ایم کیو ایم کے آنسو

Farooq Sattar

Farooq Sattar

تحریر : قادر خان یوسف زئی
متحدہ قومی موومنٹ میں ٹوٹ پھوٹ کا عمل بڑی تیزی سے جاری ہے۔ گوکہ اختلاف رائے کو” جمہوریت کا حسن” قرار دیا جاتا ہے۔ لیکن ایسا لگتا ہے کہ ایم کیو ایم کے کسی گروپ میں میں جمہوریت کی بنیادیں ابھی تک مضبوط نہیں ہوئی ہیں ۔ کیونکہ اس جماعت کے بانی کے ہر حکم کو حرف آخر سمجھ کر بلا سوچے سمجھے عمل کرنے والوں کے سر پر ‘ ڈر و خوف’ کی تلوار نہیں رہی ہے اس لئے اندرون خانہ تنازعات کی وجہ سے ایم کیو ایم میں گروپ در گروپ کا بننا دیگر سیاسی جماعتوں میں’ خوشی ‘کا پیغام بن جاتاہے اور بعض سیاسی جماعتیں رائے زئی کے سنہرے موقع کو ضائع کرنا مناسب نہیں سمجھتی اور طعنے دیکر اپنے دل کا بھڑاس نکال لیتی ہیں۔ سینیٹ کی نشستوں پر ٹکٹ کی تقسیم پر ایم کیو ایم پاکستان میں جس طرح کھل کا اختلافات سامنے آئے ہیں اس قسم کے مناظر عوام پہلی مرتبہ دیکھ رہے ہیں۔ کراچی کے لئے بھی حیرانی کا لمحہ ہے کہ اپنے نظم و ضبط کی مثالی جماعت کہلانے والی ایم کیو ایم میں بد نظمی کی اس قدر بدترین روایت قائم ہوچکی ہے جیسے اب مکافات عمل کا نام بھی دیا جارہا ہے ۔ پارٹی سربراہ رابطہ کمیٹی ختم کردیتے ہیں تو کنوینر رابطہ کمیٹی کو ۔ ایسا لگتا ہے کہ ایم کیو ایم میں کوئی نظم و نسق نہیں ،ورنہ کسی بھی سیاسی جماعت میں یہ اصول رائج ہے کہ اگر کسی کارکن کے خلاف بھی انضباطی کاروائی عمل میں لانا مقصود ہو تو پہلے شوکاز ، پھر اُس کا جواب اور اس کے بعد انضباطی کمیٹی جواب پر فیصلہ کرتی ہے ۔ فیصلے کے بعد بھی عہدے دار یا کارکن کواپیل کا حق موجود ہوتا ہے ۔ لیکن ایم کیوایم کے تمام دھڑوں میں دید و شنید یہی ہے کہ فرد واحد ہی فیصلہ کرتا تھا اور اس کے فیصلے کی بغیر چوں چرا توثیق کردی جاتی تھی۔ شاید ایم کیو ایم پاکستان کے سربراہ ڈاکٹر فاروق ستار بھی وہی اختیارات اپنے لئے مختص رکھنا چاہتے ہیں جو ان کی جماعت کے بانی کے پاس تھے۔

ایم کیو ایم پاکستان کے رہنما عامر خان کو عموماََ ایم کیوایم میں قابل اعتبار نہیں سمجھا جاتا تھا کیونکہ انہیں1992کے کراچی آپریشن میں ایم کیو ایم مخالفت میں اپنا الگ دھڑا بنانے کے بعد ایم کیو ایم کے کارکنان کے جانی و سیاسی نقصانات کا ذمے دار سمجھا جاتا رہا ہے ۔ منصور چاچا ، آفاق احمد اور عامر خان کو کراچی آپریشن میں ہلاک ہونے والے کئی ذمے داروں کی پولیس مقابلوں میں ہلاکت اور علاقوں میں قبضے کے دوران باہمی جھڑپوں میں کئی خاندان اجڑنے و علاقہ بدر کئے جانے کا ذمے دار گردانا جاتاہے ۔ تاہم عامر خان نے2011میں اپنے بانی سے معافی مانگ کر ایم کیو ایم دوبارہ جوائن کرلی تھی لیکن تنظیمی معاملات اختلافات کا شکار ہوگئے۔عامر خان رابطہ کمیٹی کے رکن بنے لیکن ان پر سابق ڈپٹی کنوینر انیس قائم خانی نے کبھی اعتماد نہیں کیا اور رابطہ کمیٹی میں ہونے کے باوجود عامر خان ایک غیر فعال رکن کی حیثیت سے نائن زیرو میں آتے ضرور تھے لیکن اہم فیصلوں میں انہیں کبھی اعتماد میں نہیں لیا جاتا تھا ۔رابطہ کمیٹی کے خورشید میموریل آفس میں بیٹھ کر زیادہ تر اخبارات پڑھتے یا نیوز چینلوں کو دیکھتے ہوئے پان کھانا اور پھر وقت پورا ہونے پر آفس سے روانہ ہوجانا، روز کا معمول تھا ۔ ایم کیو ایم میں تمام رہنما ، ذمے داران اور کارکنان ایک دوسرے کو’ بھائی‘کہہ کر مخاطب کیا کرتے تھے لیکن عامر خان سب کے لئے ‘خان صاحب ‘ تھے ۔ انہیں خان صاحب کے نام سے زیادہ پکارا جاتا تھا ۔نائن زیرو پر جب آخری علاقہ بند آپریشن ہوا تو عامر خان کو ہی مشکوک سمجھا گیا ۔ گمان یہی کیا جاتا ہے کہ اگر عامر خان رینجرز کی تحویل میں نہ ہوتے توڈاکٹر عمران فاروق کے طرح ان کے ساتھ بھی کوئی حادثہ پیش آسکتا تھا۔

