ماں جی اک سوال

Army Public School Attack

Army Public School Attack

تحریر: ایم آر ملک
نفرتوں کی فضا کی شدت سے ہونٹ نیلے پڑنے لگے ہیں، سوچ کا تیر لباس کو تار تار کر رہا ہے، سارے منظر لہو میں نہائے ہوئے ہیں ،فضائوں میں اداسیوں کے رنگ بکھرے ہیں، ہوائوں میں دکھ سرسراتے ہیں ،دماغ میں خیالات کے ہجوم اور دل میں کربلا برپا ہے گردش لیل و نہار اس موڑ پر لے آئی ہے جہاں ہر لمحہ حیات سانحوں سے عبارت ہے نوک قلم سے نکلنے والے الفاظ حقائق سے آنکھیں چرا رہے ہیں سینے کا کرب سینے میں ہی ہچکیاں بھر رہا ہے 8دسمبر کی سحر تو ابھی چند گھنٹوں کے فاصلے پر تھی شب کے پچھلے پہر ستارے نیم سرد ماحول میں جاگ رہے تھے البتہ ابتدائی راتوں کا چاند اپنا سفر تمام کر کے فلک کی آغوش میں سو چکا تھا مائوں نے نماز تہجد اور اذکار کے بعد اپنے لخت جگروں کیلئے ناشتے کی تیاری باندھی، اور وہ قدم جو درسگاہ کی جانب اُٹھے واپس نہ لوٹ سکے، جسموں کے چیتھڑے اُڑ گئے نورِ ایمان سے ننھے منور سینے گولیوںسے چھلنی ہو گئے مما ،پاپا کے الفاظ سے سکون پانے والے دل خاموش ہوگئے قلم تھامے ہاتھ خون خون ہوئے ،چاند چہرے خون میں نہاگئے آنکھوں میں جلتے آرزوئوں کے دیئے بجھ گئے ،ممتا کی آغوش میں پڑے کسی زخمی بچے کی کراہ لیڈی ریڈنگ ہسپتال کے خون آلود بستر پر یوں سنائی دیتی ہے ”ماں سرد ہوا ئیں جسم کو چیرتی ہیں ،کاکلیں ہمیشہ کی جدائی کی گرد سے اٹی ہیں ،مائوں کی نگاہوں میں انتظار کا نیلا عکس جھلکنے لگا ہے ،رحمان بابا کی وہ دھرتی جہاں محبتوں کے پھول آنے کی توقع تھی وہاں احساس کے شیشے پر کرختگی کے پتھر برسنے لگے ہیں۔

بے حسی ،بے بسی اور لاچارگی کی جو بھی انتہا ہو سکتی ہے اُس کی تصویر ہم تمام وطن باسی ٹھہرے بہت سال پہلے کی بات ہے میرا بچپنا تھا ماں جی آٹا گوندھ رہی تھیں ماں جی آٹا گوندھ کر وہاں سے اُٹھ گئیں اُنہوں نے تھوڑا سا آٹا چڑیوں کیلئے چھوڑدیا اُن کے جاتے ہی چڑیوں کا ایک جھار سا آگیا میں یہ سب کچھ کھڑا درخت کے پیچھے دیکھ رہا تھا میں نے ایک پتھر اُٹھایا اور چڑیوں کے اُس جھار پر دے مارا باقی چڑیاں تو اُڑ گئیں لیکن ایک چڑیا کو وہ پتھر ایسا لگا کہ اُس کے چیتھڑے ہو گئے ماں جی نے مجھے ایسا ڈرایا کہ اس کا تجھے قیامت والے دن جواب دینا ہوگا بعد میں یہ خوف مجھے ڈراتا رہا اکثر شاموں کو میں پریشان ہو جاتا کئی برس گزرنے کے بعد آج جب میں وطن عزیز کے شہروں میں انسانوں کے چیتھڑے اُڑتے دیکھتا ہوں تو سوچتا ہوں کہ ماں جی سوال کروں کہ اس کا جواب کون دے گا ؟
تنویر سپرا نے کہا تھا اور سچ کہا تھا کہ
اظہار کا دبائو کتنا شدید تھا الفاظ روکتے ہی میرے ہونٹ پھٹ گئے

