئرپرسن صبا صادق ان بچوں کے حوالے سے کافی پریشان اور سیریس ہیں، وہ ان بچوں کو ان کے ماں باپ کے پاس بھیجنا چاہتی ہیں۔

اس ادارے میں بے شک بچوں کو تعلیم ،صحت اور کھانے پینے کی تمام سہولتیں میسرہیں مگریہ سب ماں کی گود کا متبادل تو نہیں ہو سکتا ہے ناں ۔۔۔ وہ ان بچوں سے پیارکرتی ،ان کے ساتھ کھیلتی انہیں کھولنے اور ٹافیاں لا کر دیتی ہیں لیکن وہ یہ بھی چاہتی ہیں کہ یہ اپنے ماں باپ کے پاس لوٹ جائیں۔۔اس مقصد کے لئے سندھ سے تعلق رکھنے والے 16 بچوں کو چائلڈ ویلفیئریونٹ سندھ کے حوالے کیا جارہا ہے۔یہ ادارہ ان بچوں کے والدین اور رشتہ داروں کو تلاش کریگااور پھر انہیں انکے گھروں تک پہنچا دیا جائیگا اور اگر بدقسمتی سے کسی بچے کے والدین نہ مل سکے یا انہوں نے غربت اور مجبوری کی وجہ سیاپنے لخت جگرکو لینے سے انکار کر دیا تو پھر چائلڈ پروٹیکشن بیوروہی ہمیشہ کے لئے ان بچوں کا مسکن بنا رہے گا۔

Asif Faraz

Asif Faraz

تحریر: آصف فراز