تحریر : روہیل اکبر امی جان نے بچپن میں جو ہماری تربیت کی وہ ایسی تھی کہ اس نے ہمیں آج تک لڑکھڑانے نہیں دیا اوراتنا اعتماد دیا کہ پھر ہمیں کسی سہارے کی ضرورت نہ رہی بلکہ ہم سب دوسروں کا بھی سہارا بن گئے بڑے بھائی سہیل اکبر نے درجنوں بے سہارا افراد کو باعزت روزگار دلا کر انہیں اپنے پاؤں پر کھڑا کیا حوصلہ ہمیں اتنا مل گیا کہ ہم اکیلے چٹانوں سے ٹکرانے کی ہمت رکھنے لگے اور بڑے سے بڑا دکھ بھی ہمیں بغیر کوئی نقصان پہنچائے گذرتا رہا ہم سب میں سے بڑا حوصلہ بھی امی جان کا ہی تھا جنہوں نے آج تک ہمارے سامنے ایک آنسو بھی نہیں بہایا تھا امی جان کے حوصلے ،صبر اور ہمت کی اس سے بڑی اور کیا مثال ہوسکتی ہے کہ جب بڑے بھائی سہیل اکبر کو ہیپاٹائٹس ہو ا طویل علاج معالجے کے بعد بھی ایک دن ڈاکٹر نے انکی بیماری کے پیش نظر مجھے بتادیا کہ اب یہ چند دنوں کے ہی مہمان ہیں جس پر میرا صبر جواب دے گیا ، ہمت ٹوٹ گئی اور پیروں تلے سے زمین نکل گئی کیونکہ یہ میرا وہ بھائی تھا جس نے والد کے بعد مجھے والد کی جگہ دی گھر میں والدہ محترمہ میرے لیے سب کچھ تھیں تو باہر کی دنیا میں مجھے انگلی پکڑ کر لوگوں کی پہچان کروانے والا میرا بھائی تھا میری تعلیم اور بلخصوص میری سماجی سرگرمیوں پر گہری نگاہ رکھ مجھے دنیا کے مکروہ فریب سے بچانے والا یہی بھائی زندگی کے چند دنوں کے لیے ہمارے پاس مہمان بن گیا تو سب سے پہلے میں نے یہ بات امی جان کو بتائی کہ ڈاکٹرنے بتایاہے کہ بھائی سہیل اکبر اب صرف چند دن کا مہمان ہے یہ خبر کسی قیامت سے کم نہ تھی مگر میری امی جان نے میرے سامنے کوئی اشک بہائے بغیر اللہ تعالی کا شکر اداکرتے ہوئے کہا کہ اے مولا جہاں تو رکھے اور جو تیری مرضی ہم اس پر کیا کرسکتے ہیں مگر میرے بیٹے کو کوئی تکلیف نہ دینا تو ں تو غفورالرحیم ہے سب کچھ تیرے قبضہ قدرت میں ہے کیا ہی بہتر ہو کہ میرے بیٹے کوصحت اور تندرستی عطا فرمادے مگر اللہ کی رضاکے سامنے ہم سب بے بس تھے۔
پھر وہ دن بھی آگیا جب شیخ زید ہسپتال میں ہمارے پیارے بھائی جگر کے کینسر کے باعث ہم سے جدا ہوگئے ۔اللہ تعالی انہیں جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا فرمائے (آمین) جس وارڈ میں بھائی سہیل اکبر داخل تھے اس میں تقریبا 5مریض اسی نوعیت کے تھے جو درد کی شدت سے بلبلاتے رہتے تھے مگر میرے بھائی نے شدید درد میں بھی منہ سے اف تک کی آواز نہ نکالی جسے شاعر نے کچھ یو ں بیان کیا ۔”پی جا غم ایام کی تلخی کو بھی ہس کے ناصر ،قدرت نے غم کو سہنے میں بھی مزہ رکھا ہے” میرے یہ بھائی بھی صبر اورحوصلے میں اپنی مثال آپ تھے دوستوں کے دوست اور دشمن کوئی نہ تھا جہاں بیٹھتے جان محفل بن جاتے اور اکثر دوستوں کے جھمگٹے میں پائے جاتے شروع شروع میں والد صاحب کی موت کے بعد انکے پاس ابو کی موٹر سائیکل سوزوکی ہوا کرتی تھی اس وقت موٹرسائیکل بہت کم لوگوں کے پاس ہوتی تھی میں جب پانچویں کلاس میں پہنچا تو اس وقت بھائی نے مجھے سائیکل چلانا سکھائی تھی انکے سکھانے کا انداز بہت ہی نرالا اور آسان تھا پہلے اچھی طرح سمجھادیتے تھے بعد میں انسان بغیر کسی ڈر اور جھجک کے اس پر عمل کرلیتا تھامجھے بھی انہوں نے سائیکل چلانے کاطریقہ سمجھایا اور پھرہمارے گھر فتح شیر کالونی ساہیوال کے باہر ایک بڑی سی ڈھلوان پر سے مجھے نیچے دھکا دیدیا میں ڈگمگاتاہوا کبھی ایدھر تو کبھی اودھر ڈولتا ہوا۔
