تحریر : اختر سردار چودھری ماں کے عالمی دن کو منانے کا مقصد عوام الناس کو ماں کے رشتے کی اہمیت کے بارے میں آگاہی دینا ماں کی محبت اجاگر کرنا اور اس عظیم ہستی کے لیے عقیدت، شکرگزاری کے جذبات کو فروغ دینا وغیرہ ہے ۔ ہمارے ہاں اس دن کو منانے پر اعتراض بھی کیے جاتے ہیں ۔اس بات کو بعد میںکرتے ہیں پہلے سن لیںکہ ماؤں کا دن منانے کا آغاز ایک امریکی خاتون اینا ہاروس کی کوشش کا نتیجہ ہے ۔ اینا ہاروس چاہتی تھیں کہ اس دن کو ایک مقدس دن کے طور پر سمجھا اور منایا جائے ۔ ان کی کوششوں کے نتیجے میں 8 مئی 1914 ء کو امریکا کے صدر ووڈرو ولسن نے مئی کے دوسرے اتوار کو سرکاری طورپر ماؤں کا دن قرار دیا۔
پاکستان سمیت دنیا کے بیشتر ممالک میں ہر سال مئی کے دوسرے اتوار (اس سال 8مئی 2016 ) کو مائوں کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ چند ممالک میںماں کا عالمی دن مئی کے دوسرے اتوار کی بجائے کسی اور دن منایا جاتا ہے ،مثلاََناروے میں فروری کے دوسرے اتوارجارجیا 3مارچ،افغانستان اور کئی ممالک میں 8مارچ ،برطانیہ میں مئی کے آخری اتوار ،وغیرہ جس گھر میں والدین ہوں ، وہ گھر رحمت خداوندی کا آستانہ ہوتا ہے ماں باپ کی دعاؤں سے بلائیں ٹلتی ہیںمسلمانوں کا ہر لمحہ ماں باپ کے لئے وقف کیاگیاہے حتیٰ کہ عمر بھر کی عبادت و ریاضت اور نیکیاں والدین کی رضا سے منسوب ہیں۔
موجودہ دور نفسا نفسی کا ہے، اس میں اب ہم سب اپنی روایات سے دور ہوتے جا رہے ہیں اور افسوس کا مقام ہے ہم دین اسلام کے فرائض سے بھی دور ہوتے جارہے ہیں ان میں سے ایک والدین سے حسن سلوک بھی ہے کہ مغرب کی اندھا دھند تقلید میں ہمارے ہاں بھی اولڈ ہاوس بن رہے ہیں والدین کو اولاد ان کے گھر سے ہی نکال رہی ہے یا خود ان کو چھوڑ کر الگ ہو جاتی ہے ۔اور اس بے حسی ،ظلم ،پر ذرا بھی شرمسارنہیں ہے موجودہ عہد میں والدین سے بد سلوکی،بد زبانی،طعنے دل دکھانے والی باتیں تو ایک معمول بن چکا ہے۔ اولاد اتنی مصروف ہو گئی ہے ان کے پاس ماں باپ کے پاس بیٹھنے،باتیں کرنے کا وقت نہیں ہے۔مغرب میں اولاد اپنے ماں باپ کو اولڈ ہومز میں داخل کروا دیتے ہیں ،مغرب کی پیروی میں ایسا اب پاکستان میں بھی کیا جا رہا ہے ،پاکستان جو کہ ایک اسلامی ملک ہے اس میں بھی اولڈ ہوم بن چکے ہیں ،جہاں بوڑھے اپنے دکھ درد ،داستان حیات سنا سنا کر وقت گزاری کرتے ہیں۔
Holland Old Home
