ماؤں کے لعل

Mother And Child

Mother And Child

تحریر: ممتاز ملک پیرس
آج یورپ میں اتنے سال گزار کر بھی کبھی کبھی ایک ٹیس سی ضرورو اُٹھتیہے دل میں کہ کاش اپنا ملک کبھی روزگار کے غم میں نہ چھوڑنا پڑتا۔ مگرکہتے ہیں نا کہ تجھ سے بھی دلفریب ہیں غم روزگار کے تو بس وہی مجبوریاں ہم پاکستانیوں کی اکثریّت کومادرِ وطن کی گود سے نکالکروقت کی بے رحم گود اور زمانے کی بھرپور ٹھوکروں میں لا پٹختی ہیں ۔ایک بار یورپ کو آسان چارہ سمجھنے والے نجانے کتنے سال تک واپسی کا راستہ بھی بھول جاتے ہیں ۔کیوں کہ یہاں آکر پتہ چلتا ہے کہ پہلے تو یہاں پہنچنا جوۓ شیر لاناتھااب یہاں کمانا ؛اپنا خرچ پورا کرنا اور پھر اس میں سے بچا کر اپنے آنے جانے کے ٹکٹ کے لیۓ رقم بچانا بھی کوئ مذاق نہیں ہے۔

چھوٹی چھوٹی عمر کے لڑکوں کو جب ایفل ٹاور یاشانزے لیزے جیسی مصروف شاہراہوں پرپھولوں کی چند ٹہنیاں پکڑے یا تھیلے میں چند کھلونے ڈالے پولیس سے آنکھ مچولی کھیلتے ؛بچتے بچاتے ایک ایک کو روک کر ان سے خریدنے کی درخواست کرتے ؛ اور پولیس کی گاڑی نظر آتے ہی معصوم پرندوں کی طرح پھڑ پھڑا کر بھاگتے چھپنے کی جگہ ڈھونڈتے ہوۓ دیکھتی ہوں تو دل خون کے آنسو روتا ہے وہ لوگ جن کے پاس مکمل قانونی دستاویزات نہیں ہوتیں انہیں یہاں رہتے کے لیۓ سالوں ایسے عذاب جھیلنے پڑتے ہیں ۔اپنے ملک میں ماؤں کے لاڈ سے بگاڑے ہوۓ یہ بچے بارہ بجے آنکھیں ملتے ہوۓ

جھگیوں میں بیٹھ کر بھی نہاریوں کے ناشتے کرنے والے یہ بچے؛پڑھائیوں میں دسویں بھی مرمر کر پاس کرنے والےیہ لڑکے جو اپنےملک میں اپنے باپ دادا کے کاروبار کو اپنانا یا ہاتھ بٹانا بھی شایانِ شان نہیں سمجھتے۔کسی بھی پیشے کو اپنانا ہتک سمجھتے ہیں اور خود کو بائیسویں گریڈ سےنیچے کی نوکری کے لائق نہیں سمجھتے کو جب یہ سب جھیلنا پڑتا ہے تو پاکستان بہت یاد آتا ہے۔نوالے بنا کر منہ میں رکھنے والی ماں بھی بہت یاد آتی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جب کوئ شخص بھی یہاں رہنے کے لیۓ انہیں ایک کمرہ تک کراۓ پر نہیں دیتا (کیوں کہ یہاں پر رہائشی قوانین بہت سخت ہیں ) تو انہیں اپنے ملک کی کچی کوٹھری بھی بہت یاد تی ہے

Colds

Colds

یورپ میں عموما سال کے آٹھ مہینے تو سردی پڑتی ہے بلکہ شدید ٹھنڈ پڑتی ہے جو رگوں میں حقیقتا خون کو جما دےایسے میں بنا رہائش کے یہ لوگ کیسے اپنے سونے کے لیۓ جگہ ڈھونڈتے ہیں اگر اِن ماؤں کو پتہ چل جاۓ تو شاید وہ یورپ کا نام لینا بھی پسند نہیں کریں گی ۔کئ بار یہاں سونے کے لیۓ جگہ نہ ملنے پریا کسی دفتر کے سامنے کئ گھنٹے باری نہ آنے اور باری آنے پر کاؤنٹر بند ہونے کی اذیّت سے بچنے کے لیۓ رات کے دو دو بجے ہی لائن میں لگ جاتے ہیں اتنی شدیدٹھنڈ میں کئ لوگ اکڑ کر موت کی وادی میں پہنچ جاتے ہیں ۔کبھی تو یہاں چندے کا انتظام ہو جاۓ تو مائیں ان کا میّت بھی دیکھ پاتی ہیںورنہ ساری عمر بیٹوں کی راہ دیکھتی رہ جاتی ہیں ۔

