ماں ایک عظیم ہستی

Mother

Mother

کہتے ہیں کہ اﷲ نے دنیا میں سب سے اچھی مخلوق انسان کو بنایا انسان دنیا میں اﷲ کا نائب ہے تمام مخلوقات میں اسے اشرف المخلوقات کا لقب دیا گیا ہے، انسانوں کو گروہوں اور فرقوں میں بنایا تاکہ وہ ایک دوسرے کو پہچان سکیں، پھر انسانوں میں جو رشتے قائم ہوئے ان میں بھائی، بہن، ماں، باپ، چچا، چچی، ماموں، ممانی، خالہ، خالو، طایہ طائی، دادا، دادی، نانا، نانی وغیرہ بنائے،ان سب میں ایک رشتہ ایسا بھی بنایا جواس نے محبت، پیار اور شفقت کی مٹھاس کے ساتھ بنایا، یہ وہ رشتہ ہے کہ جسے اللہ نے ماں کا نام دیا، کہا جاتا ہے کہ اﷲ نے ماں کو ممتا کا روپ دیا، وہ خود تکلیف برداشت کر کے اپنی اولاد کو خوش رکھنے کی کوشش کرتی ہے، ایک ماں جو نو ماہ تک اپنی اولاد کو اپنے پیٹ میں رکھتی ہے ،اس دوران وہ بے پناہ تکلیف سہتی ہے لیکن جب وہی بچہ دنیا میں آتا ہے تو اس کی ایک جھلک ہی ایک ماں کی تمام تکلیفوں کو مٹا دیتی ہے۔

ماں خود تو تکلیف سہہ سکتی ہے مگر اسے یہ ہرگز گوارہ نہیں کہ اسکے بچے کو ایک کانٹا بھی چبھے۔ایک مسلمان ہونے کی حیثیت سے ماں سے محبت کرنے،اسکاہر حکم ماننا ہر مسلمان بچے پر لازم ہے، قرآن مجید میں بھی بیشمار دفعہ ماں کی حرمت پر تلقین کی گئی ہے،ماں کے پاؤں تلے جنت رکھ دی گئی ہے۔اﷲ نے شرک کے بعد سب سے کبیرہ گناہ ماں کی نافرمانی کو قرار دیا ہے،ماں کے متعلق تو یہاں تک کہا گیا ہے کہ اگر ایک مسلمان بچے کی ماں کافر ہو تو اس سے بھی حسن سلوک سے پیش آیا جائے کہیں اس میں بھی دل آزاری نہ ہو جائے۔

دین اسلام ہمیں حضرت مریم ،حضرت خدیجہ ،حضرت عائشہ صدیقہ جیسی مائوں کے نمونے دیتا ہے جہاں ایک طرف مائوں کو اپنی اولاد کی بہترین تربیت کرنے کا حکم دیا گیا ہے وہیں اولاد کو بھی ماں باپ کا سہارہ بننے کا درس دیا گیا ہے۔تاریخ کی کتب میں ایسے بے پناہ واقعات موجود ہیں جن میں اولاد کے دل میں ماں کی اس درجہ عزت دیکھی جا سکتی ہے کہ دل رشک کرتا ہے۔

اﷲ نے ماں کو اتنی عزت بخشی ہے کہ کائنات کا سب سے خوبصورت رشتہ ماں کا ہے، حضرت موسیٰ کی والدہ نے فرعون کے خوف سے اﷲ کے بھروسے اپنے لخت جگر حضرت موسیٰ کو دریانیل میں ایک صندوق میں بند کرکے ڈال دیا کیونکہ فرعون نے یہ منادی کروائی ہوئی تھی کہ بنو اسرائیل میں پیدا ہونے والے ہر لڑکے کو قتل کردیا جائے تاکہ وہ فرعون کے لئے کوئی خطرہ نہ بن پائے،اﷲ کے سہارے پر موسیٰ کو دریا نیل کی تند و تیز لہروں میں ڈال کر کیا وہ ماں خوش ہوئی ہوگی ہر گز نہیں مگر صرف اپنے بیٹے کی زندگی بچ جائے اس سوچ کے ساتھ کمسن موسیٰ کو دریا کی موجوں میں چھوڑآئیں ،مگر قدرت کو تو کچھ اور ہی منظور تھا،وہ صندوق کہ جسمیں موسیٰ تھے وہ دریا سے ہوتا ہوا فرعون کے محل تک پہنچ گیا اور فرعون کی بیوی آسیہ کو مل گیا ۔آسیہ کی اپنی کوئی اولاد نہ تھی ، تو انھوں نے حضرت موسیٰ کی تربیت کی ، انکی پرورش ایک بہترین انداز میں کی۔

