تحریر ڈاکٹر تصور حسین مرزا عموماً گروپ سے مراد دو چار لوگوں کا کسی بھی مسئلے یااختلاف کی صورت میں وجود میں آنے والی تنظیم سوسائٹی یا کسی بھی نام سے اکٹھ جو گنتی کے دو چار افراد پر مشتمل ہوتی ہے اسکو گروپ کہا جاتا ہے، یہ گروپ بندیاں سیاست،اور سماج میں ہر جگہ ہر گلی ،محلہ میں موجود ہوتیں ہیں، تعلیم ، صحت، سیاست،اور صحافت میں دیگر شعبہ زندگی کی طرح ان گروپ بندیوں کے وجود سے کسی بھی طرح انکار نہیں کیا جا سکتا، اس سے قبل کہ میں گروپ آف الیکٹرانک میڈیا کے متعلق کچھ کہوں یہاں یہ امر قابل زکر ہے کہ بندہ ناچیز نے عملی طور پر صحافت گجرات کے ایک روزنامہ بنام سے 1990 سے کیا اور 1992 سے باقاعدہ تحصیل پریس کلب سرائے عالم گیر کا ممبر بنااور یہ بات بھی کسی دلچسپی سے کم نہیں کہ 1992 میں سرائے عالمگیر میں ایک ہی پریس کلب ہوتا تھا ۔
Newspapers
وقت کے ساتھ ساتھ مختلف اخبارت میں نمائدگی کرتا رہا اور وقت گزرتا رہا حتیٰ کی 2003 سے سال 2008 تک بیرون ملک کی وجہ سے صحافت جیسے مقدس شعبہ سے کٹ کر رہ گیا 2008 سے پریس کلب جہلم رجسٹرڈ کی ممبر شپ حاصل کی اور ایک قومی اخبار کی نمائدگی حاصل کر کے نئے جوش نئے جزبہ اور نئی لگن کے ساتھ علاقائی مسائل ،اور مقامی ، غیرمقامی کے ساتھ ساتھ قومی سطح پر کالم تجزئے اور تبصروں پر اپنی توجہ مرکوز کر لی ، میری اس لگن کو صحافت سمیت دیگر تمام مکتبہ فکر کے لوگوں نے حوصلہ افزائی اور راہنمائی کرتے ہوئے سرپرستی سے میرے حوصلوں اور جزبوں کو نیا جوش و جزبہ دیا۔میں تمام نیوز سائیٹس ، اخبارات، میگزین اور رسالوں کے مدیروں اور مالکان کا شکریہ اد کرنا اپنا فرض سمجھتا ہوں،
بندہ ناچیز کوپریس کلب رجسٹرڈ جہلم میں نائب صدر، فنانس سیکرٹری اور سینئر وائس چیرمین کی حثیت سے کام کرنے کا موقع دیا گیا، جس کے لئے میں تمام ممبران پریس کلب جہلم کا مشکور ہوں،2015 مارچ میں ذاتی مصروفیات بڑھ جانے کی وجہ سے استیفیٰ دے دیا، تمام دوستوں کی منت سمات کے بعد میرے استیفیٰ کو شرفِ قبولیت ملا اپریل 2015ء میں سرائے عالم گیر پرانے ساتھی سے ملاقات ہوئی، حال وال پوچھنے پر معلوم ہوا کہ پہلے ہم دونوں سماجی اور رفاحی کاموں میں دوست تھے اور آج رفاہ عامہ کے علاوہ صحافت ہی دونوں کا اوڑھنا بچھونا ہے۔ زاتی مصروفیات کے باوجود بندہ ناچیز نے گروپ آف الیکٹرانک میڈیا سرائے عالم گیر جوائن کر لیا اور اپریل 2015ء سے باقاعدہ ممبر بنا کہ مقامی طور پر مقامی مسائل کو قلم کی نوک سے چیرپھاڑکی جائے۔ ہر کوئی اس بات سے اتفاق کرے گا کہ ہر انسان میں کوئی نہ کوئی کمی ، کوتائی،ضرور ہے ماسوائے پاک ہستیوں کے جن کو اللہ پاک نے معصوم ، مقدس اور پاکیزہ بنایا ہے،
ہمارے استاد ڈاکٹر محمود علی واثق اللہ آپ کو صحت، سلامت اور پختہ ایمان کی دولت سے مالا مال رکھے آمین کہتے ہیں ہر انسان میں اچھائی اور برائی ہوتی ہے ، آپ کسی بھی شخص کی برائیوں کو چھوڑ کر اچھائی کو مددنظر رکھے تو بہت سارے مسائل خود بخود ختم ہو جاتے ہیں، انسان خطا کا پتلا ہے، خطا ئیں ہی اختلافات کا سبب ہوتیں ہیں تحصیل پریس کلب سرائے عالمگیر جو بندہ ناچیز نے 1992 سے 2015 تک 23 سال کا عرصہ بنتا ہے ۔ممبر رہا عرصہ 23 سال میں نہ کسی میٹنگ کا پتا چلا نہ ہی کسی اجلاس کا علم ہوا، کسی بھی ادارہ میں ایسی چیز کو جموریت نہیں بلکہ اجارہ داری کہتے ہیں، برحال تحصیل پریس کلب سرائے عالمگیر کی بجائے گروپ آف الیکٹرانک میڈیا سرائے عالمگیر کی بات کرنے،پر فخر محسوس ہو رہا ہے جس کی بنیادی وجہ نظم و ضبط، پیار و محبت، چاہت و الفت ہیں اور سب سے بڑھکر کدورتیں، حسد اور بغض نام کی کوئی چیز محسوس نہ کی۔ایثار، محبت ، قربانی اور چھوٹوں (جونیئرز) سے پیار اور بڑوں(سیئنرز) کی عزت و احترام جیسے عوامل ہی مجھ سے آدمی کو لکھنے پر مجبور کرتے ہیں، ورنہ اختلافات اور مثبت تنقید ہی کسی بھی ادارے میں ترقی و خوش حالی کا زیور ہوتا ہے۔
