تحریر : محمد عبداللہ کسی بھی معاشرے یا قوم کی حقیقی دولت ا ور سرمایہ اس کے بینکوں میں پڑا سونا یا جیبوں میں موجود کرنسی نوٹ یا وسیع و عریض جائدادیں نہیں ہوتیں بلکہ ملک و قوم کی حقیقی دولت اس ملک کے تعلیمی اداروں میں زیر تعلیم طلباء ہوتے ہیں ۔ یہی طلباء ہی ہیں جن کو معاشروں اور قوموں میں مستقبل کے معماروں کے نام سے جانا جاتا ہے۔ صحت مند معاشرے اور بیدار مغز قومیں اپنی اس دولت اور مستقبل کو سنوارنے کی فکر میں ہوتے ہیں جبکہ ناعاقبت اندیش قومیں اور معاشرے اس خصوصیت سے عاری ہوتے ہیں۔
ہماری بدقسمتی ہے کہ ہمارے ناخداؤں کی تعلیم دشمن پالیسیوں اور اپنے طلباء پر خصوصی توجہ نہ دینے کی وجہ سے ہمارا شمار مؤخر الذکر قوموں میں ہو رہا ہے۔ آپ پورے پاکستان میں کسی بھی جگہ کسی بھی کالج یا یونیورسٹی میں زیر تعلیم طلباء کی مجلس کا کچھ دیر کے لیے حصہ بن کر دیکھ لیجیئے آپ کو عصر حاضر کے طلباء کے علم و حکمت اور سوچ و فکر کی وسعت کا اندازہ ہوجائے گا۔ ہمارے طلباء میں اکثریت وہ لوگ ہیں جو پاکستان، نظریہ پاکستان، قیام پاکستان کے حالات و واقعات ، مملکت خداداد کے کے قیام کے لیے دی جانے والی لاکھوں قربانیوں اور یہاں تک کہ اسلام کے بنیادی عقائد سے ہی نابلد ہوتے ہیں۔ ہمارے مستقبل کے معماروں کی سوچ اور فکر کے گھوڑے بالی وڈ کے ننگے اور ناپاک حسن تک ہی دوڑ سکتے ہیں۔ جن کی زبان پر قرآن اور محمدﷺ کے فرمان کی بجائے ماں اور بہن کی گالی ہوتی ہے۔ میں پاکستان کے طول و عرض میں جب مستقبل کے معماروں کا یہ حشر دیکھتا ہوں تو اقبال کے یہ اشعار زبان پر آجاتے ہیں۔
کبھی اے نوجوان مسلم تدبر بھی کیا تو نے وہ کیا گردوں تھا تو ہے جس کا اک ٹوٹا ہوا تارا تجھے اس قوم نے پالا ہے آغوش محبت میں
کچل ڈالا تھا جس نے پاؤں میں تاج سردارا میں عصر حاضر کے طلباء کی فلمی ڈائیلاگز پر مبنی ڈینگیں اور مستقبل کے حوالے سے جھوٹے دعوے سنتا ہوں ہوں تو دل میں یہ سوچ پیدا ہوتی ہے۔
تجھے آباء سے اپنے کوئی نسبت ہو بھی نہیں سکتی کہ تو گفتار وہ کردار ، تو ثابت وہ سیارا
تو میں ماضی کے دھندلکوں میں کھو سا جاتا ہوں کہ وہ بھی ہمارے ہی آباؤ اجداد تھے جنہوں نے اس وطن عزیز پاکستان کے قیام کی خاطر اپنے روشن مستقبل کی خواہشات کو دل میں دبا کر حکم قائد پر لبیک کہتے ہوئے اپنی اپنی تعلیمی مصروفیات کو پس پشت ڈالتے ہوئے دو قومی نظریہ کی ترویج و اشاعت کے لیے برصغیر کے طول و عرض میں پھیل گئے تھے اور وہی تو تھے تحریک آزادی پاکستان کے وہ گمنام مجاہدین کہ جن کی انتھک محنتوں سے پورا برصغیر اس نعرے سے گونج اٹھا تھا کہ “پاکستان کا مطلب کیا ۔ ۔ ۔ لاالہ الا اللہ” ۔یہ طلباء ہی تھے کہ جن کو بانی پاکستان محمد علی جناح تحریک آزادی پاکستان کا ہراول دستہ کہتے تھے اور طلباء نے اپنے کردار عمل سے اس بات کو ثابت کیا تھا کہ وہ واقعی تحریک آزادی پاکستان کا ہراول دستہ ہیں جنہوں نے لاالہ الا اللہ کی جاگیر اس پاکستان کے قیام کے لیے اپنا سب کچھ داؤ پر لگا دیا تھا۔ جب ہندو بنیا ان ناپاک اردوں میں تھا کہ انگریزں سے برصغیر سے جانے کے بعد وہ برصغیرکے سیاہ و سفید کا مالک ہوگا اور مسلمانوں پر حکومت کرکے ان سے پچھلے ہزار سالہ دور غلامی کا بدلہ لے گا۔
