یہ جو مرے اندر کا شاعر ہے۔ بار ہا میں نے یہ چاہا میں اِسے مار دوں۔مگر یہ ہے کہ ہمیشہ مرے وجود کو اپنے سحر میں جکڑ لیتا ہے۔ میں نے آٹھ اکتوبر کے زلزلے میں المہران ہوٹل کے چھت تلے دبانے کی بھی بھرپور کوشش کی اِسے۔ مگربے سود بے کار یہ پھر سے ابھر آیا۔ میں نے اِسے پیزہ ہاٹ کے ڈشواشنگ سیکشن میں پلیٹوں تلے دے کے مارنا چاہا مگر یہ ہیکہ ہمیشہ اک نئے جذبے اک نئے روپ کے ساتھ پھر سے پنپنے لگا دل میں مرے۔
میں نے لاہور کی سڑکوں پہ کسی کار کے نیچے دے کے روندنا چاہا اسے مگر بے سود بے کار۔ مرے اندر کا شاعر مجھے ہمیشہ نت نئے راستے دکھاتا رہا مجھے ساری ساری رات اس نے سونے نہیں د یا تڑپاتا رہا۔ مجھے اس سے جہان نفرت ہے وہاں ہی کہیں الفت بھی ہے محبت بھی ہے۔ شاعری مرے روشن مستقبل کی نوید ہے عید ہے عید ہے۔
میں نے چاہے کے غمِ حسین میں آنکھوں سے بہہ جائے مگر بے کار بے سود ۔یہ شاعر جو کسی بوڑھے جوگی کی طرح ہے(برگد کے پیڑ کے نیچے) بیٹھا رہتا ہے جو۔ یا یہ اُس بچے کے طرح ہے جسے ماں مارتی ہے پیٹتی ہے اور روپڑتی ہے۔ پھر معصومیت ہے ماں سے پوچھتا ہے ممی آپ روتی کیوں ہو۔آخر آپ کو ہوا کیا ہے۔اور ماں اُسے چومتی ہے اور چوم کے سینے سے لگا لیتی ہے۔
Poetry
بچہ ہے کہ کیا ہے مرے اندر کا شاعر۔ مجھے کچھ بھی کچھ بھی معلوم نہیں۔ کھلونوں سے نہ بہلتا ہے نہ جسے زر اور زمیں کی ہوس ہے۔ ناں ہی قتل طوفانوں سے ڈرتا ہے یہ۔ پتہ نہیں آخر ہے کیا چیز جو مجھے کسی کا بھی ہو کہ رہنے نہیں دیتا۔ ہمیشہ ایک ہی دھن میں لگا رہتا ہے۔ شاعری کرو شاعری کھائو شاعری پیئو شاعری جیئو شاعری مرو۔
میں نے اِس شاعر کو پیزہ اوون کی فل ہیٹ کے آگے جلا کے مارنا چاہا مگر یہ تو تپ کے کندن بن گیا۔ ”plz pray for me that i will be able to make a world record”
بار ہا میں نے اِسے نکیل ڈال کے رکھنا چاہی۔ بیڑیوں میں جھکڑا۔ اِس کی چھاتی میں چھرا گھونپ کے پہاڑوں سے نیچے پھنکنا چاہا۔ برف میں ٹھٹھر کے مار دینا چاہے۔ ننگے پائوں ننگے سر گھر سے نکال دیا اِس کو پھر بھی بے کار گیا بے سود گیا مراوار۔ پتہ نہیں کس مٹی کا بنا ہے یہ مرے اندر کا شاعر۔ بار ہا اِسے کہا جائو ”دفا ہو جائو کہیں اور جابسو لوگ ہی مرتے ہیں تم بھی کہیں جا مرو”
مگر یہ اُس ہرجائی کی طرح ہے جو جہاں بھی گیا لوٹا تو مرے پاس ہی آیا۔سچ کہوں تو مرے وجود کو اِس کے نرم و گداز بوسے بہت سرشار رکھتے ہیں۔اِس کی انگلیوں کا لمس مجھے پاگل بنائے رکھتا ہے۔ مری روح سے اِسے بہت پیار ہے۔ دونوں ایک ہی ساتھ اب مجھے چھوڑکے جائیںگے کہیں بھی گئے تو۔
میں مہران علی اکبر قریشی سابقہ ناظم یو سی پٹن کلاں ایبٹ آباد المہران ہوٹل والے کا بیٹا ہوں۔اور مجھے یہ شرف بھی حاصل ہے کہ میں نے پوری یو سی میں واحد شخص ہوں جس نے کتاب لگی ہے۔ جو ”ماں ترے چمپئی پیروں کی تب و تاب ”کے نام سے مارکیٹ میں دستیاب ہے اور اس سے پہلے کمپوزنگ میں اسلامی دستورِ حیات کے نام سے پاکٹ نسخہ بھی لکھ چکا ہوں۔ میں نے ملک اور قوم کا نام روشن کرنے کے لئے گینیز بک آف ولڈ میں اپلائی کیا ہوا ہے۔ again plz pray for me that i will be able to make a worl record.
اور یہ سب کچھ مرے لکھنے کا مقصد بھی یہ ہی ہے کہ دنیا کو بتایا جا سکے ہم جہاد صرف اسلحہ سے ہی نہیں کرتے۔ ظلم کو ظلم ہی کہتے ہیں کسی کے باپ سے نہیں ڈرتے۔
مری تحریریں فیس بک پر پڑھنے کے لئے M3000333@gmail.com اور مجھ سے رابطہ کہ لئے۔