آزادی کسی قوم کا وہ بیش بہا سرمایہ افتخار ہوتا ہے جو اس قوم کی زندگی اور اس کے تابناک مستقبل کا ضامن حیات ہوتا ہے غلام قومیں اور محکوم افراد پر مشتمل معاشرے نہ صرف اصل حیات و ممات سے محروم رہ جاتے ہیں بلکہ زمین پر ایک بوجھ بھی ہوتے ہیں۔تحریک پاکستان کے حوالے سے اگر شاعروں اور ادیبوں کے کردار پر گفتگو کی جائے تو قائداعظم کے یہ الفاظ ایک ٹھوس حقیقت کی صورت میں قدم قدم پر ہماری رہنمائی کرتے ہیں۔”تحریک پاکستان میں ادباء اور شعراء نے بھی ناقابل فراموش کردار اداکیا ہے۔ وہ اپنے خون جگر سے حروف کی کھیتی سنیچتے رہے اور الفاظ میں جان ڈال کر تحریک پاکستان کی تقویت کا باعث بنے“۔
اگرچہ 1857ء کی جنگ آزادی کے فوراَ بعد ہی قیام پاکستان کی جدوجہد کاآغاز ہوچکا تھا اردوکی ہمہ گیریت ہی تھی جس نے غیر منقسم ہندوستان کے مسلمانوں میں نئی روح پھونک دی تھی علامہ اقبال رحمتہ اللہ علیہ نے اپنی شاعری اورافکار کے ذریعے لوگوں کی رہنمائی کی تودوسری جانب غیر منقسم ہندوستان کے گوشے گوشے میں گھوم گھوم کرتاریخی جلسوں کے تناظر میں دلوں کوگرمایااور ایک تڑپ ودلولہ پیدا کیا گیا۔ س تحریک کو پاکستان نامی ملک پر منتج کیا۔ اگر چہ اردو صرف مسلمانوں کی زبان نہیں لیکن یہ اردو اور صرف اردو کی ہمہ گیریت اور مقبولیت ہی تھی جس نے غیر منقسم ہندوستان کے مسلمانوں میں نئی روح پھونک دی تھی اس پورے تاریخ ساز عہد پر نظر ڈالنے کے بعد کوئی بھی شخص یہ کہنے پر مجبور ہوجائے گا کہ علامہ اقبال ہی دراصل مفکر پاکستان کہلانے کے مستحق ٹھہرتے ہیں۔ علامہ نے جس ماحول میں آنکھ کھولی اس میں مسلمانوں کی حالتِ زار کو بدلنے کے لیے ہمارے قومی رہنما اپنے اپنے طور پر مسلمانوں کو خواب غفلت سے بیدار کرنے کے لیے اپنی تمام تر صلاحیتوں کو کام میں لارہے تھے مولانا الطاف حسین حالی ہوں یا مولانا محمد علی جوہر، مولانا شوکت علی ہوں یا سرسید احمد خاں سبھی ایک رخ ہوکر سوچ رہے تھے کہ مسلمانوں کو غلامی کے طوق سے کس طرح نکالیں لیکن ان سب زعماء میں سب سے زیادہ کلیدی کردار علامہ کی فکر حرمت نے ادا کیا ہے۔
دیارِ مغرب کے رہنے والو! خدا کی بستی دکاں نہیں ہے کھرا جسے تم سمجھ رہے ہو، وہ اب زرِ کم عیار ہو گا تمھاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خود کُشی کرے گی جو شاخِ نازک پہ آشیانہ بنے گا، ناپائدار ہو گا علامہ اقبال نے اپنے اذکار سے لبریز شاعری کے ذریعے ملت اسلامیہ کے قافلوں میں اتحاد و یگانگی کی نئی روح پھونکی ۔
فرد قائم ربطِ ملت سے ہے، تنہا کُچھ نہیں موج ہے دریا میں ،بیرونِ دریا کچھ نہیں غلامی کو آزادی میں بدلنے کا زریں نسخہ بتاتے ہوئے علامہ اقبال نے بجا طور پر فرمایاتھا کہ دل مردہ، دل نہیں ہے، اسے زندہ کردوبارہ! کہ یہی ہے امتوں کے مرض کہن کا چارہ! آزادئ افکار سے ہے انکی تباہی رکھتے نہیں جو فکروتدبر کا سلیقہ
