ایم کیو ایم کا فیصلہ دباؤ کا نتیجہ یا نئی سیاسی حکمت عملی؟

Farooq Sattar

Farooq Sattar

تحریر : سید توقیر زیدی
متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) نے الطاف حسین اور اپنے لندن دفتر سے لاتعلقی کا اعلان کر دیا ہے اور کہا ہے کہ ضرورت اِس بات کی ہے کہ ایم کیو ایم اپنی سیاست پاکستان سے کرے، الطاف حسین نے گزشتہ روز کراچی میں بھوک ہڑتالی کیمپ سے ویڈیو لنک کے ذریعے خطاب کرتے ہوئے پاکستان مخالف نعرے لگوائے تھے اور اشتعال انگیز تقریر کرتے ہوئے کارکنوں سے کہا تھا کہ وہ جائیں اور جا کر تین میڈیا ہاؤسز پر حملہ کر دیں، تقریر ختم ہونے کے بعد کارکنوں نے ”اے آر وائی” چینل پر حملہ کر دیا۔ ڈاکٹر فاروق ستار نے کہا کہ اْن کی جماعت پورے پاکستان کے اتحاد کی بات کرتی ہے، پاکستان مخالف نعروں سے لاتعلقی کا اعلان کرتی ہے اور گزشتہ روز میڈیا ہاؤس پر تشدد کے جو واقعات ہوئے اْن کی حمایت بھی نہیں کرتی۔ یہ ہنگامہ آرائی کرنے والے اگر ایم کیو ایم کے کارکن تھے یا نہیں تھے،دونوں صورتوں میں تشدد کی حمایت کرنا ہماری پالیسی نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ ایم کیو ایم کا نقطہ نظر ہے اور اِس کا اظہار کرنے کے لئے وہ پیر کے روز بھی کراچی پریس کلب میں آئے تھے، لیکن اْنہیں یہاں سے لے جایا گیا اور صحافیوں سے بات نہیں کرنے دی گئی۔ کل بھی ہم نے یہی باتیں کرنی تھیں، اب ہم جو بات کر رہے ہیں اس کے متعلق یہ گمان کیا جا سکتا ہے کہ شاید یہ ہم کسی کے کہنے پر کر رہے ہیں۔کراچی میں ایم کیو ایم کے بھوک ہڑتالی کیمپ میں موجود کارکنوں کے ساتھ الطاف حسین نے لندن سے جو اشتعال انگیز خطاب کیا اور میڈیا ہاؤسز سمیت رینجرز ہیڈ کوارٹرز اور وزیراعلیٰ ہاؤس کو نشانہ بنانے کی مشتعل کرنے والی ہدایات دیں اس کے بعد ایم کیو ایم کی خواتین کارکنوں سمیت بہت سے لوگ جلاؤ گھیراؤ پر اْتر آئے۔ ٹی وی چینل کے دفتر میں گھس گئے اور وہاں توڑ پھوڑ کی ، شیشے توڑ دیئے، ٹیلی ویڑن اور ٹی وی سیٹ اْٹھا اْٹھا کر فرش پر پٹخ دیئے، سامان تہس نہس کر دیا اور دفتر میں موجود کارکنوں سے موبائل وغیرہ چھین لئے، اِس سے پہلے ملحقہ عمارتوں میں بھی توڑ پھوڑ کی گئی اور سڑک پر دو پولیس اہلکاروں کو بھی تشدد کا نشانہ بنایا۔

تشدد کی اِس کارروائی میں ایک شخص ہلاک اور ایک درجن زخمی ہو گئے، پولیس اور رینجرز نے ایم کیو ایم کے رہنماؤں سمیت متعدد گرفتار کئے، نائن زیرو سربمہر کر دیا۔ زونل دفاتر بند کر دیئے گئے، کراچی سے باہر سندھ کے کئی شہروں میں بھی دفتر سیل کر دیئے گئے، گرفتار رہنماؤں میں سے بعض کو بعد میں رہا کر دیا گیا اور کئی کو انسدادِ دہشت گردی کی عدالت میں پیش کر کے اْن کا جسمانی ریمانڈ حاصل کر لیا گیا۔ کئی رہنما روپوش ہو گئے ہیں، بہت سے رہنماؤں نے پارٹی سے لاتعلقی کا اعلان کر دیا اور زہریلی تقریر کے مدِ مقابل موقف اختیار کر لیا۔ فاروق ستار کے علاوہ بھی بہت سے رہنماؤں نے اپنے طور پر الطاف حسین کے بیان سے لاتعلقی کا اعلان کرتے ہوئے اسے غلط قرار دیا۔

