ماتم ماتم صف ماتم

Injured Student

Injured Student

تحریر : راشد علی اعوان
حلق خشک، زبان شل، جسم بے جان، مذمت باعث ندامت، روئوں پیٹوں، کس کے کندھے پر سر رکھوں، قیامت سے پہلے قیامت، سکون غارت، تعزیت گالی، سوگ طعنہ لگ رہا ہے، کوئی لفظ، کوئی پْرسہ، اِن زخموں کا مداوا نہیں، کوئی سزا اس جْرم کے شایان نہیں، کوئی حیلہ، کوئی بہانہ، اس غفلت سے فرار مہیا نہیں کر سکتا، دعا بے معنی، بد دعا مہمل سی ہو گئی ہے، اقدامات ملعون لگ رہے ہیں، سب مطلب کے یار سب کو اپنے اقتدار کی فکر، کوئی کرسی کا بھوکا تو کوئی کرسی بچانے کا حریص، بیانات غلیظ بول و براز کا ڈھیر، کوئی سچ بھی پورا نہیں بتا رہا، کیسے تیار ہو کر گئے ہوں گے۔

معصوم ہتھیلیوں کی لکیروں پر کیا لکھا تھا اور کس نے ان کی قسمت سے پہلے ان کے چاہنے والوں کو بدقسمت بنا دیا، لنچ باکس سے کیا کھایا کیا چھوڑا کس سے پوچھوں، ہوم ورک کا کیا ہو گا اب، سردیوں کی چھٹیاں اللہ کے پاس، یا اللہ وہ فرشتہ کہاں ہے جو بستیاں اْلٹتا تھا ؟؟یا اللہ سب معمول کے مطابق کیوں ہے ؟؟ یا اللہ کوئی عمر ہمارے نصیب میں نہیں تو کوئی ہلاکو ہی ہم پر مسلط کر دے کہ ایک ساتھ بیس کروڑ کھوپڑیوں کا مینار بنا دے، یا اللہ اب مزید تھوڑا تھوڑا نہیں مرا جاتا، یااللہ یہ کیا ہو گیا، کاش یہ منظر جھوٹا ہو، یہ میری غلط فہمی ہو، اے اللہ جی یہ بس صرف ڈرائونا خواب ہی ہو بس ہم توبہ کرتے ہیں اپنے گناہوں پر نادم ہیں اے اللہ جی ہمارے گناہوں کی سزا ہمیں ہی دینا اے اللہ پاک میرے ملک کے ہر معصوم کلی کی حفاظت فرما، پشاور میں یہ کیا ہوگیا یا رب العالمین تو تو70مائوں سے زیادہ پیار کرنے والا ہے یاخدا تیری خدائی میں اس قدر ظلم عظیم جنہیں انسان پکارنا بھی تیری اس کائنات میں انسانیت کی تذلیل ہو چکا۔

یا رب کائنات یہ کیسے پتھر دل ہیں جنہیں رحم بھی نہیں آیا یہ کیسے لوہے کے بنے جگر ہیں جن کی عقل سمجھ اور بوجھ سب غارت ہو گئی، یااللہ تیری خلقت میں تو انسان پرتو کیا کسی جانور پر بھی ہاتھ اٹھانا تصور سے باہر سخت ترین ممانعت میں ہے پھر یہ کیسا دین ہے یااللہ جی یہ کونسا نظام نفاذ چاہتے ہیں یارب ذوالجلال ان معصوم کلیوں کا کیا قصور تھا کیا غلطی ان سے سرزد ہو گئی، ہم کون ہیں؟ تیری رضا یا رب کائنات اگر معصوم کلیوں کو نوچ کر حاصل کرنا ہے تو میری توبہ ہے، میں تو اس دین کا پیروکار ہوں یا کریم ذات جس میں رحم ہے،،جس میں ہمدردی ہے اور جس میں احساس ہے جس میں یارب تیری بندگی ہے اور تجھ سے ہی مدد ہے اور تجھ سے طلب ہدایت ہے اور تجھ سے ہی صراط مستقیم کی آرزو ہے، رحم یا الرحم الراحمین رحم، آہ دیکھ لیا میں نے پشاور لہو لہو اور لوگو تم بھی دیکھومعصوموں کے سینوں میں آگ اور بارود سے دہکتے گولے، لوگو! غور سے دیکھو نظام عدل کے نام پرانسان کے بچوں کے جسموں کے چیتھڑے اڑا دیئے گئے۔

Dead Body

Dead Body

ذراتم پشاور کی طرف دھیان تو دو، اس قدر ظلم اور خونریزی پر بھی چشم ضمیر میں جنبش پیدا کیوں نہیں ہوتی؟ میرے دیس میں میریبچے سفاکیت کے ساتھ خون میں نہلا دیئے گئے اتنی ہی تعداد میں برائلر مرغوں کو بھی تڑپا تڑپا کر مارا جائے تو انسانیت کو رحم آ جاتا ہے مگر ساری دنیا پتھر دل، تماشا دیکھ رہی ہے، اپنی اپنی سیاسی دکانداری چمکانے کے لئے نئے نئے نعرے ایجاد کرنے والے سیاست دانو! وہ دیکھو میرے بچے جل رہے ہیں وہ دیکھو سکول علم سے دھوئیں کے بادل اُبل رہے ہیں، وہ دیکھو بے گناہ معصوم کٹ رہے ہیں، وہ دیکھو دل دوز چیخیں دل دہلا رہی ہیں وہ دیکھو دل فگار سسکیاں کلیجوں کو چیر رہی ہیں۔ وہ دیکھومیرے دیس کے گلی کوچے خون سے سرخ ہو چکے ہیں۔ وہ دیکھو بستیاں اجاڑ دی گئی ہیں، وہ دیکھو چھوٹے چھوٹے بچے پکار رہے ہیں۔

وہ دیکھو میرے دیس کی معصوم بے بس سہمے بچے تمہارے انقلاب کی راہیں دیکھ رہے ہیں، آہیں اور چیخیں تمہیں سنائی نہیں دیں گی، ان لٹے پٹے لوگوں کی گریہ وزاری تمہارے دلوں میں چائے کی پیالی جتنا طوفان بھی پیدا نہیں کریں گی اس لئے کہ تمہاری آنکھوں پر کرسی چھین لینے کی چربی چڑھی ہوئی ہے، تمہاری آنکھیں رشک پروف ہو چکی ہیں اور تمہارے دل درد سے عاری ہو گئے ہیں۔

ایک صدی ہونے کو آئی
میرا گھر اور میری بستی
ظلم کی آگ میں جل جل، راکھ میں ڈھلتے ہیں
میرے لوگ اور میرے بچے
خوابوں اور سرابوں کے اک جال میں الجھے
کٹتے، مرتے جاتے ہیں
چاروں جانب لہو کے بادل
گلی گلی تعذیر کے پہرے
کوچہ کوچہ مقتل ہے
اور یہ دنیا
عالمگیر اخوت کی تقدیس کی پہرے دار یہ دنیا
ہم کو جلتے کٹتے مرتے
دیکھتی ہے اور چپ رہتی ہے
زور آور کے ظلم کا سایہ پل پل لمبا ہوتا ہے
غزہ کی ہر شام کا چہرہ
خوں میں لتھڑا ہوتا ہے
لیکن یہ جو خون شہیداں کی شامیں ہیں
جب تک ان کی لوئیں سلامت
جب تک ان کی آگ فروزاں
درد کی آخری حد پہ بھی یہ دل کو سہارا ہوتا ہے
ہر ایک کالی رات کے پیچھے ایک سویرا ہوتا ہے۔

Rashid Awan

Rashid Awan

تحریر : راشد علی اعوان