تحریر : ڈاکٹر تصور حسین مرزا قدرت کا قانون ہے جو سمجھ اور مان گئے اور قانونِ قدرت کو سمجھنے کے بعد اس پر عمل کر گئے وہ ہی لوگ دنیا اور آخرت میں سرخرو ہوئے ! انسان اشرف المخلوقات ہے ۔ماں کا دودھ دوران حمل عورت کے اندر پیدا ہوتا ہے اور بچے کی پیدائش کے قریب 24 گھنٹوں بعد اس کی فراہمی ممکن ہوتی ہے۔ یہ جنسی ہارمون پروجسٹرون اور پرولیکٹین سے مل کر بنتا ہے۔کیا شان ہے؟ قانون فطرت کی ماں کی چھاتی سے دودھ کے رسنے کا عمل بچے کی طرف سے دودھ چوسنے کے عمل کے ساتھ شروع ہوتا ہے۔ پرولیکٹین نامی ہارمون ایک طرف تو ماں کے اعصابی نظام کو کنٹرول کرتا ہے، دوسری جانب یہ پیدا ہونے والے دودھ کی مقدار کو بھی کنٹرول کرتا ہے۔وہ خاص خزانے جو ماں کے دودھ میں اللہ ربالعزت نے رکھے ہیں ماں کے دودھ میں جادوئی اثر پایا جاتا ہے۔ 1) (بچے کی پیدائش کے بعد کے چند ہفتوں کے دوران اُس کا مکمل نظام ہضم ماں کے دودھ سے ہی نشو و نما پاتا اور مضبوط ہوتا ہے۔ (2)ماں کا دودھ بچے کو آنتوں کی انفیکشن یا عفونت سے بچاتا ہے، اُس کے نظام ہضم کو مضبوط بناتا ہے۔ (3)ماں کا دودھ پینے والے بچے کے پیٹ میں ابھار یا سوجن نہیں ہوتی، نہ ہی اُسے قبض کی شکایت ہوتی ہے۔(4) بچے کا مدافعتی نظام مضبوط بنانے اور اُسے مختلف الرجیز سے محفوظ رکھنے میں ماں کے دودھ سے بہتر دنیا کی کوئی چیز نہیں ہو سکتی۔(5) اس کے علاوہ ماں کا دودھ پینے والے بچے کے مسوڑے اور جبڑے بھی مضبوط ہوتے ہیں۔
(نوٹ )کمزور بچوں کو خاص طور سے ماں کا دودھ زیادہ پلانا چاہیے ماں کے دودھ کے اجزائ ماں کے دودھ میں موجود اجزاء کی فہرست بہت لمبی ہے۔ ان میں اہم ترین اجزاء معدنیات، وٹامن، چکنائی، امائینو ایسیڈ وغیرہ ہیں۔ اس کے علاوہ ڈی این اے کے لیے بنیادی اہمیت کے حامل نامیاتی مرکب نیوکلیو ٹائیڈ، توانائی فراہم کرنے والا کاربوہائیڈریٹ موجود ہوتا ہے جو بچے کی جسمانی نشو و نما کے لیے نہایت ضروری ہے۔
دودھ بننے کا مرحلہ : ماں کا دودھ قدرتی طریقے سے مسلسل بنتا رہتا ہے۔ بچے کی پیدائش کے بعد پہلے دن چھاتی میں پیدا ہونے والا صاف سیال غذائیت سے بھرپور اور انتہائی متناسب ہوتا ہے۔ چوتھے دن سے عبوری دودھ بننا شروع ہوتا ہے اور دسویں دن پستان کے غدود سے پختہ دودھ جاری ہو جاتا ہے۔ قدرت کا نظام کچھ ایسا ہے کہ ماں کے دودھ میں پائے جانے والے اجزاء بچے کی نشو و نما کے مراحل کے مطابق اُس کی ضروریات پوری کرنے کے حساب سے بنتے رہتے ہیں۔