Rangers

Rangers

حکومتِ سندھ اور قانون نافذ کرنے والے اداروں نے اِس واقعے کے بعد ایسے اقدامات کئے کہ شہر کی سرگرمیاں معمول کے مطابق رہیں اور کوئی غیر معمولی واقعہ پیش نہ آیا۔ گزشتہ رات ہی رینجرز حکام نے کہہ دیا تھا کہ شہر میں کوئی ایک دکان بھی بند نہیں ہونے دی جائے گی اور ٹریفک کی روانی میں بھی کوئی رکاوٹ نہیں آنے دی جائے گی، چنانچہ منگل کا دِن اِس لحاظ سے ایک خوشگوار دن تھا کہ جب تعلیمی ادارے معمول کے مطابق کھلے اور بند ہوئے، عدالتوں میں وکلائ اور سائلین کی حاضری بھی حسبِ معمول تھی۔ پورے شہر میں رونق اور چہل پہل تھی، بازاروں میں لوگ خریداری کے لئے نکلے ہوئے تھے۔ غرض کسی جگہ بھی کوئی افراتفری یا بے اطمینانی نہیں تھی، نہ لوگوں کے چہروں پر خوف کے کوئی آثار تھے، جس میڈیا ہاؤس کو ایم کیو ایم کے کارکنوں نے نشانہ بنایا تھا اس کی نشریات بھی حسبِ سابق ریلے ہو رہی تھیں۔

کراچی میں طویل عرصے کے بعد ایسے مناظر دیکھنے میں آئے کہ ایک دِن شہر میں بدامنی ہوئی اور رات گزرنے کے بعد دوسرے ہی روز شہر پْرامن ہو گیا، ماضی میں تو جب کبھی ایسا ہوا اگلے کئی کئی دن کے لئے احتجاجی طور پر شہر بند کرا دیا گیا، پورے شہر میں بندوق بردار گھوم پھر کر زبردستی ہر قسم کا کاروبار بند کرانے لگے اور آناً فاناً دکانیں بھی بند ہو گئیں، لوگ جلدی جلدی گھروں کو جانے لگے اور گھر پہنچ کر اطمینان کا سانس لیا۔ منگل کو اشتعال انگیز تقریر کا اثر چند گھنٹوں سے زیادہ نہ رہا، بلکہ مقرر کے اپنے ہوش و حواس جب بحال ہوئے تو انہوں نے بھی اپنی تقریر پر معافی مانگ لی اور ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ وہ آئندہ ایسی حرکت کبھی نہیں کریں گے، لیکن سوال یہ ہے کہ اشتعال انگیز تقریر میں جو لب و لہجہ اختیار کیا گیا تھا اْس کا نشہ اتنی جلد ہرن کیسے ہو گیا؟۔

کیا یہ پہلی مرتبہ ہے کہ انہوں نے ایسی تقریر کی ہو اور پھر اس پر معافی مانگی ہو؟ اس سے پہلے وہ درجنوں نہیں سینکڑوں مرتبہ ایسی ہی اشتعال انگیز تقریریں کرتے رہے ہیں یہاں تک کہ فوجی حکام کو کھلی دھمکیاں بھی دیتے رہے ہیں۔گزشتہ روز کی تقریر میں بھی انہوں نے کہا کہ مَیں دیکھنا چاہتا ہوں کہ بارہ گھنٹے کے اندر رینجز ہیڈ کوارٹرز پر حملہ ہو،انہوں یہ اشتعال انگیز الفاظ بھی کہے کہ مجھے فوجیوں کے خاندانوں سے بدلہ لینا ہے۔ ماضی میں بھی اْن کی ایسی ہی اشتعال انگیزیاں تھیں، جس کی وجہ سے ٹی وی چینلوں کو عدالتی حکم کے ذریعے پابند کر دیا گیا کہ وہ اْن کی کوئی تقریر ٹیلی کاسٹ نہ کری۔ الطاف حسین کی تقریروں پر اسی پابندی نے اْنہیں سیخ پا کر رکھا تھا۔

