پاکستان دو قومی نظریے کی بنیاد پر معرض وجود میں آیا، درحقیقت پاکستان کی بنیاد اس وقت ہی رکھ دی گئی تھی جب راجہ دھر نامی ایک ظالم بادشاہ نے سندھ میں ایک غریب مسلمان لڑکی کی سرعام بے عزتی کی جس پر عرب سے مسلمانوں کے عظیم لیڈر محمد بن قاسم نے سندھ پر لشکر کشی کی اور سندھ کو فتح کیا ، ان کی عادلانہ پالسیوں کو دیکھ کر جوق در جوق ہندو مسلمان ہوتے رہے۔
ہندوستان پر مسلمانوں نے آٹھ سو سال سے زاید حکومت کی محمد بن قاسم کے سندھ کو فتح کرنے کے بعد ہندوستان کے دیگر علاقوں کو ان کے بعد آنے والے مسلمان حکمرانوں نے فتح کیا جن میں محمود غزنوی ،احمد شاہ ابدالی ا ور محمد غوری کے نام نمایا ہے۔ ان حضرات کے بعد بھی مسلمان ہندوستان کے کئے علاقوں کے حکمران رہے بعض نے تو تقرباََ پورے ہندستان پر حکمرانی بھی کی ہے۔
17ویں صدی کے ابتدا یعنی 1601ء میں برطانیہ میں ایسٹ انڈیا کمپنی وجود میں آئی اس کمپنی نے جزائر شرق الہند میں تجارت کے لیے اس وقت کی ملکہ برطانیہ سے اجازت طلب کو تو انہوں نے اجازت دے دی، یوں ایسٹ انڈیا کمپنی نے جزائر شرق الہند کی جانب سفر شروع کردیا ، 1613ء میں ایسٹ انڈیا کمپنی نے سورت کے مقام پر پہلی کوٹھی قائم کی ابتدا میں یہ کمپنی ان علاقوں سے مصالحہ جات برآمد کرکے برطانیہ اور دیگر یورپین ممالک بھیجا کرتی تھی ، 1623ء میں ایسٹ انڈیا کمپنی نے ان علاقوں میں تجارت کے ساتھ ساتھ دیگر معاملات میں بھی دخل اندازی شروع کردی ، تو سورت کے عوام ان کے خلاف ہوگئی ولندنیزیوں کو اپنے خلاف دیکھ کر ان انگریزوں سورت سے نکل کر دیگر علاقوں کی جانب رخ کردیا، ان کی نظر اب ہندوستان پر پڑی اور یوں 1655ء میں انگریز سامراج کی بنائی ہوئی ایسٹ انڈیا کمپنی نے ہندوستان کے اہم شہر بمبئی کو اپنا مسکن بنالیا ۔
یہاں سے شروع ہوتی ہے باقاعدہ ہندوستان پر انگریز سامراج کی بری نظر، ان دنوں ہندوستان کے زیادہ تر علاقوں پر مغلیہ سلطنت قائم تھی مگر وہ بھی اتنی کمزور اور بے اتفاق جس کو دیکھ کر ایسٹ انڈیا کمپنی اور انگریز سامراج نے ہندوستان پر قبضہ جمانے کی سوچ شروع کردی ، ایسٹ انڈیا اگر چہ ایک تجارتی کمپنی تھی مگر یہ ڈھائی لاکھ سے زائد اپنی نجی فوج رکھتی تھی ، ان فوج کو انگریز سامراج کی بھر پور حمایت بھی حاصل تھی ۔
1757ء وہ سال تھا جس میں انگریز سامراج کھل کر ہندوستان پر قبضے کے لیے میدان جنگ میں اترآئے اس سے قبل بھی ہلکی پھلکی جنگیں ہوئی مگر باقاعدہ طور پر پہلی اور بڑی جنگ یہ تھی ،اس وقت ایسٹ انڈیا کمپنی کے انگریز جنرل کلایوں نے انگریز سامراج کے زیر سائیہ ہوکر مشرقی بنگال پر لشکر کشی کی جس کے لیے انہوں نے پہلے ہی نواب آف بنگال سراج الدولہ کے فوج میں اپنے لوگ بیٹھائے ہوئے تھے ۔ یوں یہ جنگ کچھ غداروں کی وجہ سے نواب آف سراج الدولہ ہار گئے اور انگریز جیت گئے۔