جب ہم تحریک پاکستان کے اُس زمانے پر مرحلے وار نظر ڈالتے ہیں تو کئی ایسے مراحل بھی سامنے آتے ہیں جہاں قائداعظم سے انتہائی عقیدت نے ہر چھوٹے بڑے شاعر سے ایسے نعرے لکھوائے یا ایسی نظمیں کہلوائیں جو بعد میں تاریخ کا حصہ بن گئیں۔ نعروں میں ایک ایسا ہی نعرہ ’’لے کے رہیں گے پاکستان۔ بن کے رہے گا ہندوستان‘‘ اور نظموں میں ایک ایسی ہی نظموں مرحوم کیف بنارسی کی تخلیق تھی جو آج بھی ریڈیو اور ٹی ۔ وی پر ہی نغمگی نہیں بکھیرتی بلکہ ہر ملّی و قومی تقریب میں کورس میں گائی جاتی ہے۔” ملت کا پاسباں ہے محمد علی جناح ’’یہاں یہ کہنا مناسب سمجھتا ہوں کہ ہم اپنی تاریخ کے اُن ابواب کوٹٹولیں اور اُن پر سے زمانے کی گرد کو صاف کریں تو شاید زنجیر کی کئی انمول ٹوٹی کڑیاں ہمیں مل جائیں اور تحریک پاکستان اپنے سیاق و سباق کے ساتھ ہمیں نظر آجائے۔تحریک پاکستان کی جدوجہد میں مولانا ظفر علی خان کانام بھی سرفہرست ہے وہ قائداعظم کے دست راست تھے۔
بلند پایہ شاعر وادیب اور کہنہ مشق صحافی کی حیثیت سے اُن کی جدوجہد قابل تعریف ہے۔ 23مارچ 1940ء کو لاہور میں منعقدہ مسلم لیگ کے تاریخ اجلاس میں انہوں نے قرارداد پاکستان کافی البدیہ اردو ترجمہ کیا۔جدوجہد پاکستان میں مولانا آزاد سبحانی اور عبدالباری جیسے ادبیوں کے ساتھ ساتھ ایک نمایاں نام مرحوم پروفیسر اصغر سودائی کا ہے۔ پاکستان کا مطلب کیا، لاالہ الاللہ“ کا نعرہ تحریک پاکستان سے قیام پاکستان تک اور اب ہر پاکستانی کے دل کی آواز ہے۔ یہ پروفیسر اصغر سودائی کی معروف نظم کاحصہ تھا۔ انہوں نے 1944ء میں ایک جلسہ عام میں اپنی ” نظم پاکستان کا مطلب کیا، لاالہ الااللہ“ سنائی تو یہ اس قدر مقبول ہوئی کہ ہندوستان کے گلی کوچوں میں زبان زدعام ہوگئی۔
خوش قسمتی سے مولانا حسر ت موہانی جیسی با اصول، کھری اور ادبی شخصیت پر ہماری تاریخ خاموش نہیں ہے وہ اپنی انفرادی حیثیت میں جس قدر سادہ اور صاف ستھرے کردار کے مالک تھے اُسی قدر سیاسی طور پر بھی وہ بلند و بالا اور ں سے الگ تھلگ نظر آتے تھے۔ تحریک پاکستان میں ایسی پیاری و ہردل عزیز شخصیت دور دور تک نظر نہیں آتی۔ ان کا کہا گیا یہ شعر آج تک زبان زد عام ہے۔
ہے عشقِ سخن جاری، چکی کی مشقت بھی اک طرفہ تماشا ہے حسرت کی طبیعت بھی
یوں تو مولانا حسرتؔ موہانی کو اُن کی عزلیہ شاعری کی بدولت اُن کی حیات میں ہی ’’رئیس المتغزلین‘‘کا لقب دیا جاچکا تھا لیکن ان کی شاعری نے اس عہد کی تحریک میں اس جادو کا کام دکھایا جو بڑی بڑی تقریریں کرنہ پائیں۔ ان کا ’’ اردوئے معلی “مولانا محمد علی جو ہرکے ’’کامریڈ ( Comrade ) “اورمولانا محمد علی جوہر اور مولانا شوکت علی جو تاریخ میں علی برادران کے ناموں سے مشہور ہوئے اگرچہ تحریک خلافت ے مسلمانوں کے دلوں میں ہلچل مچادی اور اس کا رخ پاکستان کی بنیاد کا سبب بنا وہ بنیادی طورپر ایک شاعر اور ادیب تھے اور ایک عرصے سے مسلمانوں کے انگریزی داں طبقے کے لیے ایک انگریزی اخبار کی ضرورت محسوس کررہے تھے اس طرح کا مریڈ کی داغ بیل ڈالی گئی جس کے ادارے آج بھی حوالوں میں وقت پاتے ہیں انہوں نے” ہم درد ’’ نامی اردو اخبار بھی اُسی زمانے میں شائع کیا جب سرسید احمد خان سیاسی منظر پر آئے۔
آج روشن خیالی کےجن الفاظ نے عوام میں ہلچل پیدا کردی تھی یہ اصطلاح صرف معنوی حد تک نہیں بلکہ سر سید احمد خاں کی عملی جدوجہد کا ایک نعرہ ا س عہد میں بنا جب مسلمان گھرانوں میں انگریزی پڑھنا لکھنا متروک ہوچکا تھا۔یہاں میں علی گڑھ میں ان کے جدوجہد سے قائم کیے گئے ایم اے او کالج کا ذکر چھپڑوں جو بعد میں مسلم یونیورسٹی، علی گڑھ کا اختصاس حاصل کرچکا اور آج بھی ہندو ستان میں مسلمانوں کا منفرد تعلیمی ادارہ ہے تو بات دور تک چلی جائے گی۔ سرسید احمد خاں نے اسی عہد میں ایک اخبار’’ تہذیب الا خلاق‘‘ بھی شائع کیا جس نے مسلم گھرانوں میں بے داری اور کردار سازی کا کام انجام دیا۔ یہاں میں برسبیل تذکرہ حیدر آباد دکن (بھارت) کی عثمانیہ یونیورسٹی کے کردار کو بھی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے ساتھ جوڑتے ہوئے اگر یہ کہوں کہ ان دونوں یونیورسٹیوں نے پاکستان بننے سے بہت پہلے ہی اس نوزائیدہ ملک کی ضرورت پوری کرنے میں اس بنیادی ڈھانچےکا کام کیا جس پر پاکستان کی عمارت تعمیر کی گئی۔ اس مختصر سی تحریر میں، میں اگر میں نواب بہادر یار جنگ کا ذکر نہ کروں تو یہ ادھوری لکھت بھی مزید نا مکمل رہ جائے گی۔ اپنی علمی استعداد اور شعلہ بیانی کی ماورائی صلاحیت کے پس منظر میں نواب صاحب بہت جلد ہی قائد اعظم کے دست ریاست بن گئے اور اکثر مقامات پر انہوںنے قائداعظم کی انگریزی تقریروں کا فی البدیہہ اردو ترجمہ عوام کی داد و تحسین کے شورمیں پیش کیا ان کے اصل نام محمد بہادر خان کے ساتھ نظام دکن کا دیا ہوا خطاب ’’بہادر یار جنگ‘‘ دراصل اس تاریخی تقریر کا نتیجہ ہے جو انہوںنے سیرت کے ایک جلسے میں فتح میدان میں کی تھی۔
نظامِ دکن اس مقدس جلسے میں موجود تھے انہوںنے تقریر کے کئی حصے دوبارہ ان سے سننے اور پھر اگلے دن یہ خطاب ان کے نام کا لاحق بن گیا۔ وہ بنیادی طورپر ایک شاعر تھے اور اردو ادب سے ان کا لگائو قدرتی تھا ان کی خطیبانہ شعلہ بیانی سے الگ ہٹ کر بھی ہم دیکھیں تو ان کے عشقِ رسولؐ کی تابند گی آپ کو ان کی اس نعت: اے کہ ترے وجود پر خالقِ دو جہاں کو ناز اے کہ ترا وجود ہے وجیہہ وجود کائنات میں بدر جہ اتم نظر آئے گی۔ یہ نعت آج بھی ریڈیو پاکستان اور ٹیلی ویژن کے مختلف چینلوں کے دینی پروگراموں کا اختصاص بنی ہوئی ہے۔ بہرحال بات ہورہی تھی ان کی تقریری صلاحیت کی جو اس دور میں مقبولیت حاصل کرسکی جس دور میں مولانا محمد علی جوہر، سید عطا اللہ بخاری ابو الکلام آزاد اور ڈاکٹر نذیر احمد جیسے نابغہِ روز گار ہستیوں کا طوطی بول رہا تھا۔میں اپنی تجریہ کو محدود وقت کے پیش نظر یہیں ختم کرتا ہوں ورنہ تحریک پاکستان کی جدوجہدمیں شریک ہونے والوں میں مولانا آزاد سبحانی، عبدالباری فرنگی محلی اور ظفر علی خان جیسے ادیبوں کی ایک طویل توجہ طلب فہرست بھی ہنوزتشنہ تحریر ہے۔
غرضیکہ تحریک پاکستان میں شعراء وادباء کاخاص کردار رہاہے۔ مسلمان ہندعلیحدہ تشخص کی تلاش میں تھے، ایسے میں شعراء وادباء اٹھے انگریزوں کے خلاف نظمیں لکھیں، آزادی ہند کی بات کی۔ اس ضمن میں قید وبند کی صعوبتیں بھی برداشت کیں، اُن میں حسرت موہانی کانام نمایاں ہے۔ علامہ اقبال نے علیحدہ مملکت کاخاکہ پیش کیا۔ مولانا ظفر علی نے جوش وولولے سے لبریز تحریریں لکھیں۔
درحقیقت قوم کی نظریاتی روح اور تشخص جتنا توانا ہوگا وہ قوم اپنی نظریاتی وابستگی کے ساتھ اتنی ہی بلند ہوگی۔ نظریہ ہی کسی قوم کے اندر احساس ذمہ داری کو جنم دیتا ہے۔ نظریات وخیالات نے اسلامیان ہند کے جذبوں کو جلابخشی اور سب یکجا ہو کرایک آزاد مملکت کے حصول کے لیے ایک آواز بن کراٹھ کھڑے ہوئے۔ مقصد اور نصب العین کو خوابوں کی تعبیر دینے میں شاعروں اور ادبیوں کی آواز ہرگام اس نصب العین کا حصہ بنی جس پر جتنا بھی فخر کیا جائے کم ہے۔