ہالینڈ سے ایک خبر ٹھنڈی ہوا کے جھونکے کی طرح آئی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ ہالینڈ کے ایک اولڈ ہوم کی انتظامیہ نے وہاں مقیم بوڑھوں کی تنہائی دور کرنے کے لیے کالج اور یونیورسٹی کے طالب علموں کومنفرد پیش کش کی ہے کہ وہ روزانہ اگرایک گھنٹہ اولڈ ہوم میں مکین بوڑھوں کے ساتھ گزاریں تو ان کو بلامعاوضہ رہائش فراہم کی جائے گی ۔اب تک کافی طالب علم وہاں رہائش پذیر ہو چکے ہیں ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہمارے علما ء ،اساتذہ،اور پرنٹ و الیکڑانک میڈیا کے ساتھ ساتھ شوشل میڈیا وغیرہ پر حقوق العباد پر زیادہ سے زیادہ کام کیا جانا چاہیے تاکہ نئی نسل اپنے اسلامی فرائض کو جان سکے۔سب سے اہم یہ ہے کہ آخرت کے حساب کتاب کا احساس دلایا جائے یہ ہی دانائی ہے کہ آخرت کا خوف ہو۔ ہم دیکھتے ہیں کہ والدین سے بد سلوکی گناہ کبیرہ ہے اور شرک کے بعد سب سے بڑا گناہ ہے ۔اسلام میں والدین کے حقوق اللہ کے حقوق کے بعد بیان کیے گئے ہیں ،ایک حدیث کے مطابق تین بار ماں کے حق کے بعد چوتھی بار باپ کا حق بتایا گیا ۔اور یہ کہ جنت ماں کے قدموں تلے ہے ۔ ماں جو مشقت اپنی اولاد کے لیے اس کے بچپن میں اٹھاتی ہے اگر اولاد ساری زندگی بھی خدمت میں گزار دے تو بھی ماں کا حق ادا نہ ہو۔
ایک شخص نے اپنی ماں کو کندھوں پر اْٹھا کر سات حج کروائے اور بولا آج میں نے اپنا حق ادا کر دیا تو غیب سے آواز آئی کہ ابھی تو تو نے اْس ایک رات کا حق بھی ادا نہیں کیا جب تو نے سوتے میں بستر گیلا کر دیا تھا تو تیری ماں ہی تھی جس نے تجھے تو خشک جگہ پر لیٹا دیا اور خود گیلی جگہ پر لیٹ گئی۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام اپنی ماں کی وفات کے بعد اللہ تعالیٰ سے ہمکلام ہونے جا رہے تھے کہ راستے میں ٹھوکر لگنے سے گرنے ہی لگے تھے کہ غیب سے آواز آئی ”اے موسیٰ! سنبھل کر چل اب تیرے پیچھے دعا کرنے والی ماں نہیں ہے ۔جیسا کہ اوپر لکھا تھا کہ مدر ڈے پر ہمارے ہاں اعتراض بھی کیے جاتے ہیں ۔عا م طور پر کہا جاتا ہے کہ مدر ڈے یا فادر ڈے مغربی تہذیب کا حصہ ہیں ،اسلام کا ان سے کوئی تعلق نہیں ہے ،وغیرہ یہ سب درست کہا جاتا ہے لیکن ایک بار ذرا سوچئے کہ اولڈ ہاوس تو ہمارے ملک میں بھی بن رہے ہیں ،اور یہ بھی کہ اگر ذرا تعصب کی عینک اتار کر دیکھیں تو علم ہوتا ہے کہ آخری عمر میں ہمارے ہاں بھی ،ہمارے ملک میں ،خاندان میں ، ضعیف والدین کا کیا حال ہے؟ اس لیے ایسے حالات اگر کسی ایک دن کوئی اگر اپنے والدین سے اظہار محبت کرے تو اس میں کیا خامی ہے۔
ایسے بھی واقعات اخباروں میں پڑھنے کو ملتے ہیں جس میں بیٹے ماں کو جائیداد کیلئے قتل کر دیتے ہیں۔ بد نصیب اولاد ماں کو معاشی بوجھ سمجھ کر سڑکوں کے کناروں یا پھر اولڈ ہومز میں چھوڑ جاتے ہیں۔یہ کسی اور ملک کی نہیں ہمارے اپنے ملک کی کہانیاں ہیں ۔بے شک یہ مغربی رسم ہے لیکن مجھے اپنی نئی نسل سے کہنا ہے کہ آئیں آج صرف ایک دن صرف ایک دن مغرب کی پیروی میں اپنی ماں کے ساتھ گزاریں ،اس کے ساتھ بیٹھیں ،اس سے میٹھے لہجے میں بات کریں ، کیونکہ ہماری نئی نسل میں والدین کی طرف عزت دینے کا رجحان کم ہوتا نظر آ رہا۔ اکثر لوگ ماں ،باپ کے احسان کو بھول کراْن کی محنت اور محبت کو فراموش کردیتے ہیں ۔بعض لوگ اپنے والدین کے اخراجات خوشی سے اْٹھاتے ہیں لیکن اْن کیلئے وقت نہیں نکال پاتے۔ دوسری طرف والدین کے اخراجات چار چار بیٹے مل کر نہیں اٹھا سکتے ۔ایسے لوگوں کو ماں کے عالمی دن کے موقع پر بتانا چاہتا ہوں کہ ماں ،باپ کو پیسوں یادوسری چیزوں سے زیادہ اْولاد کے وقت،محبت اور خدمت کی ضرورت ہوتی ہے ۔وہ روکھی سوکھی کھا کر خوش رہ سکتے ہیں اگر ان کو عزت دی جائے ،ان سے محبت کی جائے۔
ALLAH
ماں ایک ایسی ہستی ہے کہ جب اللہ سبحان و تعالی نے اپنی محبت کے بارے میں اپنے بندوں کو بتایا تو یہ بتایا کہ اللہ سبحان و تعالی اپنے بندوں سے ماں سے 70 گنا زیادہ محبت کرتا ہے ۔دنیا میں ماں کے سوا کوئی سچا اور مخلص رشتہ نہیں ہے ۔ماں ایک پیاری شفیق اور بے لوث محبت کرنے والی عظیم ترین ہستی ہے، جس کی شفقت اورمحبت کی ٹھنڈی ٹھنڈی چھائوں میں بیٹھ کر ہم تمام دنیا کے دکھ درد بھول جاتے ہیں۔ خدائے بزرگ و برتر نے اپنی محبت میں سے جو اسے ہم گناہگار انسانوں کے ساتھ ہے اس کا ایک چھوٹا سا قطرہ شائد ماں کے دل میں ٹپکا دیا ہے( 70 واں حصہ )جس کی برکت سے ماں ہمیں محبت کی اتھاہ گہرائیوں سے چاہتی ہے اور ہمارے دکھ درد اٹھاتی ہے ہمارے لئے قربانیاں دیتی ہے اور اپنی اولاد کو کبھی بھی دکھ نہیں پہنچنے دیتی ، ماں کے شفیق ہاتھ اپنے بچوں کے لئے ہمیشہ خدا کے حضور ہی اٹھے رہتے ہیں۔
اے ماں تیری ہستی باپ سے بھی زیادہ عظیم ہے ماں تیرے پائوں تلے جنت ہے ، اے ماں تیرا پیارچاند کی طرح شفاف ہے اے ماں تیری دعائیں ہمارے لئے زندگی کا کل سرمایہ ہیں، اے ماں تو گھر کی روشنی ہے اور ہمارے لئے جنت کا راستہ ہے۔قرآن پاک میں جہاں بھی اللہ کی توحید کا ذکر ہوا ہے وہاں ماں باپ کی فرمانبرداری کا ذکر بھی لازمی آیا ہے ۔ماں کی نافرمانی شرک کے بعد سب سے بڑا گناہ ہے ۔ قرآن پاک میں اللہ تعالی کا فرمان ہے کہ (مفہوم)اپنے ماں باپ کو اف تک نہ کہو ۔اسی طرح آپ ۖ نے فرمایا کہ (مفہوم)کتنا بد نصیب ہے وہ جس کے والدین ہوں اور وہ ان کی خدمت نہ کرے ۔ماں کو وقت دیجئے، محبت سے خدمت کیجئے اور جنت لیجئے۔
موجودہ دور نفسا نفسی کا ہے اس میں اب ہم سب اپنی روایات سے دور ہوتے جا رہے ہیں اور افسوس کا مقام ہے ہم دین اسلام کے فرائض سے بھی دور ہوتے جارہے ہیں ان میں سے ایک والدین سے حسن سلوک بھی ہے کہ مغرب کی اندھا دھند تقلید میں ہمارے ہاں بھی اولڈ ہاوس بن رہے ہیں والدین کو اولاد ان کے گھر سے ہی نکال رہی ہے یا خود ان کو چھوڑ کر الگ ہو جاتی ہے ۔اور اس بے حسی ،ظلم ،پر ذرا بھی شرمسارنہیں ہے۔اس سانحہ پر ماں رونے کے سوا کیا کر سکتی ہے۔ اس طرح میرے گناہوں کو دھو دیتی ہے ماں بہت غصے میں ہو ،تو بس رو دیتی ہے
Old Women