ایسے وقت میں کچھ ابن الوقت علماء و مشائخ اور مسلمان جماعتیں بھی کانگرس کے اکھنڈ بھارت کے نطریے کی ہمنوا تھیں اور برصغیر کی تقسیم کے مخالف تھیں ۔ ایسے وقت میں مسلمانان برصغیر کے عظیم رہنما محمد علی جناح نے برصغیر کے مسلمانوں کو مسلم لیگ کے جھنڈے تلے جمع کرنے اور دو قومی نظریہ کے پلیٹ فارم پر لانے کے لیے اپنے ترکش کے سب سے کارگر تیروں طلباء کو یہ عظیم مشن دے کر پورے برصغیر میں پھیلا دیا۔پاکستان کے قیام کی خاطر تاریخ کے یہ گمنام مجاہدین اپنے قائد کی پکار پر لبیک کہتے ہوئے مشہور زمانہ علیگڑھ یونیورسٹی، اسلامیہ کالج لاہور اور اسلامیہ کالج پشاور جیسے تعلیمی اداروں سے نکلے اور قریہ قریہ ، بستی بستی اور نگر نگر نظریہ پاکستان کا پیغام پہنچا دیا اور پوری قوم کو یہ نعرہ دیا کہ مسلم ہے تو مسلم لیگ میں آ۔ پاکستان کے ممتاز عالم دین مولانا پروفیسرعبداللہ بہاولپوری مرحوم جوکہ علی گڑھ سے گریجوایٹ تھے وہ بیان کرتے ہیں کہ محمد علی جناح نے ہم طلباء کے دستے تشکیل دئے اور ہمیں سندھ اور سرحد کے دور دراز علاقوں میں مختلف سرداروں اور وڈیروں کے پاس بھیجا اور مسلمانان برصغیر کو مسلم لیگ کی چھتری تلے جمع کرنے کا ٹاسک دے کر بھیجا۔ جب مسلم اکثریتی صوبوں میں کانگرس کے ظالمانہ دور حکومت کے خاتمے پر محمد علی جناح نے اس دن کو “یوم نجات” کے طور پر منانے کی اپیل کی تو ان طلباء نے پورے برصغیر میں جشن کا سماں باندھ دیا۔ 1946 کے انتخابات میں مسلم لیگ کی واضح کامیابی اور برصغیر کے مسلمانوں کا مسلم لیگ پر اعتماد کا اظہار ان طلباء کی محنتوں اور کاوشوں کا ہی نتیجہ تھا۔
یہی وجہ تھی کہ قائد اعظم محمد علی جناح ان طلباء سے بہت محبت کیا کرتے تھے اور بذات خود طلباء کے پروگراموں میں شرکت فرمایا کرتے تھے۔ 1941 میں قائداعظم نے اسلامیہ کالج لاہور میں منعقدہ پاکستان کانفرنس کی صدارت فرمائی۔پنجاب کے طلبہ نے پنجاب کی یونینسٹ حکومت کی بھرپور مخالفت کی تھی۔ اسی طرح محمد علی جناح جب بھی پشاور تشریف لے جاتے تو اسلامیہ کالج پشاور میں ضرور جاتے۔ اسلامیہ کالج پشاور سے بانئی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کا خاص لگاؤ تھا۔ قائداعظم کی عقیدت اور دلی محبت کا اندازہ اس سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ 1939ء میں آپ نے ایک وصیت کے ذریعے اپنی ذاتی جائیداد برصغیر کے تین مسلم درسگاہوں کے لیے وقف کی۔ ان درسگاہوں میں مسلم یونیورستی علی گڑھ ، اسلامیہ کالج پشاور ، اور سندھ مدرسۃ الاسلام کراچی شامل ہیں۔ بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح اپنی پوری زندگی میں تین مرتبہ صوبہ خیبر پختونخوا تشریف لائے۔ آپ نے یہ دورے بالترتیب 1936ء ، 1945ء اور 1948ء میں کئے۔ ہر مرتبہ آپ نے پشاور میں قیام کے دوران اسلامیہ کالج پشاور کو دیکھنے اور طلبہ سے خطاب کرنے کے لیے وقت نکالا۔
تحریک آزادی پاکستان کے ان گمنام ہیروز کی شبانہ روز کاوشوں کی وجہ سے اقبال کے خوابوں کو تعبیر ملی اور پاکستان مملکت خداداد کی شکل میں دنیا بھر کے مسلمانوں کے لیے امید کی کرن بن کر دنیا کے نقشے پر ابھرا اور پھر یہیں پر بس نہیں بلکہ قیام پاکستان کے بعد مہاجرین کے قافلوں کی حفاظت اور لاکھوں مہاجرین کی آبادکاری میں میں بھی ان طلباء نے بہت بڑا کردار ادا کیا تھا۔ میں ماضی کی یادوں کے دریچوں سے نکل کر حال کے کھلے دروازے میں آن موجود ہوتا ہوں تو اپنے سامنے شتر بے مہار طلباء کو دیکھ کر دل سے اک ہی آہ نکلتی ہے۔
خدا تجھے کسی طوفان سے آشنا کردے تیرے بحر کی موجوں میں اضطراب نہیں
Muhammad Abdullah
تحریر : محمد عبداللہ حیدرآباد، سندھ 7885196@gmail.com 03346419973 2 Attachments