زندہ رہ جائیں تو ان کی مائیں بہنیں اور دوسرے رشتہ دار انہیں سولی پر ٹانگے رکھتے ہیں ۔کہ بیٹا یورپ میں خود تو عیش کر رہے ہو ہمیں بھول گۓ۔بس یہ ہی باتیں نہ سننے کے لیۓ یہ لڑکے کئ بار تو اپنی خوراک تک پر مناسب رقم خرچ نہیں کرتے ۔اپنے کپڑے تک سالوں سال تک چلاتے ہیں ۔کیوں کہ فرمائشوں کی ایک لمبی لسٹ اس قربانی کے بکرے کے خوابوں میں آکر بھی اسے ڈراتی رہتی ہے جو کبھی بھی ختم نہیں ہوتی ۔یہاں تک کہ بہت کم یورپ میں رہتے لڑکوں کو دیکھا ہے کہ جن کی شادیاں بھی پینتیس یا چالیس سال سے پہلے کسی ماں یا بہن نے ہونے دی ہو ۔وہ بھی اس وقت جب لڑکا خود کوئ آواز اٹھانا نہ شروع کر دےکیوں کہ یہ لڑکے ماؤں کے لیۓ ان کی نسل یا ارمان نہیں رہتے لاٹری کا ٹکٹ بن چکے ہوتے ہیں۔

Wedding

Wedding

ان کی شادی کی صورت میں یہ لاٹری کے ٹکٹ انہیں اپنے ہاتھوں سے جاتے ہوۓ محسوس ہوتے ہیں اور اگر لڑکے کے مجبور کرنے پر اس کی شادی کر بھی دیں کہ لڑکا کہیں میم نہ کر لے توپاکستان میں رہنے والی ماں بہنیںاپنی بیوی کو یہاں لانے کے بعد واپس پاکستان جب بھی پہلے دورے پر جاتا ہےتو اسّی فیصد گھروں میں اس لڑکے کی واپسی تک اس کے طلاق کروائ جا چکی ہوتی ہے۔اس کا ثبوت یہاں پر مقیم شادی شدہ پاکستانی لیگل مردوں کا سروے کر کے کیا جا سکتا ہے تقریبا ہر آدی کی کم از کم ایک منگنی ؛نکاح یا شادی ختم کروائ جاچکی ہوتی ہے اس کی اپنی ماں بہنوں کے ہاتھوں۔

میں نے خودکئ نندوں کو یہ کہتے سنا کہ بھائ تو ہمیں بہت اچھا لگتا ہے مگر اس کی بیویہمیں ایک آنکھ نہیں بھاتی حالانکہ ان کی بھابیاں خوبصورت بھی تھیں سگھڑبھی تھیں اور پڑھی لکھی بھی تھیں ۔لیکن ان کا جرم شاید یہ تھا کہ وہ ان کےیورپ میں مقیم بھائ کی بیوی تھیں ۔جو اس کی کمائ کو ان تک پورا پہنچنےمیں رکاوٹ بن گئ تھی کیونکہ اسے وہاں اپنا گھر بھی چلانا ہے۔لیکن ایک باریہ مرد جب اپنا گھر ماں بہنوں کی محبتوں میں قربان کر دیتے ہیں تو آنکھوں سے پٹی اترنے کے بعد انہیں گھر والوں سے متنفّر اور محتاط بھی ہو جاتے ہیں ۔اور دوبارہ اپنا گھر خراب کرنے پر اتنی آسانی سے تیار نہیں ہوتے۔

Mumtaz Malik

Mumtaz Malik

تحریر: ممتاز ملک پیرس