1757ء کے بعد سے انگریز سامراج بھی کھل کر ایسٹ انڈیا کمپنی کے ساتھ کھڑے ہوئے اور باقاعدہ طور پر اپنے ہزاروں انگریز سپاہیوں کو اس وقت کی جدید اسلحہ او دیگر سامان سے لیس کر ایسٹ انڈیا کمپنی کی مدد اور ہندوستان پر قبضے کے لیے ہندوستان روانہ کیا ، 1757ء سے لیکر جنگ آزادی 1857ء تک انگریز سامراج کو ہندوستان میں سب سے زیادہ پریشانی مسلمانوں سے ہوئی کہی پر حیدر علی سے ہار رہے ہیں ، تو کہی پر ان کے بیٹے ٹیپو سلطان سے ، ان لوگوں کو اگر انگریز سامراج نے شکست دی بھی تو غداران ہندوستان و مسلمان کی وجہ سے ، اس کے ساتھ انگریز حکومت کے ناکھ میں سب سے زیادہ دم علمائے حق نے کیا ہوا تھا ۔
کون علمائے حق ؟ وہ علمائے جنہوں نے اپنی جانوں کی پروا کئے بغیر انگریز سامراج کے خلاف علمبغاوت بلند کیا ، شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی ، شااسماعیل شہید اور سید احمد شہید جیسے بڑے علمائے کرام نے اپنی جانوں کے نظرانے پیش کرکے مسلمانوں کو جگایا 1857ء جنگ آزادی ہندستان میں ہزاروں علماء کرام کو انگریز سامراج نے گرفتار کرا کریا تو سولی پر لٹکا دیا ،یا کالا پانی جیل میں تا مرگ پابند سلاسل کردیا ۔ جنگ آزادی 1857ء کے بعد علمائے کرام کے ساتھ عام مسلمانوں نے بھی انگریز سامراج کے خلاف مختلف علاقوں میںجہاد شروع کردیا ، اسی مقصد کے لیے علمائے کرام نے داروالعلوم دیوبند کا قائم کیا ، داروالعلوم دیوبند کا قیام میں مولانا قاسم نانوتوی کے ساتھ مولانا محمودالحسن کے والد حافظ ذوالفقار صاحب اور مولانا شبیر احمد عثمانی کے والد مولانافضل الرحمان صاحب شانہ بشانہ تھے۔
1857ء کی جنگ آزدی اور داروالعلوم دیوبند کے قیام کے بعد مسلمانوں میں انگریز سامراج کے خلاف جہاد کے شوق کو دیکھ کر انگریز سامراج نے مسلمانوں میں تفریقا ڈالنے کے لیے اپنے زیر سائیہ مختلف نام نہاد مسلمانوں کو جن کو آج پاکستان سمیت دنیا بھر کے مسلمان حکومتوں نے غیر مسلم قراد یا ہے ان کو ان علمائے حق کے خلاف استعمال کرنے لگے ، ایک طرف علمائے حق کا فتویٰ آیا کے انگریز سامراج کے خلاف جہاد فرض ہے تو دوسری جانب ان انگریزوں کے کھڑے کییگئے نام نہاد مسلمانوں کی جانب سے اس قسم کی باتیں آنے لگی کہ سادہ لوح مسلمان شش و پنج ہوگیا ،انہیں سمجھ نہیں آرہا تھا کہ وہ کس طرف جائے۔ایک طرف فتویٰ آیا” نکلوں اللہ کی راہ میں قتل کرو ان انگریزوں کو” جنہوں نے ہمارے ملک ہندوستان پر قبضہ کیا ہوا ہے ، تو دوسرے طرف اشعارکے زریعے کہا جارہا تھا کہ” چھوڑ دو ائے مسلمانوں جہاد کا خیال ، اسلام میںحرام ہے قتل و قتال ” یہ سن کر عام سادہ مسلمان کو کچھ سمجھ نہیں آرہی تھی اس موقع پر بھی علمائے حق نے اپنا کردار بخوبی نبھایا اور عام سادہ مسلمانوں کو ان دوشمنان اسلام کا چہرا بھی دیکھا یا ۔
تحریک آزادی ہندوستان کے بعد انگریز ہندوستان سے راہ فرار اختیار کرنا چاہتے تھے ، مگر ہندوستان پر قبضہ جمائے رکھنا بھی چاہتے تھے، اس کے لیے انہوں نے مسلمانوں میں اپنی نظریہ کے لوگوں کو داخل کیا یا مسلمانوں کی ایمان کا سودا لگا کر انہیں اپنا بنایا ۔ انگریزوں نے شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی کی اس تحریک کو ناکام بنانے کی ہر ممکن کو شش کی مگر حاجی امداداللہ مکی مولانا رشید احمد گنگوی اور مولانا قاسم نانوتوی اور دیگر علماء نے انگریز کی تمام تر کاویشوں کوناکان بنایا ۔ تحریک جنگ آزدی ہندوستان کے بعد تحریک ریشمی رومال میں بھی انہیں علمائے حق نے جو کردار ادا کیا تاریخ اس کی گواہی تا قیامت دے گا۔
1930ء میں ال انڈیامسلم لیگ کا اجلاس الہ آباد میںعلامہ اقبال کی قیادت میں منعقد ہوا جہاں پر مسلمانوں کے لیے ایک الگ ملک کی قیام کا فیصلہ کیا گیا ، بالکل وہی خیال ان سے بہت پہلے مولانا اشرف علی تھانوی اپنی مجالسِ عامہ میں کئی بار ظاہر فرما چکے تھے، جس کا تذکرہ مولانا محمد علی جوہر کے دست راز اور کانگریس کے حامی مولانا عبدالماجد دریاآبادی اپنی کتاب ”نقوش و تاثرات”میں بیان کیا ہے۔یہ حضرت تھانوی کے بارے ان لوگوں کی گواہی ہے جو کانگریس کے حامی اور نظریہء پاکستان کے مخالف تھے اور خود حضرت تھانوی سے متعدد بار اسلامی ملک کی تاسیس کے بار ے میں سنا چکے تھے۔23تا 26اپریل 1943 ء کو آل انڈیا مسلم لیگ کا دہلی میں اجلاس شروع ہونے والا تھا۔اس تاریخی اجلاس میں شرکت کرنے کے لیے مسلم لیگ کے ارکان نے حضرت تھانوی کو ہدایات دینے کے لیے دعوت نامہ بھیجا۔یہ حضرت تھانوی کی وفات سے تین ماہ قبل کا واقعہ ہے۔
بامر مجبوری آپ نے اجلاس میں شرکت سے معذوری ظاہر کرتے ہو ئے اپنی ہدایات ایک تاریخی خط میں لکھ کر روانہ فرمادیںجس میں اپنی دو کتابوں ”حیاة المسلمین اور صیانة المسلمین”کی طرف رہنمائی فرمائی: پہلی کتاب شخصی اصلاح اور اور دوسری کتاب معاشرتی نظام کی اصلاح کے لیے تھیں۔ جب مسلم لیگ 1939 ء میں اپنے تنظیمی منصوبے کے تحت صوبوں اور ضلعوں میں از سرِ نو شاخیں قائم کررہی تھی تب مولانا اشرف علی تھانوی نے مفتی محمد شفیع عثمانی اور بعض دیگر اکابر علمائے دیوبندکے مشورہ سے مسلمانانِ ہند کو مسلم لیگ کی حمایت و مدد کرنے کافتویٰ دیا۔ صف اول علماء کی یہ آواز جو کھل کرمسلم لیگ کی حمایت میں بلند ہوئی جس سے مخالفین کی صفوں میں سراسیمگی پھیل گئی کیوں کہ وہ مسلمانانِ ہند میں مولانا اشرف علی تھانوی کا اثر و رسوخ اچھی طرح جانتے تھے۔ان کے ہزاروں متوسلین خلفاء جگہ جگہ پھیلے ہوئے تھے۔عین اسی موقع پر جماعت اسلامی نے گانگریس کی حمایت کرکے تحریکِ پاکستان کی تائید کرنے سے یہ کہہ کر انکار کردیا انکا کہنا تھا کہ ”جب کونسلوں، میونسپل ٹیوں میں ہندؤوں سے اشتراکِ عمل جائز ہے تو دوسرے معاملات میں کیوں نہیں؟”۔ دارالعلوم دیوبند کی سیاسی جماعت جمعیت علمائے ہند دو حصوں میں تقسیم ہوگئی،ایک جماعت کانگریس کی حامی ہوگئی جس کی سربراہی مولانا حسین احمد مدنی فرمارہے تھے اور دوسری مسلم لیگ کی حمایت میں کھڑی ہوگئی جس کی صدارت علامہ شبیر احمد عثمانی فرمارہے تھے۔ ان دنوں مفتی محمد شفیع دارالعلوم دیوبند کے صدر مفتی تھے، حضرت تھانوی کے خلیفہ مجاز ہونے کی وجہ سے مسلم لیگ اور پاکستان کی حمایت میں تھے۔ اس مسئلے پر دونوں فریقین کے مابین آراء کا اختلاف ہوا، بحث و مباحثہ کی نوبت آئی۔ ایک جانب مولانا حسین احمد مدنی کا کہنا تھا کہ ہم ایک چھوٹا سہ ٹکڑا کیوں لے پورا ہندوستان ہمارا ہے، دوسری جانب مفتی شبیر احمد عثمانی کا کہنا تھا کہ موجودہ ہندوستان میں جمہوریت ہے اور یہاں ہندوستان میں مسلمانوں سے زیادہ ہندوں ہے اس لیے حکومت ان کی بنی گی اور یہ مسلمانوں کو تنگ کریںگے، دونوں کے پاس ٹوس دلائل تھے۔
بالآخر دارالعلوم دیوبند کو اس اختلاف کے اثرات سے دور رکھنے کے لیے علامہ شبیر احمد عثمانی ر، مفتی محمد شفیع اور چند دیگر علمائے کرام نے دارالعلوم سے باضابطہ استعفیٰ دے دیا اور پاکستان کی حمایت میں اپنے اوقات کو آزادانہ وقف کردیا۔بعض مخالفین اس اختلاف کو بیان کرکے اکابر دیوبندکو متہم کرتے اور لوگوں کو علمائے دیوبند اور پاکستان کی حامی جمعیت علمائے اسلام کو پاکستان دشمن قرار دے کر لوگوں کے اذہان پراگندہ کرتے ہیں، یہ سلسلہ تاہنوز جاری ہے جو تعصب کی علامت ہے دونوں اکابر کا اختلاف اخلاص پر مبنی تھا۔ تحریکِ پاکستان کی کامیابی کے لیے یہ بات کافی ہے کہ سب سے پہلے پاکستان کی تائید کرنے والے مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ ہیںسب سے پہلے پاکستان کا جھنڈا لہرنے کا شرف علامہ شبیر احمد عثمانی کو حاصل ہوا، قائد اعظم محمد علی جناح نے اپنی وصیت میں کہا تھا کہ میں مر جائوںتو میرا جنازہ علامہ شبیر احمد عثمانی سے پڑھایا جائے ، جو انہونے ہی پڑھا تھا۔
انگریز سامراج سے نجات اور پاکستان کی آزادی میں جہاں دیگر لوگوں نے اپنا کردار ادا کیا وہی پر” تحریک آزادی وقیام پاکستان میں علمائے حق کا کردار” کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ، مگر آج کو سیکولرز ذہین رکھنے والے لوگ اس کوشش میں مصروف ہے کہ کسی طرح علمائے حق کے کردار کو پاکستان کے لیے مشکوک کیا جائے ۔ تاحال وہ اپنے مقاصد میں ناکام ہے ، مگر ان کے اگے روکاورٹیں نہ ہونے کہ وجہ سے آئندہ سالوں میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ ہمیں علمائے حق اور پاکستان کے ساتھ محبت رکھنے کی توفیق عطا فرمائیں(آمین)