Altaf Hussain

Altaf Hussain

فاروق ستار نے الطاف حسین سے لاتعلقی کا اعلان تو کر دیا ہے، لیکن خود الطاف حسین نے ایم کیو ایم کو چھوڑا ہے یا نہیں یہ ابھی چند روز میں واضح ہو گا۔ الطاف تو ماضی میں بھی کئی دفعہ قیادت سے دستبردار ہوئے، لیکن جب اْن کے کارکنوں نے اْن سے رو رو کر التجا کی تو وہ اپنے منصب پر واپس آ گئے۔ گزشتہ روز بھی انہوں نے اپنی تقریر میں کہا تھا کہ انہوں نے پارٹی فاروق ستار کے سپرد کر دی پھر تھوڑی ہی دیر بعد اپنا یہ فیصلہ بھی بدل دیا۔ اب سوال یہ ہے کہ فاروق ستار اور اْن کے چند ساتھیوں نے جو فیصلہ کیا ہے کیا ایم کیو ایم کے کارکن بھی اِس فیصلے سے متفق ہیں یا نہیں؟یہ بات بھی اہم ہے کہ کیا پارٹی کا مسلح ونگ بھی ختم کر دیا جائے گا، جو تمام تر خرابیوں کی بنیاد ہے اور جس سے وابستہ لوگ دورانِ حراست بڑے بڑے انکشافات کر رہے ہیں اور اپنے جرائم کو تسلیم بھی کر رہے ہیں۔ گزشتہ روز کی تقریر کے بعد جب متحدہ کے تمام دفاتر سربمہر کر دیئے گئے تھے اور پارٹی کے رہنماؤں کی گرفتاریاں شروع ہو گئی تھیں تو کراچی میں موجود رہنماؤں کے لئے اس کے سوا کوئی راستہ نہیں بچا تھا کہ وہ اپنے آپ کو الطاف حسین سے الگ کر لیتے،یا پھر سخت کارروائی کے لئے تیار رہتے۔

اِس لئے اِس فیصلے کو وقتی مصلحت اور حکمتِ عملی بھی قرار دیا جا سکتا ہے اور وقت ہی ثابت کرے گا کہ فاروق ستار نے جو فیصلہ کیا ہے وہ مستقبل میں اِس پر کس حد تک عمل پیرا ہوتے ہیں؟ مارچ میں جب مصطفےٰ کمال نے بیرون مْلک سے واپس آ کر اعلان کیا تھا کہ وہ امن کی سیاست کریں گے اور کراچی کو امن کا گہوارہ بنائیں گے تو ایم کیو ایم کے بہت سے کارکن پارٹی چھوڑ کر اْن کے ساتھ آ ملے تھے۔ اب مزید ارکان بھی اْن کے ساتھ جائیں گے تاہم انہوں نے الطاف حسین پر ”را” سے فنڈنگ لینے کے بارے میں جو انکشافات کئے تھے کِسی عدالتی فورم پر اْن کا فیصلہ ہونا ابھی باقی ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ الطاف حسین ایم کیو ایم کے ورکروں کی لاشوں پر سیاست کرتے ہیں اور جب بھی کسی کارکن کی لاش گرتی ہے تو وہ خوش ہوتے ہیں کہ اْن کی سیاست کو مزید ایندھن مل گیا ہے۔

اب دیکھنا یہ ہو گا کہ فاروق ستار نے اپنے قائد سے جو علیحدگی اختیار کی ہے وہ مصلحت یا حکمت عملی کے تحت ہے یا سوچا سمجھا فیصلہ ہے، جس کے تحت حالات دوبارہ ”ساز گار” ہوتے ہی پھر بچھڑے ہوؤں کا ملاپ ہو جائے۔ فاروق ستار نے اپنے قائد کی نفرت انگیز تقریر کے بالمقابل ”پاکستان زندہ باد” کا جو نعرہ لگایا ہے وہ اگر وقت کی کسوٹی پر پورا اْترے گا تو اْن کے اخلاص کی گواہی ملے گی ورنہ لوگ یہی سمجھیں گے کہ فاروق ستار نے دباؤ سے نکلنے کے لئے یہ سیاسی ڈرامہ کیا ہے۔ اب اْن کے اعلانات کی صداقت وقت ہی ثابت کرے گا۔

Syed Tauqeer Hussain Zaidi

Syed Tauqeer Hussain Zaidi

تحریر : سید توقیر زیدی