ماں کی تقدیس

Mother

Mother

تحریر : پروفیسر محمد حسین چوہان
ماں کی تقدیس و عظمت کو بیان کرنے میں نطق وبیاں اس لئے عاجز ہیں کہ اس کے جذبہء محبت کو انسانی عقل و فکر اس شدت کے ساتھ بیان نہیں کر سکی جس کی وہ حقدار تھی کیونکہ محبت کے جذبے کی شدت و مٹھاس مامتا کے دل میں موجود ہوتی ہے اور بچے کی پرورش وحفاظت کی جبلت و عشق موجزن ہوتا ہے وہ ایسی انمول فطری و قدرتی چیز ہوتی ہے جس کی مثال انسانی عقل و فکر پیش نہیں کر سکتی۔ماں کی محبت کا نشہ بچے کی عقل کو مائوف کر دیتا ہے وہ بھلا کیسے اس کی شدت کا احساس کر سکتا ہے۔ وہ بغیر صلے کے محبت کرتی ہے۔اس کی محبت غیر مشروط ہوتی ہے،صرف انسانوں کی مائیں ایسی نہیں ہوتی بلکہ تمام جانداروں کی مائیں بچوں سے ایک ہی انداز میں پیار کرتی ہیں اور بچوں کی پرورش کے انداز بھی ایک جیسے ہیں،پھر ان کی بچے کے لئے محبت حالات کے تابع نہیں ہوتی بلکہ حالات اس محبت کے تابع ہوتے ہیں۔ماں کی محبت میں ہمیشہ اثبات قائم رہتا ہے،بچے بوڑھے بھی ہو جائیں ان کی نظروں میں بچے ہی رہتے ہیں۔مائیں سب کچھ برداشت کر لیتی ہیں مگر آپنے بچوں کی تکلیف برداشت نہیں کر سکتی۔باپ بچوں کو چھوڑ سکتا ہے مگر ماں بچوں سے الگ ہونا پسند نہیں کرتی۔انسانوں کی مثال سماجی جبر کے تحت تو مل سکتی ہے مگر دیگر جانداروں کے بچوں کی پرورش مائیں ہی کرتی ہیں۔تخلیق و پرورش کا اتنا حسین امتزاج کہیں نہیں ملتا۔کسی ماں نے آج تک آپنے بچوں کو تخلیق و پرورش کی صعوبتوں کا احسان نہیں جتایا، کیونکہ مائیں سراپا محبت و شفقت ہوتی ہیں۔اسی لئے مائوں کے قدموں کے نیچے جنت ہوتی ہے۔ماں کے بغیر گھر سنگ وخشت کی عمارت ہوتی ہے اس کو گھر ماں کی موجودگی بناتی ہے،مائوں کے بغیر گھروں میں رونق پیدا ہو ہی نہیں سکتی۔بہنوں ،بیٹیوں کا مقام و تقدس آپنی جگہ لیکن ان کا سب سے بڑا مقام ایک ماں کے روپ میں ہی ہوتا ہے اس لئے ہر عورت کو ایک ماں کا خطاب حاصل ہوتا ہے۔جو معاشرے عورت کے احترام و تقدیس کا خیال رکھتے ہیں وہاں ترقی خو شحالی اور امن قائم ہوتا ہے۔کیونکہ ماں صرف بچے کو جنم نہیں دیتی وہ کلچر بھی تخلیق کرتی ہے۔

فطرت و کلچر کے درمیاں ہمیشہ ماں کھڑی ہوتی ہے۔یہ عظمیٰ کو جنم دیتی ہے مگر عظمٰی اس کے پائوں کی دھول کے برابر بھی نہیں ہوتے۔حوران خلد کے چرچے درست سہی مگر ان کے حقدار زمینی مائوں کے بطن سے ہی پیدا ہوتے ہیں۔ بچوں کی پرورش میں عقل سے زیادہ جبلت و جذبے سے کام لیتی ہے کیونکہ جبلت و وجدان میں عشق کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر موجزن ہوتا ہے۔تخلیق میں عشق وجذبے کا اہم کردار ہوتا ہے۔نامیاتی مادے کے ظہور کے وقت نر کا کوئی وجود نہیں تھا۔مادہ کے وجود سے زندگی کا آغاز ہوا۔سلسلہء کائنات میں ماں ہی کو اولیت حاصل ہے۔رسمی و اخلاقی تعلیم کی اولین درسگاہ ماں کی گود ہی ہے۔بچے کی شخصیت کی نشو ونما کا انحصار ماں کی تربیت پر ہے جو سماج مائوں کی زیادہ دیکھ بھال کرتے ہیں وہاں قابل اور صحت مند نسلیں پروان چڑھتی ہیں۔مائوں کی خدمت و اطاعت انسان کو فطرت وخدا کے قریب کر دیتی ہے اور انسانیت کے لئے نرم گشہ دل میں پیدا کر دیتی ہے۔ کیونکہ ماں کی محبت وشفقت اور جذبہء قہربانی کا کوئی نعم البدل نہیں۔مثل مشہور ہے کہ خدا ہر جگہ موجود نہیں تھا اس لئے اس نے ماں کو پیدا کیا۔
ہماری والدہ محترمہ اطلاع دیے بغیر ہی اس دنیائے فانی سے رخصت ہو گئی۔نہ کوئی موت کے آثار تھے اور نہ تیاری تھی اور نہ ہی عمر کا اتنا تقاضا تھا،اسی سال کی عمر میں بھی معمولات زندگی عبادت و ریاضت،گفت و شنید اور تعمیر و ترقی کے معاملات میں دلچسپی لیتی رہتی تھیں،لیکن زیادہ وقت عبادت و ریاضت میں گذرتا تھا۔

