کراچی (جیوڈیسک) متحدہ کی ایک اور وکٹ گر گئی۔ پی ایس 117 سے موجودہ رکن سندھ اسمبلی ڈاکٹر صغیر مصطفیٰ کمال کے قافلے میں شامل ہو گئے۔ متحدہ قیادت پر الزامات لگائے، کئی سوال بھی اٹھائے۔ سابق وزیر صحت سندھ ڈاکڑ صغیر نے مصطفیٰ کمال اور انیس قائم خانی کے ساتھ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ وہ ان لوگوں کے ساتھ مل کر پاکستان کیلئے کردار ادا کرنا چاہتے ہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کراچی ترقی کرے گا تو پاکستان ترقی کرے گا کیونکہ کراچی پاکستان کی شہ رگ ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا ملک دشمنوں کو شکست دینے کیلئے کردار ادا کرنا چاہتے ہیں۔ ملک میں زیادتی اور ظلم کو دیکھ رہا تھا مزید میرا ضمیر گوارہ نہیں کر سکتا تھا اس لئے ان لوگوں کے ساتھ شامل ہوا ہوں۔ انہوں نے کہا مصطفیٰ کمال اور انیس قائم خانی نے وہ باتیں کی ہیں جو زبان زد عام ہیں۔ ڈاکٹر صغیر نے کہا میں کمزوری اور مصلحتوں کا شکار رہا ہوں لاکھ نہ چاہتے ہوئے خون کے گھونٹ پیتا رہا۔ 1992 میں جو کچھ دیکھا آج تک یاد ہے اور جس قسم کے انکشافات میں نے دیکھے اب ضمیر اجازت نہیں دیتا۔ ان کا مزید کہنا تھا مجھے یقین ہے بہت سے باضمیر لوگ مصطفیٰ کمال کے قافلے میں شامل ہوں گے اور اتنے لوگ شامل ہو جائیں گے جگہ کم پڑ جائے گی۔
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ قوم نے آپ کو سب کچھ دیا آپ نے قوم کو کیا دیا۔ ضمیر بھی کوئی چیز ہے اس دنیا سے جانا بھی ہے۔ مینڈیٹ کے بدلے میں لوگوں کو نشے میں دھت تقرریں ملیں۔ کون والدین اپنے بچوں کے سامنے ایسی تقریریں سن سکتا ہے؟۔ “را” کے حوالے سے ہم سمجھتے رہے سب جھوٹ ہے مگر سب کچھ سامنے آیا تو آنکھیں کھلیں۔ ملک دشمنی ، ہڑتالوں کی سیاست نے شہر کی معیشت کو نقصان پہنچایا گیا۔ ایم کیو ایم کا ہر کارکن ذمہ دار محب وطن ہے اور کمیونٹی کو قومی دھارے میں لایا جائے۔ آج جنازے اٹھ رہے ہیں تو تمہیں ہوش نہیں ہے۔ آپ کو تو وہ لوگ چاہیئے جو سروس دیتے ہوں۔ میرا اختلاف رہا کہ خدا کے واسطے کارکنوں کو ٹشو پیپر کی طرح استعمال نہ کرو۔ مہاجر اور اردو بولنے والے پاکستان مخالف نہیں حب الوطنی پر شک نہ کیا جائے۔
پریس کانفرنس کے دوران بچوں کی ہلاکت پر ڈاکڑ صغیر آبدیدہ بھی ہوئے اور کہا شناختی کارڈ دیکھ کر لاشوں کے ٹکڑے کیے گئے یہ کونسی سیاست ہے اور کونسا کردار ہے؟۔ رنچھوڑ لائن کے بچوں کیساتھ جو کچھ کیا گیا ویڈیو سب کے سامنے ہیں؟ ۔ لوگوں کے جنازے اٹھا کر سی ایم ہاؤس لیجاتے تھے کیا یہ ہے سیاست؟۔ آپ کو اپنے علاوہ کچھ نظر نہیں آتا۔ کارکنوں کی فیملی اگر کوئی جذبات میں بات کرے تو مارا جاتی تھی۔
انہوں نے کہا ایم کیو ایم کی قیادت سے کہتا ہوں کارکنوں کی عزت کرو۔ ہم عہدے لینے ایم کیو ایم میں نہیں آئے تھے۔ صوبے میں مہاجر کارڈ استعمال ہو رہا ہے اور جب آپ پر بُرا وقت آیا تو آپ نے مہاجروں کے پیچھے پناہ لی۔ آج جن لوگوں کو آپ پوچھتے نہیں انہوں نے ہی آپ کو بنایا ہے۔ آپ تو چاہتے ہیں لاشیں گرتی رہیں، پوائنٹ اسکورنگ ہوتی رہے اور آپ کی سیاست عروج پر رہے۔ پہلے مارا جاتا پھر معافیاں مانگی جاتی ہیں۔ لندن میں کہا گیا کہ ملک دشمن سے مدد مانگ لی تو کیا ہوا؟۔ انہوں نے ایم کیو ایم اور سندھ اسمبلی کی رکنیت چھوڑنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا اپنے ووٹر سے معذرت کرتا ہوں ڈلیور نہیں کر پایا۔