ہماری ماں حضرت عائشہ بنتِ ابوبکر صدیق حصہ دوئم

Hazrat Ayesha

Hazrat Ayesha

تحریر: پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی
کفارِ مکہ کے ظلم و ستم سے تنگ آکر مسلمان مکہ سے ہجرت کر کے مدینہ منورہ آچکے تھے۔ مدینہ شریف کی آب و ہوا اور موسم مکہ سے مختلف تھا بیشتر مہاجرین کو آب وہوا موافق نہ آئی جس کی وجہ سے وہ موسمی بخا ر میں مبتلا ہو گئے حضرت ابو بکر صدیق بھی بیماری کی وجہ سے صاحب فراش ہو گئے اس دوران گھر کے کام کاج کا بوجھ حضرت عائشہ پر آگیا دن رات کام کر نے کی وجہ سے سیدہ حضرت عائشہ بھی بیمار ہو گئیں جب مرض نے طول کھینچا تو آپ بہت کمزور ہو گئیں آخر شافع دو جہاں ۖ کی دعا سے مرض دور ہوا اور آپ صحت یاب ہو گئیں تو ایک دن یار ِغار حضرت ابو بکر صدیق بارگاہ رسالت ۖ میں حاضر ہو ئے اور عرض کی یا رسول اللہ ۖ آپ ۖ اپنی اہلیہ کی رخصتی کیوں نہیں کرا لیتے تو سرور کائنات ۖ نے فرمایا میرے پاس مہر ادا کرنے کے لیے رقم نہیں ہے قربان جائیں سرور دو عالم ۖ پر کہ جو پیسے بھی پاس ہو تے حاجت مندوں میں

تقسیم کر دیتے اور گھر میں دولت نام کی کوئی چیز بھی نہ ہو تی۔ یارِغار سے یہ برداشت نہ ہوا پانچ سودرہم اپنے آقا و مولا ۖ کو قرض دے دئیے سرور دو عالم ۖ نے یہ پو ری رقم جو حق مہر تھی حضرت ابو بکر صدیق کے گھر پہنچا دی ۔ مہر کی ادائیگی کے بعد صحابیات کی جماعت دلہن کے گھر پہنچی سیدہ عائشہ صدیقہ کو دلہن بنا یا گیا پھر اس کمرے میں لایا گیا جہاں انصاری عورتیں منتظر تھیں انہوں نے بہت پیار اور شفقت سے دلہن کا استقبا ل کیا تھوڑی دیر بعد سرور کائنات ۖ بھی تشریف لے آئے ۔ اِس شادی میں حضرت عائشہ کی سہیلی حضرت اسماء بنتِ یزید بھی شامل تھی۔

فرماتی ہیں اس وقت محبوب خدا کی ضیافت کے لیے دودھ پیش کیا گیا ساقی کوثر نے تھوڑا سا دودھ پیا اور پھر پیالہ حضرت عائشہ کی طرف بڑھا دیا وہ شرمانے لگیں میں نے کہا رسول اللہ ۖ کا عطیہ واپس نہ کرو پھر انہوں نے شرماتے شرماتے پیالہ لے لیا اور تھوڑا سا پی لیا رسول اللہ ۖ نے فرمایا اپنی سہیلیوں کو دو انہوں نے کہا یا رسول اللہ ۖ ہم کو اشتہا نہیں فرمایا جھوٹ نہ بولو آدمی کا جھوٹ لکھا جاتا ہے اور پھر حضرت عائشہ کی رخصتی ہو گئی یہ شوال کا مہینہ اور سن ہجری کا پہلا سال تھا ۔ حضرت عائشہ جب ماں باپ کے گھر سے حرم نبوی ۖ میں رونق افروز ہو ئیں تو رہائش کے لیے جو حجرہ آپ کو ملا وہ مسجد نبوی ۖ سے متصل تھا ۔ جس حجرہ میںآپ قیام پزیر تھیں اس کی لمبائی چوڑائی بہت کم تھی صرف ایک کمرہ کی صورت میں تھا دیواریں خام اینٹوں اور کھجورکی شاخوں پر مشتمل تھیں جن پر گارا لگا دیا گیا تھا چھت بھی کھجور کی شاخوں اور پتوں پر مشتمل تھی بارش سے بچنے کے لیے کمبل ڈال دیا گیا تھا اور دروازے کو پردے کے لیے کمبل سے ڈھانپ دیا گیا تھا۔

گھر کا کل اثاثہ ایک چارپائی ایک چٹائی ایک بستر ایک تکیہ جس میں چھال بھری ہوئی تھی ۔ آٹا اور کھجور رکھنے کے لیے ایک دو برتن پانی کا ایک برتن اور پینے کے لیے ایک پیالہ کئی کئی راتیں گھر میں چراغ نہیں جلتا تھا یہ شہنشاہِ دو عالم ۖ کا حجرہ تھا وہ سرور کائنات ۖ جو فرش پر بیٹھ کر عرش کے مالک تھے حضرت عائشہ جب شادی کے بعد کا شانہ نبوی ۖ میں تشریف لائیں تو انہوں نے گھر کا جائزہ لیا اوردیکھا کہ گھر میں دو نو جوان لڑکیا ں موجود ہیں جن کی اب شادی کی عمر ہو چکی ہے۔ ایک دن شہنشاہِ دو عالم ۖ تشریف فرما تھے کہ سیدہ عائشہ نے بچیوں کی شادی کا ذکر چھیڑ دیا اور درخواست کی کہ یا رسول اللہ ۖ اب بچیوں کی شادی کر دینی چاہیے۔