انہوں نے قبل از وقت مرنے کی تیاری کا سارا بندوبست کر رکھا تھا،مگر ہمارے نزدیک یہ وقت بہت دور دکھائی دیتا تھا۔صبح نماز تہجد کے لئے کیا بیدار ہوئیں ،وضو کیا اور تہجد کی تیا ری کی اور مصلے پر ملک ا لموت نے کھڑے ہونے کا موقع ہی نہیں دیا۔ایک سیکنڈ کے لئے کسی کی محتاج نہیں ہوئیں اور نہ کسی کا احسان لینا گوارہ کیا۔آج تک زہن ان کی موت کی تصدیق کرنے کو تیار نہیں۔ لیکن معلوم ہونا چائیے کہ موت کا کوئی کلینڈر نہیں ہوتا۔لیکن ماں کے ساتھ اولاد کا جو روحانی و فطری رشتہ ہو تا ہے کے ٹوٹ جانے سے زندگی کی تاروں میں کرنٹ غائب ہوجاتا ہے۔دنیاوی سرگرمیاں ماند پڑ جاتی ہیں، دنیاوی کاموں کی ترقی میں ماں کی خوشنودی اور دلچسپی بچوں کے حوصلوں کو جوان رکھتی ہے۔ماں کبھی بد دعا نہیں دیتی باپ کی بد دعا لگ جاتی ہے کیونکہ ماں سراپا محبت وشفقت ہوتی ہے۔ماں کی دعاوں کے حصار میں بچے پروان چڑھتے ہیں۔ماں جی کوئی پڑھی لکھی نہیں تھیں مگر ماوں کے لئے تعلیم ایک اضافی چیز ہوتی ہے،فطرت نے ان کے اندر بچے کی پرورش کا جو ملکہ ودیعت کیا ہوتا ہے وہ ڈگری حاصل کرنے سے نہیں ملتا۔ماں جی بوڑھی ہو چکی تھیں مگر ان کا حکم اور گھریلو معاملات چلانے میں رائے حرف آخر کا درجہ رکھتے تھے،مجال کوئی حکم عدولی کی جرات کرے۔اڑوس پڑوس میں کسی کی شکائیت سنتی تو پہلے تو گھر پر اس کا داخلہ بند کر دیتی یا اس کو ڈانٹ پلاتی تھیں، وقت سارا عبادت و ریاضت میں گزرتا تھا اور قران خوانی معمول تھا۔