Mother

Mother

جیسے جیسے وقت گزرتا گیا ماں کی قدر کم ہوتی گئی، وہ بچا جو کبھی ماں کی انگلی تھامے پہلا قدم لیتا تھا آج وہی بچا بڑا ہوگیا ہے، ماں کا پیار آج بھی وہی ہے مگر اب اولا د کے لئے وہی پیار گھٹن بنتا جارہا ہے، بچپن میں ماں کے ہاتھ سے روٹی کھانے والا بچہ آج اسی ماں کے آگے انگلیوں کے اشاروں سے بدتمیزیاں کررہا ہے،کل کو جو بچہ اپنی ماں کی آغوش میں سکون محسوس کرتا تھا آگ وہی بچہ آج اپنی ماں کودکھوں کے پہاڑ دے رہاہے،کل جب وہ بچہ چھوٹا تھا تو اپنے بالوں کی مالش کراتا کبھی بالوں کو تیل لگواتا اور وہی بچہ آج اگر ماں اسکے سر پہ شفقت بھرا ہاتھ رکھ دے تو کہتا ہے کہ آپ نے میرا ہیراسٹائل خراب کر دیا ہے اتنی دیر محنت کر کے بال سیٹ کیے تھے۔

کیا یہ سب اس لئے ہوا ہے کہ ماں کا پیار بدل گیا ؟ ہرگز نہیں ماں تو آج بھی وہی ہے جو حضرت موسیٰ کی ماں تھیں یا حضرت آسیہ تھیں ، غلط تو ہم اولاد ہیں ، ہم نے اپنے ماں باپ بلخصوص ماں کے پیار پر ہی شک کرنا شروع کردیا ہے۔آج کے بچے یہ بھول گئے ہیں کہ کتنی تکلیف برداشت کی تھی اس ماں نے جب اسکے دنیا میں آنے کا وقت ہوا تھا، آج کا بچہ یہ بھول گیا ہے کہ کیسے اس ماں نے اپنی تمام خواہشات کو ، اپنی خوشیوں کو دفن کردیا صرف اس لیے کہ میرے بچے کی زندگی سنور جائے،اس ماں نے کبھی دنیا سے لڑائی کی تو کبھی خود اپنے شوہر کے آگے کھڑے ہوئی کہ مجھے اپنے بچے کا مستقبل بہترین بنانا ہے ، میرا بچہ کبھی بھی اداس نہ ہو، میرے بچے کی ہر ہر خواہش پوری ہونی چائیے،مگر دوسری طرف آج کا بچہ ایک ناجائز ضد کی خاطر اپنی ماں کو یہ کہتا ہوا بھی زرہ برابر نہیں جھجھکتا کہ اے ماں ! تو نے میرے لیئے کیا ہی کیا ہے؟آج کے بچے شاید یہ بات بھول گئے ہیں کہ آج وہ بچے ہیں مگر کل کو وہ بھی ماں اور باپ بنیں گے اور جو آج وہ اپنے ماں باپ کے ساتھ کر رہے ہیں کل کو انکی اولاد بھی انکے ساتھ وہی سب کچھ کر سکتی ہے۔

کیا ایک ماں اسی دن کے لیے اولاد مانگتی ہے؟ کیا وہ ماں نو ماہ تک اپنے پیٹ میں اسی لیے بچے کو رکھتی ہے کہ ایک دن آئے اور وہی بچہ ماں کو ہی دھتکار دے …ماں نے جو قربانیاں اپنی اولاد کے لئے دی ہوتی ہیں اس کے بدلے اگر ماں اس بچے کے خون کا ایک ایک قطرہ بھی نچوڑ دے تو بھی وہ بدلہ پورا نہ پائے گا۔ایک عورت کے لئے وہ پل سب سے حسین ہوتا ہے جب وہ اپنے بچے کو پہلی بار دیکھتی ہے لیکن سب سے زیادہ دردناک لمحہ وہ ہوتا ہے کہ جب وہی اولا د ماں کے آنسوئوں کا باعث بنتی ہے،کہا جاتا ہے کہ آسمان پر فرشتے بھی اس اولاد پر لعنت بھیجتے ہیں جو اپنی ماں کو اذیت میں رکھتی ہے۔ماں کی عزت کرنے میں ہی دنیا اور آخرت کی کامیابی چھپی ہے،اﷲ کی قسم ماں ہے تو بچی سلامت ہے ورنہ اس بچے کا کچھ بھلا نہیں ہو سکتا جسکی ماں اس سے راضی نہ ہو۔

Allah

Allah

آخر میں میں تمام بچوں ، بڑوں سے کہ جنکی مائیں ابھی زندہ ہیں، ہاتھ جوڑ کر درخواست کرنا چاہوں گا کہ اﷲ کے لیے اپنی ماں کی عزت کریں، انھیں خوش رکھیں، کوئی تکلیف نہ ہونے دیں۔ ُاف تک نہ کریں، کبھی اپنی ماں کے آگے اونچی آواز میں بات نہ کریں کبھی کوئی ایسی بات ہرگز نہ کریں جس سے ماں کا دل دکھے، اﷲ کو راضی کرنے کا آسان حل یہی ہے کہ اس کی سب سے بہترین مخلوق ماں کو راضی کرلیا جائے اسی میں ہماری بقاء ہے ورنہ اﷲ کے سامنے قیامت کے دن جب سوال ہوگا کہ کیا تم نے ماں کی خدمت کی ، تو ہم کیا جواب دیں گے… ذرا سوچئے اﷲ سے دعا ہے کہ وہ ہمارے ماں باپ کا سایہ ہم پر سلامتی کے ساتھ بنائے رکھے اور ہمیں ہمیشہ انکی خدمت گار اولاد کی طرح رہنے کی توفیق عطا فرمائے آمین۔

تحریر : گل عرش شاہد
gularsh1986@hotmail.com