اور ایسے واقعات پر تو پاک دھرتی کے ہونٹ بھی پھٹنے لگے ہیں کہ جس کی فضائوں کے سینے درد سے بوجھل ہیں ،جس کی ہوائوں میں لہو کا شور بڑھتا جارہا ہے ،جس کی گود معصوم بچوں کی لاشوں سے بھرتی جارہی ہے ،جہاں لا الہ الا اللہ کی صدائیں آنسوئوں سے نم ہیں ،اقتدار کی ہوس کے اندھے جس کی سلامتی سے بے نیاز ہو رہے ہیں اور دشمن ہے کہ کھو کھلا کرتا جارہا ہے ،مسجدوں کی رونقیں سنگینیوں نے چھین لیں ،مما ،پاپا جیسے الفاظ ادا کرنے والے ہونٹوں پر قفل لگ رہے ہیں مورخ وقت اپنے لہو میں غلطاں تحریر رقم کر رہا ہے ،بے گناہ معصوم شہری موت کے دست پہ حیراں ہیں قاضی وقت اپنی لاش پر کھڑا اپنا جرم پوچھ رہا ہے،انصاف کو دیس نکالا کبھی کا مل چکا ،میرے بچوں کے بدن اتنے بے مول کب سے ہو گئے ؟میں قربانیوں کا مسکن اور شہیدوں کی سر زمین ہوں ،میرا وقار میرا بلند بخت آج سوالیہ نشان بنا سوختہ ہو چکا۔

Pakistan

Pakistan

پیارے پڑھنے والو ! احساس کی آنکھیں کھول کر دیکھو اک ستم یہ بھی ہوا ہے کہ جب سے انسان نے خلا کو پار کرکے چاند ستاروں پر قدم رکھنا شروع کر دیئے ہیں ہم نے آسمان کی جانب نظر اُٹھا کر دیکھنا بھی چھوڑ دیا ہے ورنہ ایسی کیفیت میں پہلے زمانے کے لوگ نظریں اُٹھا کر آسمان کو تکا کرتے تھے جھولی پھیلا کر اوپر والے سے مدد مانگا کرتے تھے وہ ذات جو سب سے بڑا محتسب ہے ،داور ِ محشر ہے جدت کے خمار نے ہم سے ہمارا یہ آسرا بھی چھین لیا۔

جذبوں کی نمی لئے میرے الفاظ شاید آپ کو بھی دل گرفتہ کر جائیں مگر کیا کیجئے اک اضطراب ،اک بے چینی قدرت کی طرف سے ہم لکھنے والوں کے وجود میں گوندھ دی گئی سانحہ پشاور کے دل دہلادینے والے مناظر دیکھ کر ایسے لگا کہ بینائیاں جیسے اُنہیں سمیٹنے سے معذور ہیں اعصاب شل اور آنکھیں بنجر جہاں انسان بے بسی کے گلے لگ کر روتا ہے اور ساعتیں تو وہی عذاب بنا کرتی ہیں جب ملک کے مستقبل کی معصوم تصویریں بکھرتی ہیں کیا ہم لاعلم ہیں ؟واہگہ باڈر پر کس نے لہو کی بساط بچھائی ؟ہر کوئی جانتا ہے مگرمصلحت کی اُس چادر کو ہمارا حکمران طبقہ اُتارنے پر تیار نہیں جو اُس نے اوڑھ رکھی ہے اور اس ماں دھرتی کو اتنا خطرہ دشمنوں سے نہیں جتنا خطرہ اُن قوتوں سے ہے جو اپنی ماں کے خلاف اُس کا حسن چاٹنے والی دشمن قوتوں کو سپورٹ کرتی ہیں ہم اتنی بڑی تعداد میں ہونے کے باوجود مار کھارہے ہیں اس کی وجہ صرف اور صرف ہمارے اندر کے میر جعفر ،میر صادق ہیں ہمیں آج میدان ِ عرفات والی مرکزیت کو زندہ کرنے کی ضرورت ہے لیہ کے اپنے پیارے دوست فراق حیدر ی (مرحوم ) کے اس شعر پر اختتام

شہر ِ شورش زدہ کی کہانی نہ پوچھ
جو بھی چہرہ ملا خوں سے تر ملا

M R Malik

M R Malik

تحریر: ایم آر ملک