journalists
مجھے اس گروپ میں ہر شخص میں انفرادیت اور جازبیت نظر آئی مثلاً محمد الیاس شامی بطور صدر کسی بھی جگہ کسی بھی میٹنگ میں اپنا فیصلہ مسلط یا ٹھونستے ہوئے دکھائی نہیں دئیے، پورے گروپ کی منت سمات کے باوجود دوبارہ صدر نہ آئے، کسی کو روپے ، اخبار یا چینل کی وجہ سے فوقیت نہ دی، تحمل، برداشت اور حق پر ڈٹ جانے کا سبق دیا،محمد الیاس شامی کا شروع سال سے ہی نظریہ تھا کہ ایک سال بعد قیادت تبدیل ہونی چاہیے جو انہوں نے سچ ثابت کر دی!امین فاروقی جہاں سیئنر صحافی، شاعر ، اور کالم نگار میں اپنا ایک تخلیقی کردار نباتے نظر آتے ہیں وہاں، قومی تہوار، اور گروپ کے وقار کے لئے کسی سے پیچھے نہیں، محمد شکیل خلیل میانہ روی ، کام سے کام، ملنسار اور پروفیشنل صحافی کے انداز میں نظر آئے، سید امجد شاہ، اور مرزا جبران گروپ میں ایسے نظر آتے ہیں جیسے ایک ہی چیز کے دو نام ہوں، ٹی وی چینل رپورٹ میں ان دونوں کا ثانی نہیں ،گروپ کی جان ہیں، اویس مدنی،اطہر شہزاد،نوازش ملک، راجہ شاہد سرور،حسن سردار، راجہ سہیل، بلال مدنی،کو حقیقی طوپر ایک اعلیٰ کردار، اور متحرک صحافی کے طور پر پایا،ان میں گروپ کے لئے جزبات اور محبت ہر پہلو سے چھلکتا پایاہے،اے شکور مرزا اور ارشد ناصر کی مثبت صلاحیتیں تمام دوستوں کے لئے نمونہ کے طور پر دیکھنے کو ملیں، حاجی شوکت کو حقیقی معنوں میں دوستوں کا سرپرست پایا۔یہ وطیرہ امتیاز صحافی تنظیموں کو کم ہی نصیب ہوتا ہے۔
گروپ آف الیکٹرانک میڈیا سرائے عالمگیر کے تمام ممبران ایک سے بڑھ کر ایک مخلص ، محنتی اور پیار و محبت بانٹنے والے پائے ۔کہتے ہیں ہر تنظیم میں کچھ ایسی شخصیات بھی ہوتیں ہیں جو سامنے تو نہیں آتی مگر دامے درمے اور سخنے پوری تنظیم کو متحرک کرتی ہے ایسی ہی ایک شخصیت جو گروپ آف الیکٹرانک میڈیا کے رسمی اجلاس میں تونظر نہیں آئی اور نہ ہی کسی عہدے پر براجمان ہوئی مگر کامیاب تنظیم بنانے میں کسی سے پیچھے نہیں رہی جی ہاں میری مراد ممتاز صحافی و چیف اییڈیٹر روزنامہ کرکس انٹرنیشنل لیاقت علی مدنی ہے، اایک گزارش ہے کہ گروپ آف الیکٹرانک میڈیا سرائے عالمگیر کو گروپ کہنا ذیادتی ہوگئی، میری تمنا ہے اس سے تمام لوگ جو وابسطہ ہیں کہ یہ گروپ نہیں بلکہ ایک تحریک، ایک تنظیم ، ایک کنبہ ہے، جس کے لئے 24 گھنٹہ ہر صحافی کے لئے دروازے کھلے ہیں، یہ بات مجھ کہنے میں کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں ہو رہی میرے جیسا نا چیز اگر جنرل سیکرٹری منتخب ہو سکتا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ گروپ آف الیکٹرانک میڈیا پر کسی فرد کی اجارہ داری نہیں ۔۔۔۔ اگر اجارہ داری ہے تو پیار،محبت اور عزت کی ہیں، اگر میری تحریر سے کسی کو کوئی رنج یا تکلیف پہنچی ہو تو معاف کر دینا۔اس تحریر کا صرف ایک ہی مقصد ہے دوستوں کی برائیوںپرنہیں بلکہ دوستوںکی صرف اچھائیوں پر نظررکھی جائے تا کہ بھائی چارے کا وہ درس دہرایا جائے جو 14 سو سال قبل اسلام نے دیا تھا