موٹر وے گینگ ریپ: پیمرا کی طرف سے رپورٹنگ پر پابندی کی مذمت

Protest

Protest

اسلام آباد (اصل میڈیا ڈیسک) پاکستانی حکام نے ایک موٹر وے پر ایک خاتون کے اس کے بچوں کے سامنے حالیہ گینگ ریپ کی رپورٹنگ پر پابندی لگا دی ہے۔ اس ریپ کی عالمی سطح پر سخت مذمت کی گئی تھی۔ اب رپورٹنگ پر پابندی کی بھی شدید الفاظ میں مذمت کی جا رہی ہے۔

پاکستانی دارالحکومت اسلام آباد سے ہفتہ تین اکتوبر کو ملنے والی رپورٹوں کے مطابق اس واقعے میں ایک خاتون کے ساتھ کی جانے والی اجتماعی جنسی زیادتی پر اس لیے بھی غیر معمولی غم و غصے کا اظہار کیا گیا تھا کہ اس جرم کے ارتکاب کے بعد ایک اعلیٰ پولیس افسر نے اس کا ذمے دار خود اس ظلم کا نشانہ بننے والی خاتون کو ہی قرار دے دیا تھا۔

اس جرم کے حوالے سے ملک میں الیکٹرانک میڈیا کی کارکردگی پر نظر رکھنے والے سرکاری ادارے پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) نے اب تمام ملکی ٹیلی وژن چینلز اور اخبارات کی طرف سے اس جرم کی رپورٹنگ پر پابندی عائد کر دی ہے۔ اس رپورٹنگ کے حوالے سے پولیس نے یہ موقف اختیار کیا تھا کہ جس طرح میڈیا اس واقعے کی ‘غیر ذمے دارانہ‘ رپورٹنگ کر رہا ہے، اس طرح اس جرم کے شواہد ضائع ہو سکتے ہیں۔

پاکستان کے دوسرے سب سے بڑے شہر لاہور کے مضافات میں ایک موٹر وے پر اپنے بچوں کے ساتھ اپنی گاڑی میں رات کے وقت سفر کرنے والی اس خاتون کا گینگ ریپ گزشتہ ماہ کیا گیا تھا اور اس کے خلاف انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیموں اور حقوق نسواں کے لیے سرگرم گروپوں نے بہت بلند مذمتی آوازیں اٹھائی تھیں۔

اس جرم کے ارتکاب کے بعد پاکستان میں انسانی حقوق کی تنظیموں کے علاوہ انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے بھی مطالبہ کیا تھا کہ مقامی پولیس کے اس اعلیٰ افسر کو برطرف کیا جائے، جس نے یہ کہا تھا کہ اس جرم کی ذمے دار خود متاثرہ خاتون بھی تھی، کیونکہ وہ اپنے کم عمر بچوں کے ساتھ رات کے وقت سفر کے لیے اکیلی گھر سے نکلی ہی کیوں تھی؟

اب تک پولیس اس جرم کی تفتیش کے دوران ایک مشتبہ ملزم کو گرفتار کر چکی ہے۔ دوسرا ملزم، جو اس جرم کا مبینہ طور پر مرکزی کردار ہے، ابھی تک گرفتار نہیں کیا جا سکا۔ اسی بات پر ملکی میڈیا میں شدید تنقید کی جا رہی تھی، جس کے بعد اب پیمرا نے اس کیس کی میڈیا رپورٹنگ پر ہی پابندی لگا دی ہے۔

پیمرا کی طرف سے لگائی گئی اس پابندی پر پاکستانی صحافیوں کے وفاقی تنظیم پی ایف یو جے کے ایک مرکزی رہنما افضل بٹ نے کہا، ”قانون نافذ کرنے والے ادارے اپنی ناکامی کے لیے میڈیا کو ذمے دار ٹھہرا رہے ہیں اور اسی لیے پیمرا کی طرف سے لگائی جانے والی پابندی حکومتی سطح پر سنسرشپ کی سیاہ مثال ہے۔‘‘

اسی طرح انسانی حقوق کے تحفط کے لیے فعال پاکستان کے ہیومن رائٹس کمیشن (ایچ آر سی پی) نے بھی پیمرا کی طرف سے لگائی گئی پابندی کو ‘لایعنی‘ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت اپنی ناکامیوں کو چھپانے کے لیے ‘قربانی کے بکرے‘ تلاش نہ کرے۔

پاکستان میں صحافیوں کی ملکی تنظیموں، انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے سرگرم غیر سرکاری اداروں اور وکلاء کی نمائندہ بار کونسلوں کے مطابق جب سے 2018ء میں وزیر اعظم عمران خان کی حکومت اقتدار میں آئی ہے، تب سے حکومت اپنے خلاف اٹھنے والی تنقیدی آوازوں کو دبانے کے لیے ایک باقاعدہ مہم جاری رکھے ہوئے ہے۔

سول سوسائٹی کے نمائندہ ان گروپوں کے مطابق عمران خان کے دور اقتدار میں ملکی حکومت اور فوج پر تنقید کرنے والے صحافیوں کو حملوں، مار پیٹ، ڈرانے دھمکانے اور انہیں آن لائن ہراساں کیے جاے کا سلسلہ جاری ہے۔