تحریر : قادر خان یوسف زئی ماں، ماں ہوتی ہے ، اپنی اولاد کی غلطیوں و کردہ ، ناکردہ گناہوں پر پردہ ڈالنے کیلئے کسی بھی وقت اپنی جان بھی لٹانے کے لئے تیار رہتی ہے۔ ڈاکٹر فاروق ستار کی والدہ نے بھی اپنے بیٹے کے آگے ڈھال بن کر سنگ باری ، طعنہ زنی کو اپنے سینے پر لے لیا۔
کراچی بھی سندھ دھرتی ماں کا ایک حصہ ہے جسے لسانیت ، قوم پرستی ، صوبائیت ، فرقہ واریت کے نام پر ہمیشہ روندا جاتا رہا ۔دھرتی ماں کی چادر کو پیروں تلے خوب روندا جاتا ہے ۔ آج فاروق ستار کی والدہ کا چہرہ دیکھ کر مجھے پانچ برس کی لائبہ کی ماں یاد آرہی ہے جس کی بیٹی مدرسے جانے کے لئے اپنے گھر کے دروازے پر کھڑی تھی کہ” نامعلوم” سمت سے” نامعلوم فرد” کی” نامعلوم “گولی نے معصوم بچی کا سینہ ادھیڑ کرکھ دیا ۔ برسا برس کی منتوں سے مانگی جانے والی نرینہ اولاد اپنی دکھیاری ماں کو ہمیشہ کیلئے روتا چھوڑ گئی۔مجھے اُس بچی کی ماں کوبھی یاد ہے، جس کی معصوم کلی گھر سے ٹافی لینے نکلی تھی اور اور پھر” نامعلوم” سمت سے” نامعلوم فرد” کی” نامعلوم “گولی اس کے سر میںجاگھسی اور پھول بن کھلے مرجھا گیا ۔ میں نے اُس بچے کی ماں کو بھی دیکھا جس کا بچہ شام کے وقت شہر بھر سے کچرا چُن کر اپنے ماں کے لئے روٹی لاتا تھا ، لیکن جب اس کامعصوم جسم گولیوں سے چھلنی اُس کی ماں کے سامنے تھا تو اس کی آنکھوں سے نکلنے والے آنسوئوں سے آسمان سے بادل گرجے بغیر برسے۔ میں آج بھی اُس ماں کو چپ نہ کراسکاجس کے نوجوان اکلوتے بیٹے کی شادی تھی ، لیکن اس کا جوان بیٹا ، دولہے کے بجائے میت کے پھولوں میں سج کر مٹی میں دفن ہوا۔
میرے سامنے ایک چائے والی کی ماں کا گریہ بھی ہے جو میرا گریبان پکڑ کر پوچھ رہی تھی کہ کیا کراچی والوں کے خزانے لوٹے تھے اس نے ۔ کسی زمین پر قبضہ کیا تھا ، کسی کی وزرات چھینی تھی ۔ میرے سامنے وہ ماں بھی تھی جس کا مزدور بیٹا ہڑتال کے باوجود کام پر اس لئے نکلا کیونکہ اُسے روز کنواں کھودکر پانی پینا ہوتا تھا ۔ لیکن جب اس کا جسد خاکی گھر پہنچا تو اس کے جسم کا کوئی حصہ ایسا نہیں تھا جو تشدد سے سلامت رہا ہو۔ماں اپنے بیٹے کے جسم سے لپٹ لپٹ کر رو رہی تھی کہ اب اُن کا کیا ہوگا ۔ تم تو خدا کے پاس چلے گئے ہو ، ہمیں کس کے آسرے پر چھوڑگئے۔ میں بس کنڈیکٹر ، ٹیکسی ڈرائیور ، رکشہ ڈرائیور کی مائوں کے ہاتھوں کو نیچے نہیں کرسکا جو ہاتھ اٹھا اٹھا کر اللہ تعالی سے انصاف کی بھیک مانگ رہی تھی ۔ میں نے ایسی مائوں کے حوصلے بھی دیکھے کہ وہ سوختہ لاشوں میں دوسری ماں کو بھی جھوٹی تسلی دے رہی تھی کہ کچھ نہیں ہوگا ۔ تمہارے بچے کو کچھ نہیں ہوا ، وہ زندہ ہیں ، ابھی پکاریں گے ۔ ابھی آواز دیں گے ۔ بہنا صبر کرو۔۔ پھر یہی جھوٹی تسلی دوسری ماں بھی کسی کو ماں کو دے کر جھوٹ کو سچ مان رہی تھی ۔