ماں

Mother

Mother

تحریر : عمارہ کنول
جب میں نے پہلی بار دنیا میں آنکھ کھولی تو اس لمحے ایک مہربان چہرے کی مسکراہٹ نے میرا استقبال کیا۔ وہ میری ماں تھی۔ تب ادراک ہوا کہ میرے وجود کو اپنے وجود کے لہو سے سینچا ہے اس ماں کے بطن نے نو ماہ،اور پھر بقا وفنا کی جنگ لڑ کر موت کو شکست دے کر ایک زندگی پیدا کی اس عورت نے جسے ماں کہتے ہیں۔ اتنا ہی نہیں جب میں پہلی بار مسکرائی تو اس کے ہونٹوں سے نکلا ماں صدقے۔ جب میں نے پہلی بار بھوک سے بلبلا کر ماں پکارا تو اپنا خون جگر پلایا اور ڈھائی سال تک بنا ماتھے پر شکن ڈالے پلاتی رہی۔ جب میں نے لڑکھڑاتے ہوئے پہلا قدم اٹھایا تو وہ سجدے میں گر گئی۔ کہ آج اس کی تخلیق نے قدم جمانا شروع کر دیا۔

کیا ہستی ہے ماں کہ وہ خالق جو شرک کو ناپسندیدہ قرار دیتا ہے اپنا ایک وصف عطا کرتا ہے ماں کو،تخلیق کا وصف۔ کیا میرے الفاظ اس ماں کی عظمت کا احاطہ کر سکیں گے جو اللہ کے عطا کئے وصف کے ساتھ تخلیق کار بھی ہے اور جس کے قدموں تلے اللہ نے وہ رکھ دی جسے پانے کی تگ ودو میں انسان تاحیات اچھا بننے کی کوشش کرتا رہتا ہے۔

ماں۔ایک ایسا لفظ جسے سن کر اگر آنکھیں نم ہو جاتیں ہیں تو دوسرے لمحے ایک شفیق مسکراہٹ سے سجے چہرے کا عکس نظر وں کے سامنے لہرا جاتا ہے۔ ماں وہ ہستی جو اپنی اولاد کے لیے دنیا کیا اللہ سے بھی الجھ جاتی ہے وہ جس کی دعا رب تعالیٰ رد نہیں کرتا تو بددعا عرش بھی ہلا دیتی ہے۔ ماں وہ کہ جب حضرت موسیٰ کلیم اللہ اپنی ماں کے وصال کے بعد کوہ طور پر تشریف لے گئے تو صدا آئی۔ سنبھال کر آنا کہ اب پیچھے ماں کی دعا نہیں ہے۔

ماں جو اپنے وجود کے حصے کو پالنے کے سو جتن کرتی نجانے کتنی تکلیفیں جھیلتی۔پرورش کرتی اور پھر اس تخلیق میں کسی کو ساتھ شریک بھی کر لیتی۔ وہ اپنی اولاد کو کسی کا ہمسفر تو بنا دیتی مگر اس کے لب کسی لمحے ساکن نہیں رہتے وہ بس دعا کرتی رہتی۔ وہ ماں جسے مرتے دم یہ خیال رہتا کہ میرے بچوں کا کیا بنے گا۔ وہ جو اپنی جان دے کر اپنے بچوں کو بچا لیتی اس ماں کی عظمت کے لیے دنیا کے سب الفاظ ناکافی ہیں ہیچ ہیں۔ وہ جس کے سانس کے ساتھ ہم پہلی سانس لیتے وہی ہمارا رب ہوتی وہی رازق۔ اور پھر وہی کتی نا بیٹا میں نہیں وہ رب اللہ ہے،حالانکہ ہم نے اللہ کہنے سے بھی پہلے جو لفظ کہا ہوتا ہے وہ ہے ماں۔ کیا چٹان سا حوصلہ ہوتا ہے اس ماں کا جو اپنے جوان بیٹے اپنی تخلیق کو سرحد کی حفاظت کے لیے بھیج دیتی ہے۔

اس ماں کی عظمت کوساری دنیا کا سلام۔ ماں ہم تیرے پیروں کی خاک نہیں۔ دنیا پیروں فقیروں کے چکر لگاتی ایک بار ماں سے دعا کروا کہ بھی دیکھ لے اور کیسی بات ہے کہ چاہے سگی نا بھی ہو ماں صرف ماں ہوتی ہے۔ جو ایک کی ماں وہ سب کی ماں۔ وہ ماں جو اپنی ایک نظر سے آپ کے اندر کا سچ جان لیتی ہے۔ وہ ماں جس کا غرور اس کے بچے کی کامیابی ہے۔

مجھے آج بھی یاد ہے جب میں نے اپنا پہلا شائع شدہ کالم اپنی ماں کو سنایا تو وہ آبدیدہ ہو گئیں اور بولیں آج تم نے میری تربیت کا حق ادا کر دیا ہے،لیکن میں کہتی ہوں ماں آپ کے جانے کے بعد لگا کہ میرے الفاظ گونگے ہیں اور جذبے بہرے۔ میں ابھی اس قابل کہاں کہ آپ کے دودھ کے ایک قطرے کا بھی قرض اتار سکوں۔ میری مجال کہاں کہ ماں کی عظمت بیان کر سکوں ماں۔ یہ تین الفاظ ہی مجھ سے روٹھ سے گئے ہیں جب سے تم گئی ہو۔

Ammarah Kanwal

Ammarah Kanwal

تحریر : عمارہ کنول