بلاآخر سائیکل پر قابوپانے میں کامیاب ہوہی گیا اس وقت چھوٹی سائیکل بہت کم ہواکرتی تھی بڑی سائیکل ہی سیکھنے اور پھر بعد میں چلانے کے کام آتی تھی۔ اسی طرح جب میں اپنے گورنمنٹ پرائمری سکول جے برانچ (گجر احاطہ) ساہیوال سے چھٹی کلاس میں داخلہ کے لیے گورنمنٹ بٹالہ مسلم ہائی سکول پہنچا تو پھر انہوں نے مجھے موٹر سائیکل بھی چلانا سکھا دی۔ مگر آٹھویں کلاس کے بعد میں نے باقاعدہ اسے چلانا شروع کیا اس وقت بھائی سہیل اکبر کے پاس سفید رنگ کی کار سوزوکی ایف ایکس ہواکرتی تھی جس پر وہ گورنمنٹ کالج ساہیوال جایا کرتے تھے یہ وہ دور تھا جب کالج کے طلبہ کے پاس موٹر سائیکلیں بھی بہت کم ہوا کرتی تھی جبکہ کالج کے لیکچرار بھی زیادہ تر سائیکل اور موٹرسائیکل استعمال کیا کرتے تھے اس وقت نئی کار 60ہزار میں مل جایا کرتے تھی جبکہ بھائی سہیل اکبر نے سیکنڈ ہینڈ کار35ہزار میں خریدی تھی جسے بعد میں انہوں نے اپنی مرضی کا رنگ بھی کروایا تھا۔
Education
جب میں نے 1989میں میٹرک پاس کرنے کے بعد گورنمنٹ کالج ساہیوال میں داخلہ لیا تو پھر انہوں نے مجھے کار چلانا بھی سکھا دی صرف ایک بار بتایا اور پھر میں آج تک نہیں گھبرایا ہاں ایک بار غلطی سے بریک دبانے کی بجائے ریس دبا دی تھی اور گاڑی سیدھی ہمارے گھر کی دیوار سے جاٹکرائی گاڑی کا تو کوئی خاص نقصان نہیں ہوا تھا۔ میری وجہ سے بہاولپور کے گاؤں سے بھائی کے رشتہ کے لیے آئے ہوئے ہمارے رشتہ دار ناراض ہوکر چلے گئے تھے جس کے بعد پھر بھائی سہیل اکبر کی شادی ساہیوال میں ہی ہوگئی اور ہماری بھابھی نے بھی کمال جرات اور محبت سے یہ رشتہ نبھایا اور پھر بھائی کی وفات کے بعد جس طرح انہوں نے اپنے تینوں بیٹوں محمد عبدللہ ،محمد احمد اور محمد علی کی پرورش کا بیڑا اٹھایااس نے ایک بار پھر میری امی جان کی یاد تازہ کردی ۔امی جان صبح جلدی اٹھنے کی عادی تھیں سب سے پہلے تہجد کی نماز پڑھنے کے بعد مختلف وظائف کرتی رہتی تھی جب نماز فجر کا وقت ہوتا ہمیں اٹھا کر گھر کے نزدیکی مسجد ایوب میں نماز اور قران پاک پڑھنے کے لیے بھیج دیتی اس وقت صبح کے وقت اٹھنا سب سے بڑی بہادری کا کام ہوتا تھا ایک طرف مزید سونے کو جی چاہتا تو دوسری طرف امی جان غصہ ہوتی اور آخر کار مسجد کی راہ لینا ہی پڑتی مسجد کے قاری صاحب بہت اچھے اور بھلے انسان تھے جو مسجد کے قیام سے لیکر شائد ابھی تک اسی مسجد میں امامت کروارہے ہیں بعد میں وہ پھر ایک سرکاری سکول میں عربی ٹیچر بھی بھرتی ہوگئے تھے۔
اللہ تعالی انہیں صحت تندرستی اور خوش وخرم زندگی سے نوازے(آمین)مسجد سے جب ہم بہن بھائی قران پاک کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد واپس گھر آتے تو امی جان لکڑی والے چولہے پر ہمارے لیے ناشتہ تیار کررہی ہوتی تھیں انکے ہاتھ کے گرم گرم پراٹھے اچار اور چائے کے ساتھ جو مزہ دیتے تھے وہ اور کسی کے ساتھ مزہ نہیں دیتے تھے ناشتہ کرنے کے بعد ایک روٹی اور تھوڑا سا سالن کسی کپڑے میں باندھ کر ہمارے بستے میں رکھ دیتی تھیں جو آدھی چھٹی کے وقت میں اپنے پرائمری سکول میں کھالیتا تھاہمارے چوتھی کلاس کے ٹیچر ریاض صاحب اور پھر پانچویں کلاس کے ٹیچر ماسٹر رمضان صاحب اتنے محنتی ،قابل اور لائق تھے کہ انکی وجہ سے ہمارا یہ سکول ضلع بھر میں بہت مشہور تھا۔
انہوں نے ہماری اردو کی ایسی تربیت کی کہ بعد میں ہم بغیر توجہ دیے ہی اس مضمون میں بہت اعلی نمبر حاصل کرتے رہے ہمارا تلفظ اس قدر بہتر ہوگیا کہ شائد ہی کبھی آج تک ہم نے اردو کے معاملہ میں کبھی کوئی ڈکشنری دیکھی ہو سکول میں ظہر کی نماز باجماعت ہوتی تھی جو کم از کم آدھا گھنٹہ بعد اختتام پذیر ہوتی تھی اس میں ایک لڑکا جماعت کرواتا جو پوری نماز بڑی قرات کے ساتھ اونچی آواز میں پڑھتا تھااور اسکے پیچھے پیچھے ہم باآواز بلند اسکے دھرائے ہوئے الفاظ اداکرتے تھے سکول ٹائم کے بعد ماسٹر رمضان صاحب تقریبا پوری کلاس کو مفت میں ٹیوشن پڑھاتے تھے ایسے استاد آجکل کہا ں ہیں جو طلبہ کو اپنے بچوں کی طرح پیار کریں۔