میں نے مائوں کو ہی نہیں ان بچوں کے والد کو بھی دیکھا جو اپنے بچوں کے قاتلوں سے پوچھ رہے تھے کہ اُن کے ایم پی اے کے میرے جگر گوشے نے تو نہیں مارا تھا ۔ میں نے اُن کو بھی دیکھا کہ جو دن بھر کی محنت کے بعد تھکے ہارے پل کے نیچے سوتے تھے جنہیں صرف اس لئے مار دیا جاتا تھا کیونکہ وہ عروس البلاد میں محنت کرنے آئے تھے ۔ میں سب کچھ دیکھتا ہی رہ گیا۔ سنتا رہا ، میڈیا کو لے لے جا کر اُن محنت کشوں کے جلے ہوئے گھر ، ان کی لوٹی ہوئی دوکانیں ، ان کے پتھارے، ان کی جمع پونجی سے بنائی ہوئے کاروبار کی سوختہ لاشوں کو دکھاتا رہا ۔میڈیا مجھ سے پوچھتا کہ آج کا اسکور کتنا ہوا ۔ آج ٹوٹل کتنے ہوگئے اور میں ایک چھوٹے سے ایس ایم ایس میں بتاتا کہ آج کے بیس شہید ملا کر تین دن میں ایک سو تیس ہوگئے ہیں۔
سیاست کرنے والے سیاست کرتے رہے ، جھنڈا ٹھانے والوں کے جنازے گرتے رہے ،لیکن یہ جھنڈا پاکستان کا نہیں،علاقوں کی تسخیر کیلئے رنگ برنگے رنگوں والے تھے ۔کراچی کے امن کا بٹن آن آف ہوتا رہا اور پھر ردعمل کا بھیانک سلسلہ بھی جاری ساری رہا۔ مائوں نے اپنے معصوم بچوںکے ساتھ زیادتی کی ویڈیو میں منت سماجت روتے بلکتے اور رحم کی اپیلوں کو دیکھا ۔ مائوں نے اپنے بچوں کے بریدہ سروں کو فٹ بال کی طرح کھیلتے درندوں کو بھی دیکھا ۔ مائوں نے اپنے بچوں کی کٹی پٹی سر بریدہ لاشوں کو بھی دیکھا اور مائیں دیکھتی رہیں کہ رنگ برنگی جھنڈوں میں ایک لاش شہدا قبرستان جاتی تو سو لاشیں اونچے اونچے پہاڑوں میں بنی جھونپڑیوں کے ساتھ لحد میں ۔۔میں نے نازک جگہوں پر ایلفی ڈلے اور کان کٹنے والے طالب علموں کوبھی دیکھا ، میں نے ان کی روتی التجائوں میں اپنے گھر واپس جانے کے لئے بحفاظت کراچی سے باہر چھوڑنے کیلئے درخواستوں پر بھی رویا ۔ میں نے گھروں سے بے گھر کئے جانے والوں کی داد و فریاد بھی اور جلسوں میں گرجتے لیڈروں کے نعروں کے جواب میں بارود کی گونج بھی سُنی ۔
آج صرف کراچی کی مائوں کے بین نہیں بلکہ پاکستان بھر کی تمام دکھیاری مائیں سینہ کوبی کرتے ہوئے، اُس ماں سے سوال کررہی ہیں کہ امی ۔۔۔ اس وقت کہاں تھی آپ، جب میرے بچے کے کان ، ہاتھ ، پیر اور سر کاٹے جا رہے تھے ۔ امی جی ۔۔اُس کہاں تھی آپ، جب میرا بچہ اپنے بھائی ، بہنوں کے لئے اپنے وطن پاکستان کے شہر میں تاریک وطن کے طرح چھپ چھپ، روز ڈر اور مر کر مزدوری کرتا تھا ۔ پاکستان کے بیٹے پوچھتے ہیں کہ امی جی ۔۔۔ بتائیں نا ۔۔ کیوں خاموش ہیں کیا اُن جوان زخمیوں کو نہیں دیکھا جو نامعلوم افراد کی جانب سے اسپتال جاتے تو انہیں زہر کا انجکشن لگا کر مار دیا جاتا تھا ۔ امی جی ۔۔۔ ایک بیٹے کو گلے لگا کر پھر کراچی کو کس آگ میں جلانا چاہتی ہیں۔ کیا نہیں دیکھا تھا کہ پاکستان بنتے وقت کتنی مائوں ، بہنوں کی عصمت تار تار ہوئیں ، اُس وقت آپ کون تھی ؟۔ آپ کیا چاہتی تھی ؟۔ آپ کا نعرہ کیا تھا ؟۔ کیوں اپنے آبا و جداد کی زمین کو چھوڑ کر پاک زمین کے نام سے بننے والے چھوٹے ، غریب اور مشکلات سے گھرے خطے میں جا رہی تھیں ، کیا اس لئے کہ ایک ہجرت کرنے والا اٹھے اور قربانی دینے والوںکو غدار بنا دے ۔ امی جان ۔۔۔ میں کیا کہوں ، میں تو خود شرمندہ ہوں کہ اس گورکھ دھندے کو دیکھتا رہا لیکن کچھ کر نہ سکا ۔۔۔ امی جان آپ جانتی ہو کہ میرا گلے کو کاٹ کر مجھے بوری میں ڈال کر پھینکا گیاتھا لیکن میں، نہ جانے کیوں بچ گیا ۔ 38ٹانکے میرے گلے میں لگے ، امی جان جانتی ہو میرا کیا قصور کیا تھا ۔ میں بس ہجرت کرکے نہیں آیا تھا۔ پشتو بولتا تھا ۔۔۔ سنو ،،سنو امی جان ، آپ فاروق ستار بھائی کی ہی نہیں میری بھی ماں ہیں ، ۔۔۔ مجھے میری زبان بولنے والوں نے بھی چھ گولیاں ماریں کیونکہ میں آپ کے بیٹے کے ساتھ اس لئے تھا کہ وہ کہتے تھے کہ اب ہم مہاجر نہیں سب پاکستانی ہیں ،یہ ذاتیں تو صرف پہچان کے لئے ہیںمیں پشتو بولنے ولا ، اردو بولنے والوں کے ساتھ شانہ بہ شانہ کھڑا تھا یہی میرا قصور بنا اور آج بھی ایک گولی اپنے کندھے میں امانت کے طور پر لئے پھر رہا ہوں ۔
، امی جان ۔قاتل کون ، مقتول کون تھا، آپ شائد کچھ نہیں جانتی ورنہ اپنے بیٹے کو روک لیتی ۔ اُس غدار نے ان گنت نوجوانوں کو گمراہ کیا ، پاکستان کے لئے قربانی دینے والوں کو ہی پاکستان کا غدار بنانے لگ گیا ، امی جان آپ کسی ماں ہیں کہ آپ نے اتنا بھی نہیں سوچا کہ آپ کی پہچان تو پاکستان ہے ۔ آپ نے پاکستان بنتے ضرور دیکھا ہوگا ۔ آپ نے ہجرت بھی کی ہوگی ، کتنی بیٹوں کے عصمتوں پر اپنے آنسوئوں کی چادر ڈالی ہوگی ۔ نہیں امی، نہیں آپ کو ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا ۔ امی جان ۔۔۔۔ آپ کا ایک فیصلہ لاکھوں انسانوں کو پھر35برس پیچھے نفرت کی وادی میں لے گیا ۔ مجھے انیس بھائی سے بھی کوئی گلہ نہیں ، ان کے ہوتے ہوئے بھی مجھے ناکردہ گناہوں میں ان کے ساتھیوںنے سات مہینے بے گناہ اسیر کروایا ، ۔۔میں نے تو کئی برس پہلے ہی لکھ کر دے دیا تھا کہ انیس بھائی بھول مت جانا ۔۔ لیکن انیس بھائی سب کچھ بھول گئے ۔۔۔ مجھے اب انہیں یاد کرانے کی ضرورت نہیں ، کہ وہ کس راستے پر ہیں ان کے کیا مقاصد تھے ، میرے سندھ کے اردو بولنے بھائیوں ، اپنے محلے کی ہر اس گلی میں ضرور جانا ، جہاں کسی نہ کسی گھر سے جنازہ ضرور نکلا ہوگا ، وہاں رک کر ایک بار ضرور سوچنا کہ اِس ماں کا بیٹا ، جیل میں کیوں بند ہے ۔ وہاں بیٹھ کر ضرور پوچھنا کہ اُس ماں کا بیٹا ، دشمن کا ایجنٹ کس کی وجہ سے بنا ، وہاں ماں کے کسی بھی بیٹے سے ضرور معلوم کرنا کہ بھائی ، آپ کے بھائی کے جنازے کو کندھا تو سب نے دیا لیکن اس کو آپ کے علاقائی قبرستان میں کیوں دفن نہیں کرنے دیا گیا ۔ آج سیاسی قبرستان کے دروازے کا تالا ایک بار پھر توڑا گیا ہے جسے بند کردیا گیا تھا کہ اب کسی ماں کا کوئی بیٹا مرنے کے بعد بھی سیاسی دعائوں کے لئے غلام نہیں بنے گا ۔۔ ارے امی جان ،کیا کردیا آپ نے۔۔۔ !!