بہت مجبور ہو تو بس رو دیتی ہے ماں کہنا چاہئے ۔موجودہ عہد میں والدین سے بد سلوکی،بد زبانی،طعنے دل دکھانے والی باتیں تو ایک معمول بن چکا ہے۔ اولاد اتنی مصروف ہو گئی ہے ان کے پاس ماں باپ کے پاس بیٹھنے،باتیں کرنے کا وقت نہیں ہے۔مغرب میں اولاد اپنے ماں باپ کو اولڈ ہومز میں داخل کروا دیتے ہیں ،مغرب کی پیروی میں ایسا اب پاکستان میں بھی کیا جا رہا ہے ،پاکستان جو کہ ایک اسلامی ملک ہے اس میں بھی اولڈ ہوم بن چکے ہیں ،جہاں بوڑھے اپنے دکھ درد ،داستان حیات سنا سنا کر وقت گزاری کرتے ہیں ۔ماں اولاد کے لئے عظیم ترین نعمت ہے، جس کا پوری کائنات میں کو ئی بھی نعم البدل نہیں ماں کا وجود اولاد کے لئے سب سے بڑا انعامِ خدا وندی ہے، اگر ماں نہ ہوتی تو شائد کائنات بھی نہ ہوتی ، ماں کی گود بچے کے لئے سب سے بڑی پناہ گاہ اور درس گاہ ہے، کتنی عظیم ہے ماں اور کتنی عظیم ہے ماں کی ممتایہ تو وہی جانتا ہے جس کی ماں نہ ہو ،یا بچپن میں ہی اللہ کو پیاری ہو جائے۔
قرآن میں اللہ رب العالمین نے بھی اپنی بندگی کے ساتھ ساتھ والدین کی اطاعت و فرمانبرداری کو لازم قرار فرمایا اور اس اطاعت کی حدیث کی روشنی میں ماں کی فرمانبرداری کے عوض جنت کی لازوال نعمتوں کا وعدہ فرمایا گیا ہے کیونکہ ماں کی ممتا اور محبت میں کوئی غرض پوشیدہ نہیں ہوتی، ماں اپنی وفائوں کا بدلہ نہیں چاہتی اور یہی وجہ ہے کہ ممتا جیسی نعمت کی نہ مثال ہے اور نہ ہی کوئی نظیر ہے اورنہ ہی اس کا کوئی نعم البدل ہے ماں اولاد کے لئے محبت ،چاہت، راحت اور پیار ہے، ماں کی ممتا میں خلوص ہے اسے کبھی فنا نہیں کیا جاسکتا، ماں کی محبت کبھی ختم ہونے والی نہیں ہے ،ماں کی ممتا مرکز تجلیات اور سر چشمہ حیات ہے ماں صداقت کا پیکرہے جس میں کوئی بناوٹ نہیں ۔ماں اپنی تخلیق پر کتنی نازاں ہوتی ہے وہ اپنی اولاد کے دکھ پر کیسے تڑپ جاتی ہے۔
(اس بات کو سمجھانے کے لیے صدیوں سے ایک کہانی سنائی جا تی رہی ہے کہ ایک بیٹے کو کسی لڑکی سے محبت ہو جاتی ہے وہ لڑ کی یہ دیکھنے کے لیے کہ لڑکا اس کی محبت میں کتنا ڈوب چکا ہے اس کی آزمائش کرنے کے لیے اسے کہتی ہے کہ اپنی ماں کا کلیجہ نکال لائو پھر مجھے تیری محبت کا یقین آئے گا ۔وہ عاقبت نا اندیش اس کی محبت میں اتنا اندھا ہوتا ہے کہ گھر جا کر اپنی ماں کو قتل کر کے اس کا کلیجہ نکال کر محبوبہ سے ملنے تیز تیز بھاگ رہا ہوتا ہے کہ اسے ٹھوکر لگتی ہے ۔گرتا ہے تو ماں کے کلیجے سے آواز آتی ہے بیٹا سنبھل کرچل۔اس کے بعد کی کہانی اس سے بھی عبرت ناک ہے کہ جب وہ ماں کا کلیجہ نکال کر محبوبہ کے پاس جاتا ہے اپنی محبت کا ثبوت دینے کے لیے تو وہ لڑکی اس کی محبت یہ کہ کر ٹھکرا دیتی ہے کہ جو اپنی ماں کو میرے لیے قتل کر سکتا ہے وہ کسی اور کے لیے مجھے بھی چھوڑ سکتا ہے جو ماں کا وفادار نہیں وہ کسی کا بھی وفادار نہیں ہو سکتا)۔