کورنگی، لانڈھی سیکٹر میں عامر خان اہم اثر رسوخ کے حامل شخصیت تصور کئے جاتے رہے ہیں۔ چونکہ ایم کیو ایم میں تنظیمی معاملات پر گرفت رکھنے والوں کو اہمیت دی جاتی رہی ہے اس لئے ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی کے ساتھ ملکر عامر خان نے جب انیس قائم خانی کو برطرف کرایا اورر نائن زیرو کے تمام اختیارات حاصل کئے تو اُس وقت ہی منظر نامہ منکشف ہوچکا تھا کہ اب عامر خان اور خالد مقبول صدیقی کا گروپ انیس قائم خانی کے گروپ کو با اثر نہیں ہونے دے گا۔ کیونکہ ایم کیو ایم کی تنظیمی کمیٹی میں ریڑھ کی ہڈی حماد صدیقی بھی ہٹا دیئے گئے تھے ۔ پھر یہی ہوا اور جب انیس قائم خانی اور مصطفی کمال خود ساختہ جلاوطنی کے بعد کراچی دوبارہ وارد ہوئے تو پاک سر زمین پارٹی جنم لے چکی تھی۔ایم کیو ایم کے بانی کی اشتعال انگیز تقریر و پاکستان مخالف نعروں نے ایم کیو ایم کے دھڑوں کو موقع فراہم کردیا اور انہوں نے اپنے بانی کو ماضی کی طرح ایک مرتبہ پھر محدود کردیا ۔ لیکن اس بار ایم کیو ایم میں جو گروپ بندی بن چکی تھی اس کے اثرات کراچی کی سیاست پر بُری طرح نمودار ہونا شروع ہوچکے تھے۔

پاک سرز مین پارٹی اڑتے پرندوں کے لئے محفوظ بناہ گاہ بن گئی اور جیسے جیسے انتخابات قریب آتے چلے گئے اس بات کا قوی تاثررہا کہ ٹکٹوں کی تقسیم پر ایم کیو ایم میں شدید نوعیت کے اختلافات سامنے آنے کا امکان ہے ۔ عام انتخابات سے قبل سینیٹ کے انتخابات میں ٹکٹ کی تقسیم پر ایک مرتبہ پر اختلافات کی ہانڈی بیچ چوراہے پر ٹوٹ گئی اور کراچی کی سیاست میں پھر طلاطم پیدا ہوا۔ ایک برس قبل پاکستان مسلم لیگ فکشنل سے متحدہ میں شمولیت کرنے والے کامران ٹیسوری ایک بڑے صنعت کار ہیں ۔ تاہم ایم کیو ایم کے کلیدی عہدے پر’ بائی پاس ‘مقرر ہوئے کیونکہ رابطہ کمیٹی میں جگہ پانے کیلئے ایم کیو ایم ایک سخت طریقہ کار مقرر ہے ۔ جس کے بعد ہی رابطہ کمیٹی جیسے اہم عہدے پر کوئی ذمے دار براجمان ہوتا ہے۔ بالعموم ایم کیو ایم میں شامل ہونے والی شخصیات کو سنیٹرل ایگزیکٹو کونسل کا مرکزی رکن تو بنا دیا جاتا لیکن رابطہ کمیٹی میں شامل نہیں کیا جاتا ۔ علاوہ ازیں رابطہ کمیٹی کے سامنے نبیل گبول( پی پی پی)، امجد علی خان( پی ٹی آئی) سمیت کئی اہم رہنمائوں کی شمولیت اور پھر ایم کیو ایم سے واپسی کی کئی مثالیں بھی موجود تھی ۔ اس کے علاوہ دسمبر2017میں کامران ٹیسوری نے ایم کیو ایم سے علیحدگی کا اعلان کردیا تھا اس لئے ایم کیو ایم کی رابطہ کمیٹی اپنے مروجہ قوانین وضابطوں کی وجہ سے ان پر اعتماد نہیں کرسکتی تھی۔ سونے کے تاجر کامران ٹیسوری سے ایم کیو ایم کے سنیئر رہنمائوں میں تحفظات پیدا ہونا ایک فطری امر تھا، شاید ڈاکٹر فاروق ستار ، اپنے بانی کی طرح ویٹو پاور چاہتے ہیں۔

ایم کیو ایم کے گنجلگ نظام سے واقف ہر شخص حیران تھا کہ کامران ٹیسوری میں ایسی کیا بات ہے جس کی وجہ سے وہ ایک برس میں اتنی ترقی کرگئے۔ تاہم ایم کیو ایم میں ٹکٹوں کی تقسیم میں دوہرا معیار بہرحال نیا نہیں ہے ۔ اس سے قبل بھی سینیٹ کے ٹکٹ ایسے افراد کو بھی دیئے جاچکے ہیں جو ایم کیو ایم کے تنظیمی مروجہ طریقہ کار کے مطابق پورا نہیں اترتے تھے ۔ جس کی سب سے بