مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کے ظلم و ستم اور انسانی حقوق کی پامالیوں نے تاریخ رقم کر دی ہے۔ آج بھی فوجی راج نافذ ہے۔ ظالمانہ قوانین کے بل بوتے پر علاقے میں بالادستی قائم رکھی جا رہی ہے۔ جب بھی کشمیر میں بھارتی فوج کے انخلاء کی بات کی جاتی ہے تو بھارتی فوج کی جانب سے ہی اس کی شدید مخالفت ہوتی ہے۔ تقسیم ہند کے بعد سے اب تک مقبوضہ کشمیر میں بھارتی تسلط ہے۔ جنت نظیر وادی کشمیر کے 5513 مربع میل علاقہ پر بھارت نے کشمیریوں کے خواہشوں کے خلاف جبراً قبضہ کر رکھا ہے۔ جس کی مثال مقبوضہ وادی میں چند دہائیوں میں آباد ہونے والے سات سو قبرستان ہیں۔
اسی لاکھ آبادی کے اس خطے میں آٹھ لاکھ بھارتی فوجی تعینات ہیں۔ یعنی ہر دس کشمیریوں پر ایک بندوق بدست بھارتی فوجی مسلط ہے۔ گذشتہ برسوں سے جاری آزادی کی تحریک میں ایک لاکھ سے زائد کشمیری مسلمان جام شہادت نوش کر چکے ہیں۔ تیئس ہزار سے زائد خواتین بیوہ، 107400 بچے ییتم جبکہ ایک لاکھ سے زائد گھر خاکستر کیے جا چکے ہیں۔ اگر 2010ء سے 2012ء تک کا جائزہ لیا جائے تو اندازہ ہوگا کہ بھارتی فوج نے کشمیریوں پر ظلم و جبر کی جو داستان رقم کی ہے وہ انسانیت کے لیے باعث شرم ہے۔ گذشتہ تین برسوں کے دوران بھارت نے مقبوضہ وادی میں جدید اور مہلک ہتھیاروں کا استعمال عام کرتے ہوئے بیدریغ مظالم ڈھائے۔ سال 2012ء میں بھارتی فوج نے 15 خواتین اور 32 بچوں سمیت 210 کشمیریوں کو شہید کیا۔ بھارتی قید میں شہید ہونے والوں کی تعداد 25 سے زائد رہی۔ 23 خواتین کی عصمت دری بھی 2012ء میں کی گئی۔ جبکہ گھر گھر چھاپے، فوجی اور پولیس دستوں کی گولہ باری اور شیلنگ سے اکتالیس مکانات تباہ اور 868 کشمیری زخمی ہوئے۔ 715 افراد کو حراست میں بھی لیا گیا۔ 2011ء میں بھارتی فوج کی جانب سے ڈھائے گئے مظالم میں 235 کشمیری شہید ہوئے جن میں 21خواتین اور 37 بچے شامل ہیں۔
جبکہ 695 کشمیریوں کو حراست میں لیا گیا۔ جن میں سے 13 دوران حراست شہید کر دیئے گئے۔ 2010ء میں بھارتی فوج کی فائرنگ سے 250 کشمیری شہید ہوئے۔ جن میں 16 خواتین اور 67 بچے شامل ہیں۔ بارہ خواتین، کئی صحافیوں سمیت 2960 عام مسلمان شہریوں کو گرفتار کیا گیا۔ بھارتی فوج کی فائرنگ سے 7560 کشمیری زخمی بھی ہوئے، جن میں 60 خواتین، 40 بچے اور 12 صحافی شامل ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق کشمیری عوام کا بھارت سے لگاؤ کا یہ حال ہے کہ بھارتی وزارت داخلہ کی طرف سے کرائے گئے ایک سروے کے مطابق کشمیری نوجوانوں کی صرف 5 فیصد تعداد بھارتی سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھنا چاہتی ہے جبکہ 50 فیصد نوجوانوں نے زندگی میں کبھی بھی ووٹ نہیں ڈالا۔ کشمیری نوجوان ہند نواز سیاست میں انتہائی کم شرکت کرتے ہیں۔ نوجوان اپنے مسائل کے حل کے لئے ہندو سیاسی رہنماؤں کا رخ نہیں کرتے۔ بھارت کی یہ سوچ کہ عملی حقائق کے منافی ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اہل کشمیر کی تحریک کمزور ہو کر خود بخود دم توڑ دے گی۔
India
بھارت متشددانہ اقدامات اور حربوں سے کشمیریوں کی جاری جدوجہد آزادی کو دبانے میں ہر گز کامیاب نہیں ہوگا کیونکہ کشمیری عوام نے اپنی تحریک کو منطقی انجام تک پہنچانے کا عزم کر رکھا ہے۔ بھارت سرکار کشمیر یوں کی تحریک آزادی کو دبانے کے لیے غاصبانہ و اوچھے ہتھکنڈے استعمال کر رہی ہے۔ بھارت کشمیریوں کی جدوجہد آزادی کو دبانے اور کمزور کرانے کے لیے مختلف محاذوں پر سرگرم عمل ہے۔ ایک طرف جہاں وہ اپنی بارودی فوج کے ذریعے سے کشمیرکے لوگوں کو خاموش کرانا چاہتا ہے، وہاں دوسری طرف لالی پوپ دکھا کر کشمیریوں کو بہلانے اور پھسلانے کی کوششیں کی جارہی ہیں اور اس مقصد کے لیے تہذیبی جارحیت بھی ایک اہم حربہ ہے، جس کے ذریعے سے کشمیریوں کی مسلم شناخت اور اسلامی تشخص کو ختم کرانے کے منصوبے پر عمل ہورہا ہے۔ ا س حوالہ سے بھارت کی خفیہ ایجنسیوں نے ریاست جموں کشمیر کے طول وعرض میں این جی اوزکا جال بچھا رکھا ہے، جس میں مقامی لوگوں کو بھی مختلف لالچ دے کر شامل کیا جاتا ہے اور اس عمل کا مقصد جہاں تحریک آزادی سے متعلق کشمیری عوام میں منفی تاثرات کو جنم دینا ہے، وہاں اس کے نام پر ایجنسیوں کے کچھ لوگ بڑے پیمانے پر تجارت بھی کرتے ہیں۔
امداد کے نام پر یتیموں اور بیواوں کا استحصال کیا جاتا ہے اور ان کے نام پر کروڑوں روپے بٹور لیے جاتے ہیں۔ غیر ریاستی باشندے اپنے قومی مفاد کو سامنے رکھ کر ایسا کرتے ہیں، البتہ ان مقامی لوگوں کے کردار پر افسوس کے سوا کچھ بھی نہیں کہا جاسکتا ہے، جو اس سلسلے میں ایجنسیوں اور ان کے غیر ریاستی ایجنٹوں کے آلہ کاروں اور مددگاروں کا رول نبھارہے ہیں۔ حریت کانفرنس نے ان لوگوں کے رویے پر بھی افسوس کا اظہار کیا، جو اپنی بچیوں کو غیر محرم لوگوں کے سپرد کرتے ہیں اور پھر انہیں ان کے ساتھ ریاست سے باہر گھومنے پھرنے کی بھی اجازت دے دیتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو ضمیر مردہ ہوچکا ہے اور وہ نہ صرف قومی کاز کو نقصان پہنچانے کے باعث بن رہے ہیں، بلکہ وہ خود اپنی غیرت اور عزت کو بھی داو پر لگا دیتے ہیں۔ یہاں کے زندہ ضمیر اور آزادی پسند لوگ اگرچہ اس ساری صورتحال پر خوش اور مطمئن نہیں ہیں، البتہ وہ بھارتی فورسز اور ان کی متعلقہ ایجنسیوں کے خوف کی وجہ سے خاموش ہیں۔ بھارت اور اس کی ایجنسیز کے علاوہ بھارت نواز جماعتوں کی طرف سے تہذیبی جارحیت کے پروگرام کے تحت جموں کشمیر کے اس متنازعہ خطہ میں عوام خاص کر نئی نوجوان نسل کو بے راہ روی، فحاشیت، شراب اور منشیات وغیرہ وغیرہ جیسی برائیوں میں مبتلا کرکے انہیں جدوجہدِ آزادی سے دور رکھنے کی کوششوں میں لگی ہوئی
جس کی تازہ ترین مثال بانڈی پورہ میں دیکھنے کو مل رہی ہے جہاںایک سیاسی تنظیم کی خاتون اور اس کا بھائی وہاں کی نوجوان بیٹیوں کے خفیہ طور حاصل کئے گئے فوٹووں کوغلط انداز میں پیش کرکے ان کا استحصال کررہے ہیں جس کے خلاف بانڈی پورہ کی کئی خواتین نے سرینگر میں احتجاج کیا۔ اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق وادی کشمیرمیں 60ہزار جبکہ مقامی ماہرین کے مطابق ادویات کے نشے کی لت میں مبتلا لوگوں کی تعداد 2لاکھ سے زیادہ ہے اور ان میں سے زیادہ تر لوگ ”کوڈین فاسفیٹ”کے عادی ہیں۔ نشہ آور ادویات کے استعمال کی بنیادی وجوہات دوا فروخت کرنے والے لوگ ہی ہیں جو ڈاکٹری نسخوں کا غلط استعمال کر کے نوجوانوں کو نشے کی لت میں مبتلا کرتے ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق قصبہ پلواما کے رہنے والے 14 سالہ فیصل احمد اپنے نرم ہاتھوں سے بھنگ اور پوست کے پودے جڑ سے اکھاڑنے کے لیے مشقت میں مصروف ہیں۔ یہ ان متعدد نوجوان رضاکاروں میں سب سے کمسن ہیں جنہوں نے جنوبی کشمیر کے شوپیاں، پلواما اور اننتاننگ کے قصبہ جات سے ان فصلوں کے خاتمے کے لیے اپنی معاونت پیش کی ہے۔بھنگ کی وجہ سے بہت سے نوجوانوں کی زندگیاں تباہ ہو چکی ہیںاس سخت جان فصل کو پہلے ہی ہمیشہ کے لیے ختم کر ڈالنا چاہیے تھا۔جنوبی کشمیر کے بہت سے نوجوانوں کو ان فصلوں کے تباہ کن اثرات کا اندازہ ہو چکا ہے جن سے جان لیوا منشیات کی پیداوار ہوتی ہے، اور انہوں نے ان پودوں کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کا تہیہ کر رکھا ہے۔
تب تک چین سے نہ بیٹھیں گے جب تک جنوبی کشمیر مکمل طور پر اس نحوست سے آزاد نہیں ہو جاتا،جنوبی کشمیر کا علاقہ تمام تر ریاست جموں و کشمیر میں بھنگ اور پوست کی سب سے زیادہ پیداوار کے لیے مشہور ہے۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی توجہ نہ ہونے کے باعث بہت سے علاقوں میں ان فصلوں کی کاشتکاری بلا روک ٹوک پھیلتی گئی۔ بھارت کی کشمیریوں کی تحریک آزادی کو کمزور کرنے کی تمام سازشیں ناکام ہوں گی۔پاکستان سے دو بڑی جنگوں او ر کشمیریوں کی شدید مزاحمت کے باوجود بھارت آج بھی یہ غاصبانہ قبضہ ختم کرنے اور کشمیری عوام کی نسل کشی بند کرنے کو تیار نہیں۔ عالمی برادری کو سوچنا چاہیے کہ بھارت کب تک مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق پامال کرتا رہے گا اور مزید کتنی انسانی جانیں اس کے ظلم اور بربریت کی بھینٹ چڑھیں گی۔ یہ سلسلہ اب بند ہونا چاہیے۔ اقوام متحدہ سمیت تمام بین الاقوامی اداروں اور ملکوں کو بھارت پر دباؤ ڈالنا چاہیے کہ وہ پاکستان سے اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق مذاکرات کے ذریعے جموں و کشمیر کا مسئلہ حل کرے اور کشمیریوں کو اپنے مستقبل کا فیصلہ خود کرنے دے۔