تحریر : ممتاز ملک. پیرس ہر زمانے میں اکثر ہی مائیں اپنی بیٹیوں سے پریشان یوتی ہیں کہ بڑی بڑبولی ہے . بہت سست ہے .بڑی نکمی ہے . بڑی ہی کام چور یے . بڑی منہ پھٹ یے . بڑی بدتمیز ہے …کیا بنے گا اس لڑکی کا ؟ کون بیاہے گا اسے ؟ اور پھر ایک دن اس کے نصیب کا جوڑ اسے بیاہ کر لے ہی جاتا یے . بابل کے گھر کو پردیس بنا کر وہ کسی اور کے گھر کو اپنا گھر بنا کر اسے سجانے میں ماہر ہو جاتی ہے . پیسے بچانے سیکھ جاتی ہے . تمیز سے بات خرنا سیکھ جاتی ہے ، باتوں کو چھپانا اور زبان کو دانتوں میں دبانا بھی سیکھ جاتی ہے ، آنسو پینا بھی سیکھ جاتی ہے ، صبر کرنا بھی سیکھ جاتی ہے ، رنگ رنگ کے پکوان بنانے سیکھ جاتی ہے اور پھر ایک دن آتا ہے کہ . ہر ملبے والا اس کے سگھڑاپے کی تعریف کرتا ہے۔ اور وہ سب کو اکھلاپنے ہاتھ سے پکا کر کھلا کر خوش ہوتی ہے۔
سی سی کر داد لیتی ہے لیکن اپنی میکے کی نادانیوں اور نافرمانیوں کا کیل اس کے دل میں گڑھا رہ جاتا ہے . جب اس کے اندر سے آواز آتی ہے واہ ری سگھڑ خاتون خانہ ساری دنیا سے تعریفیں سمیٹنے والی تیرے ہاتھ کی روٹی کا کوئی نوالہ تیری ماں کے منہ میں نہ گیا …میرے ابو نے میرے ہاتھ کے کھانے کا ذائقہ کیوں نہ چکھا …میں نے اپنی ماں کو اپنے ہاتھ سے پکا کر کیوں کچھ نہ دیا …کوئی کپڑا اپنے ہاتھ سے سی کر اپنی ماں کو کیوں نہ پہنایا …. دو گرم آنسو آنکھوں سے پھسل کر اس کی گود میں جا گرتے ہیں۔
واقعی بہت دیر یو گئی امی جی… میں نے آپ کو سینے سے لگا کر کیوں کبھی آپ کو اپنی محبت کا احساس نہ دلایا . سا ری دنیا کو آئی لو یو کہنے والے ہم اپنی ماں اور اپنے ہی باپ سے آئی لو یو کہنے سے کیوں ہچکچا جاتے ہیں . جنہوں نے ہمیں پاوں پاوں چلنا سکھایا . زبردستی دنیا کی ہر لذت کو ہمارے منہ میں رکھا . اپنی حیثیت سے اچھا ہمیں پہنایا اوڑھایا لیکن انہیں سے اپنی محبت کا کھل کر اظہار ہم کبھی نہیں کر پاتے . سنو پڑھنے والو سننے والو ماں اور باپ جیسے مہربان رشتے انسان کو دنیا میں ایک ہی بار ملتے ہیں اور جو ان انمول نگنیوں کو کھو دیتا ہے وہ فقیر ہو جاتا ہے . چاہے دنیا کے خزانے کتنے بھی بھر جائیں لیکن اس کے دل کی تجوری ہمیشہ ہی خالی رہتی ہے .
امیر ہونا ہے تو ان کے جسم کے لمس کو بھی محسوس کرو
کبھی ان کے پاوں دبا کر
کبھی انکے ہاتھ چوم کر
کبھی انہیں جپھی دیکر
کبھی ان کا چشمہ بنوا کر
کبھی ان کی پسند کی جوتی دلا کر
کبھی ڈاکٹر سے ان کا چیک آپ کروا کر
کبھی ان کے لیئے سوٹ یا شال خرید کر
کبھی انہیں اپنے ہی بچوں کی لوٹ مار سے بچا کر
کہ خبردار ماں یا باپ کے نام پر آئی کوئی شے نہ تو آپ کی کوئی بہن ہاتھ لگائے نہ بھائی استعمال کرے انہیں خود سے لپٹا کر اپنے بچپن کا قرض لوٹانے کی کوشش تو کیجیئے. تاکہ بعد میں یہ سوچ کر دل نہ مسلنا پڑے کہ ہائے نی مائے کبھی دیکھ تو سہی تیری نکمی بیٹی کتنی سگھڑ ہو گئی ہے . کاش میں تجھے اپنے ہاتھ سے بنے سموسے کھلاتی . تجھے بازار کی بنی پوریاں پسند تھی نا …آج تیری بیٹی اس سے بھی اچھی پوریاں بناتی ہے مگر تیرے منہ میں اس کا لقمہ تک نہیں رکھ پاتی .آج کھانے والے میرے پکوان کی تعریف کرتے ہیں تو میرے دل میں گڑا کیل مجھے اور درد دینے لگتا ہے کہ تیری نکمی کے سگھڑ ہونے کی خوشی مناوں یا اپنے دل کا کیل دباوں ❤??۔