تحریر: سید انور محمود بارہ مئی 2007ء کراچی میں ہنگامے، 40 افراد ہلاک۔ سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری اور سابق صدر جنرل پرویز مشرف کی حمایت میں عوامی طاقت کے مظاہرے کے دوران ہنگامہ آرائی ہوئی جس میں جماعت اسلامی، پیپلز پارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی نے ایم کیو ایم پر فسادات میں ملوث ہونے کا الزام عائد کیا مگر ایم کیو ایم نے الزامات کو مسترد کیا، لیکن اس وقت سے 12 مئی ایم کیو ایم کےلیے ایک برا دن کہا جاتا ہے۔
بارہ مئی 2015ء کی صبح ساڑھے چار بجے ایم کیو ایم کے ایک کارکن صولت مرزا کو پھانسی دے دی گئی، صولت علی خان جسے صولت مرزا کے نام سے جانا جاتا تھا، ایم کیو ایم کا ایک کارکن تھا۔ 1999 میں انسداد دہشتگردی کی ایک عدالت نے صولت مرزا کو 1997 میں اس دور کے کراچی الیکٹرک سپلائی کارپوریشن کے مینجنگ ڈائریکٹر شاہد حامد، اُن کے ڈرائیور اشرف بروہی اور محافظ خان اکبر کو فائرنگ کر کے ہلاک کرنے کے جرم میں سزائے موت سنائی تھی۔ کسی بھی سیاسی جماعت کو آگے بڑھانے میں اُس کے کارکن سب سے زیادہ کردار ادا کرتے ہیں لیکن بدقسمتی سے ہمارئے ملک کی سیاسی جماعتوں کے رہنما اپنی پارٹی کے کارکنوں کوصرف اپنے مقاصد کےلیے استمال کرتے ہیں اور وقت آنے پر پہچاننے سے انکار کردیتے ہیں، ایسا ہی صولت مرزا کے ساتھ ہوا اورایم کیو ایم کا موقف تھا کہ صولت مرزا کو قتل سے قبل پارٹی سے برطرف کیا جاچکا تھا جبکہ صولت مرزا کی جانب سے پارٹی کے دعویٰ کی تردید کی گئی۔
Sult Mirza
اس سال جب صولت مرزا کو 19 مارچ کو پھانسی دینے کا اعلان ہوا تو ایم کیو ایم نے ہر طرح سے صولت مرزا سے لاتعلقی کرلی۔ 18 مارچ کی رات کو صولت مرزا کی پھانسی سے صرف پانچ گھنٹے پہلے میڈیا کو ایک وڈیو مہیا کی گئی جس میں صولت مرزا نے متحدہ قومی موومنٹ کے قائد الطاف حسین سمیت جماعت کی اہم قیادت پر سنگین الزامات عائد کیے۔ الزامات میں سے ایک الزام یہ ہے کہ کے ای ایس سی کے سابق سربراہ شاہد حامد کےقتل کا حکم الطاف حسین نے صولت مرزا کو بابر غوری کے گھر پر بلاکر بذریعہ ٹلیفون خود دیا تھا۔ الطاف حسین نے صولت مرزا کی جانب سے لگائے جانے والے الزامات کی سختی سے تردید کی ہے اور کہا ہے کہ اس طرح کا بیان ان کی جماعت کے خلاف سازشی منصوبے کا حصہ ہے۔ ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین بہت پہلے ہی صولت مرزا کو پھانسی دیے جانے کے فیصلے کی حمایت کرچکے تھے۔
صولت مرزا کی پھانسی سے قبل اسکے اہل خانہ نے بہت کوشش کی کہ کچھ عرصہ کےلیے صولت مرزا کی پھانسی کو ٹالا جاسکے، اس سلسلے میں سہولت مرزا کی بیگم نگت مرزا نے ہر اُس دروازئے پر دستک دی جہاں سے بھی اُن کو امید نظر آئی، ہائی کورٹ، سپریم کورٹ کے علاوہ اُنھوں نے صدر پاکستان کو بھی رحم کی اپیل بھیجی ہے، جس میں ان کا موقف تھا کہ وہ شاہد حامد کے خاندان سے رابطہ نہیں کرپائی ہیں، انھیں مہلت فراہم کی جائے، اُنکا کہنا تھا کہ وہ شاہدحامد کے خاندان سے بھی رابطہ کرنا چاہتی ہیں، چونکہ شاہد حامد کا خاندان امریکہ منتقل ہوگیا اور ان تک رسائی نہیں تھی اب انصار برنی اور دیگر کچھ لوگوں کے توسط سے اپیل کی ہے کہ راضی نامہ یا صلح نامہ کرا دیں۔ جبکہ شاہد حامد کے خاندان نے کسی بھی راضی نامہ یا صلح نامہ سے صاف انکار کردیا تھا۔
Crime
ایسا نہیں ہے کہ پاکستان میں سیاسی جماعتوں میں پہلے جرائم پیشہ لوگ موجود نہیں تھے، تھے مگر انفرادی طور پر ،مگر اب سیاسی جماعتیں جرائم پیشہ افراد کی وہ چھتری ہیں جس کے سائے میں رہتے ہوئے جرائم کیے جاتے ہیں، ابھی تو صولت مرزا کو پھانسی ہوئی ہے لیکن پاکستان کی جیلوں میں ابھی بہت سارئے پھانسی کے ایسے قیدی موجود ہیں جو مختلف سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھتے ہیں اور اُن میں سے ایک خاصی تعداد ٹارگیٹ کلر اور دہشتگردی کے زریعے لوگوں کے ہلاک کرنے والے مجرم ہیں، اگر ہم صیح معلومات حاصل کرسکیں تو ان میں کچھ ایسے بھی مل جاینگے جو مجرم تو ہیں لیکن جرم کرنے سے پہلے اُن کو اس انجام کا معلوم نہ تھا۔ پاکستان میں اسوقت اکثریت نوجوانوں کی ہے، لیکن بدقسمتی سے ملک میں بیروزگاری عام ہے، 60 فیصد سے زیادہ لوگ غربت کی لکیر سے نیچے رہ رہے ہیں، ایسے نوجوان جب سیاسی جماعتوں میں شامل ہوتے ہیں تو وہ پہلے سے موجود د مجرموں کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں۔
اپنے 18 مارچ کے ویڈیو پیغام میں صولت مرزا نے خود کو نشانِ عبرت قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ وہ ایم کیو ایم میں شمولیت کا ارادہ رکھنے والے اور نئے کارکنوں کو خبردار کرنا چاہتے ہیں کہ وہ انھیں دیکھیں اور عبرت پکڑیں، بقول صولت مرزا کہ “ہمارئے رہنما اپنی پارٹی کے کارکنوں کو استمال کیا ہوا ٹشو پیپر سمجھ کر پھینک دیتے ہیں”۔ صولت مرزا کی اسی بات کو سامنے رکھتے ہوئے نوجوانوں کو چاہیے کہ وہ خواہ کسی بھی جماعت میں شامل ہوں لیکن اپنے آپ کو جرائم میں ہرگز ملوث نہ کریں، والدین کا بھی یہ فرض ہے کہ اپنے بچوں پر نگاہ رکھیں اور اُنکی مصروفیات سے آگاہ رہیں۔ ایم کیو ایم جو پہلے ہی 12 مئی 2007ء کے واقعات کی وجہ سے بدنام ہے، آج 12 مئی 2015ء کو صولت مرزا کی پھانسی کے بعد اب 12 مئی ایم کیو ایم کی مزید بدنامی کا دن بن گیا ہے۔