ماں کے دودھ کو ریفریجیریٹر میں رکھا جا سکتا ہے کتنا دودھ بنتا ہے؟ ماں کے سینے میں ہر روز ایک لیٹر تک دودھ بنتا ہے۔ ایک شیر خوار ایک وقت میں 200 سے 250 ملی لیٹر تک دودھ پیتا ہے۔ تاہم ماں کے سینے میں دودھ کی پیداوار کی مقدار بچے کی ضرورت کے مطابق تبدیل ہوتی رہتی ہے۔
کب تک بچے کو ماں کا دودھ پلایا جانا چاہیے؟ یہ ایک متنازعہ موضوع ہے۔ عالمی ادارہ صحت ڈبلیو ایچ او اور مختلف قوموں کے کمیشن ماؤں کو مشورہ دیتے ہیں کہ وہ بچے کو کم از کم چھ ماہ تک دودھ پلائیں اور چوتھے مہینے سے بچے کو اضافی غذا دینا شروع کریں۔
ثقافتی فرق : بچے کو دودھ پلانے کی میعاد مختلف ثقافتوں میں مختلف ہے۔ وسطی افریقہ میں مائیں اپنے بچوں کو عموماً ساڑھے چار سال کی عمر تک اپنا دودھ پلاتی ہیں جس کا مطب یہ ہوا کہ اوسطاً ایک ماں 16 ہزار لیٹر دودھ پیدا کرسکتی ہے۔ مجموعی طور پر دنیا کی تمام ثقافتوں سے تعلق رکھنے والی ماؤں کے دودھ پلانے کی میعاد اوسطاً 30 ماہ بنتی ہے۔
اللہ پاک نے اپنی الہامی و مقدس کتاب مبین میں فرمایا ہے کہ ‘اور مائیں اپنی اولاد کو دو سال کی مکمل مدت تک دودھ پلائیں (یہ اس کے لیے ہے) جو مدت رضاعت مکمل کرنا چاہتا ہے۔” آیت نمبر 233 سورة البقرہ اس آیت کے نزول کو چودہ سو برس گزر چکے ہیں عالمی تنظیمیں اور کمیٹیاں مثلاً عالمی صحت کی کمیٹی (World Health Organization)آج یہی بیان جاری کر رہی ہے کہ ماں اپنی اولاد کو ضروردودھ پلائے حالانکہ اسلام نے تو اس کا چودہ سو برس قبل ہی حکم دے دیا تھا تو آج کی تحقیق کے مطابق ہمارے سامنے بچے کو دودھ پلانے کے جو فوائد و ثمرات ہیں بڑے دکھ اور کرب کی بات ہے کہ ہر سال اگست کے پہلے ہفتہ ماں کے دودھ کا منایا جاتا ہے اور دوسرا ہفتہ اگست کا یعنی 14 اگست کو ملک عزیز کی آزادی۔ حالانکہ کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے اور یہ دشمن کے قبضے میں ہے یعنی ہماری شہ رگ کو ہمارے ازلی دشمن نے دبوچا ہوا ہے اور ہم ” آزادی مناتے ہیں ، محکمہ صحت کی خواتین ملازمین اپنے بچوں کو اپنا دودھ نہیں پلاتی اور ہم ہفتہ ماں کے دودھ کا مناتے ہیں ۔ نتیجہ زبانی جمع تفریق کے علاوہ زیرو۔۔۔۔ یہ نتائج اس وقت تک حوصلہ افزاء نہیں بر آمد ہو سکتے جب تک ہماری تربیت ” دین اسلام کے مطابق نہ ہو جائے ۔ ہم نے اسلام کو عبادات تک محدود کئے ہوئے ہیں حالانہ اسلام مکمل ضابطہ حیات ہے۔ اگر ہم چاہتے ہیں ہماری مائیں اور ہمارے بچے تندرست ہوں تو عملی طور پر سیرت النی ۖ کی طرف آنا ہوگا۔ جب ہم نے عملاً اسلام کو اپنی زندگی کا دستور بنا لیا تو پھر مائیں بچوں کو دودھ بھی پلائیں گئی اور اولاد ماں باپ کی خدمت کو بوجھ نہیں اعزاز سمجھ کر دنیا اور آخرت سنواریں گئے ۔ اور تب حقیقی آزادی ہوگی۔