مسجد میں جانا بند ہوا تو برآمدے میں لکڑی کی جائے نماز بچھا لی اور وہاں سے ہی گھریلو معاملات کی نگہرانی شروع کر دی۔گھر کی کھونٹی پر کم از کم ایک بکری ہمیشہ بندھی رہی،گوشت پولٹری فارم کا استعمال ہوتا تھا ،لیکن دیسی مرغیوں سے کبھی گھر خالی نہیں رہا۔ماں جی کی دلچسپی کا ایک اور پہلو گھریلو سبزیاں اگانا تھا،اس عمر میں بھی لڑکھڑاتے ہوئے بھی انہوں گھر کے قریب سبزیاں اور بیلیں اگا رکھی تھیں۔ولائیت میں جانے کے بعد ہمارے خاندان نے کھتی باڑی کو خیر آباد کر دیا تھا۔لیکن اسی اہتمام کے تحت وقت پر کھتی باڑی کے شغل کو جاری و ساری رکھا۔نیاز وختم دینے کا بڑا شوق تھا۔ہر جمعرات کو خود دعا کرتی تھیں۔مہینوں کی مناسبت سے ختم شریف ضرور پڑھوایا کرتی تھیں،اور اس کے لئے ایک الگ فنڈ ہم سے منگوایا کرتی تھیں۔مہمان اور فقیر کا سخت خیال رکھتی تھیں کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ ان کی خدمت میں کوتاہی ہو جائے۔والد مرحوم ومغفور کی سالانہ برسی پر لازمی ہم بھائیوں میں سے کسی کو ولائیت سے بلایا کرتی تھیں اور جتنا زیادہ اہتمام ہوتا اتنا ہی زیادہ خوش ہوتی تھیں۔کسی غریب کی مدد کرتے دیکھتی تو بہت خوش ہوتی۔اخراجات کے لئے ہیسے ہم سے منگواتی،مگر کبھی آپنی جیب خالی نہیں رہنے دی کچھ رقم ہمیشہ پس انداز کر لیتی تھیں تاکہ مشکل وقت میں کام آئے۔ایسا کبھی نہیں ہوا کہ انہوں نے ہمارے لئے خصوصی دعا کی ہو اور وہ خطا ہو گئی ہو۔ولائیت سے کبھی ضد کر کے ہم کو بلا لیا،ہم بہت سا نقصان کرکے مایوس مایوس آگئے،لیکن فائدے کا انڈکس دوسری طرف آپنی حدوں کو پھلانگ گیا،کیونکہ ماوئں کا اولاد سے تعلق ظن وتخمین سے ماورا ہوتا ہے اور تعلق میں عنایات و ثمرات بھی دنیاوی پیمانوں کے پابند نہیں ہوتے۔جب بھی ہم ولائیت سے ان سے ملنے کے لئے آتے تو ہمارے سفر کی رفتار روشنی کی رفتار کے مماثل ہوتی،مگر اب وہ سفر پیدل سفر سے بھی زیادہ کٹھن ہو گیا ہے۔ماں کی اولاد کے بارے میں ججمنٹ سائنسی آلات سے زیادہ مستند ہوتی ہے،وہ کام کے لئے اسی بچے کا انتخاب کرتی ہیں جو زیادہ موزوں ہو۔بچوں کواس معاملے میں آپس میں مائوں سے تکرار نہیں کرنی چائیے،ہم سے دوسروں بھائیوں کی نسبت زیادہ مطالبات کرتی تھیں اور ضد پر بھی اتر آتی تھیں اور یہ باتیں مجھے نا معقول لگتی تھیں،مگر ان کی ججمنٹ صحیح ہوتی تھی،ماں کی سادہ لوحی میں بھی محبت کا سمندر ٹھاٹھیں مار رہا ہوتا ہے۔

ایک بار ا سلام آباد میں میرا معمول سے زیادہ قیام ہو گیا۔گرمیوں کا موسم بھی تھا،تو ماں جی نے گاوں کی لسی میرے لئے بھجوا دی حالانکہ وہاں مشروبات کی کیا کمی تھی۔دوسری با رایسے ہی موسم میں اسلام آباد میں کام و کاج کے سلسلہ میں زیادہ دن لگ گئے۔فون کرتی رہیں میں نہ آ سکا،پھر بتائے بغیر بڑھاپے اور شدید گرمی کی پرواہ کئے بغیر آپنے داماد کو ساتھ لے کر وہاں آگئیں جو سفر میں گرمی کی وجہ سے نہ کر سکتا تھا انہوں نے کر لیا۔ساتھ ڈاکٹر و حکیم سے ضرور چیک کرواتی رہتی تھیں،حکیموں کے نسخوں کو ولائیتی دوائیوں سے زیادہ پسند کرتی تھیں۔ان میں فطرت اور ذائقے کا انہیں زیادہ احساس ہوتا تھا۔کیونکہ عورتیں مردوں کی بہ نسبت فطرت کے زیادہ قریب ہوتی ہیں۔ماں جی اچانک ہم سے احسان لئے بغیر رخصت ہو گئی۔مگر ان کی موجودگی کا احساس ہر کہیں ہو رہا ہے۔صحن میں بے فکر چلتے چلتے رک جاتے ہیں کہ بر آمدے میں ماں جی کی جائے نماز پڑی ہے وہاں وہ بیٹھی ہوئی ہیں ۔بے فکری و بے ادبی کے ساتھ وہاں سے گذرنا مناسب نہیں۔آسمان تیری لحد پر شبنم افشانی کرے۔سبزہ نو رستہ اس گھر کی نگہبانی کرے۔

تحریر : پروفیسر محمد حسین چوہان
mh-chohan@hotmail.co.uk