Muhammad S.A.W

Muhammad S.A.W

ایک تجویز ہے رحمتِ دو عالم ۖ نے پوچھا کیا ؟ تو سیدہ عائشہ نے عرض کی کیوں نا سیدہ فاطمہ کی شادی حضرت علی سے کر دی جا ئے رحمتِ دو عالم ۖ نے سنا تو بہت خوش ہو ئے اور پھر دو ہجری کے وسط میں حضرت فاطمہ کی شادی فاتح خیبر شیرِ خدا حضرت علی سے کر دی۔ اور پھر حضرت عائشہ صدیقہ نے ایک ماں کی طرح شادی کے تمام انتظام خود کئے جس مکان میں سیدہ فاطمہ نے جانا تھا اُس کی خود اچھے طریقے سے صفائی کی بستر اور تکیے لگائے دعوت میں خود چھوارے پیش کئے کپڑے لٹکانے کے لیے الگنی بنائی آپ اکثر فرمایا کرتی تھیں کہ میں نے حضرت فاطمہ سے اچھا بیاہ نہیں دیکھا ۔ جس مکان میں سیدہ فاطمہ بیاہ کر گئیں یہ مکان سیدہ عائشہ کے گھر کے پچھلی جانب دیوار سے ملحق تھا آنے جانے کے لیے گلی کا چکر کاٹ کر آنا پڑتاتھا۔

چنانچہ سہولت کے لیے درمیانی دیوار میں ایک کھڑکی نکال لی اب جب ماں بیٹی چاہتی آپس میں بات چیت کر لیتی ۔ سیدہ فاطمہ سے حضرت عائشہ کی محبت اور خوشگوار تعلقات کے بارے میں حضرت عائشہ کی بے شمار ایسی احادیث موجود ہیں جن میں حضرت عائشہ کی بے شمار ایسی احا دیث موجود ہیں جن میں حضرت فاطمہ کی منقبت ہے اِس سے بخوبی احساس ہو تا ہے کہ ان دونوں مقدس ہستیوں کے درمیان کس قدر زیادہ پیار تھا رسول کریم ۖ کی چوتھی بیٹی ام کلثوم تھیں جن کی عمر اُس وقت بیس سال تھی ۔ اُن کی بڑی بہن سیدہ رقیہ جو حضرت عثمان غنی کے نکاح میں تھیں دو ہجری میں وصال پا چکی تھیں ایک دن حضرت عائشہ نے محبوب خدا سے عرض کی حضرت عثمان غنی کے بارے میں کیا خیال ہے کیوں نا ام کلثوم کی شادی حضرت عثمان سے کر دی جائے ۔ آقائے دو جہاں ۖ نے تجویز کو پسند فرمایا اور پھر تین ہجری میں حضرت ام کلثوم کی شادی حضرت عثمان سے کر دی گئی۔

اِسی وجہ سے حضرت عثمان غنی ذوالنورین کے عظیم رشتے سے پہچانے گئے ۔ حضرت عائشہ یارِ غار حضرت ابو بکر کی بیٹی تھیں باپ کی طرح محبوب خدا ۖ کی عاشق اور ہر ادا پر مر مٹنے کو تیا ر رہتی تھیں بے پناہ عشق کر تی تھیں ایک دن حضرت عائشہ چرخہ کات رہی تھیں کہ سرور دو عالم ۖ سامنے تشریف فرما اپنی نعلین مقدس کو پیوند لگا رہے تھے کہ مجسمِ رحمت ۖ کی پیشانی مبارک پر مشکیں پسینہ کے روشن قطرات نمو دار ہو ئے رو شن پیشا نی اور نوری قطرات سے نور کی شعائیں پھوٹ رہی تھیں سیدہ عائشہ نے جب یہ دلکش اور دلربا خوبصورت منظر دیکھ تو اپنا کام بھو ل گئیں اِس خوبصورت منظر نے آپ کو اپنے سحر میں جکڑ لیا اور آپ اِس میں کھو گئیں۔

آقا ۖ متوجہ ہوئے اور فرمایا عا ئشہ تمھیں کیا ہوا توہماری ماں نے عرض کی یا رسول اللہ ۖ آپ ۖ کی جبیں مقدس پر پسینے کے قطرے نو ر کے ستارے معلوم ہو تے ہیں اگر اِس کا نظارہ ابو کبیر الہندلی کر لیتا تو بے ساختہ پکار اُٹھتا کہ میرے شعر کا مصداق حقیقیت میں آپ ۖ ہیں ۔ترجمہ : جب میں نے اس روئے روشن کو دیکھا تو اُس کے رخساروں کی روشنی اور صفائی میں و ہ شکن بصورت چودھویں کے چاند نظر آئے۔رحمتِ مجسم ۖ نے سماعت فرمایا تو آپ ۖ کے لعلین نورانی ہونٹوں پر ہزاروں روشن چاند ستاروں کی لہر سی دوڑ گئی۔

Prof Abdullah Bhatti

Prof Abdullah Bhatti

تحریر: پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی
help@noorekhuda.org
03004352956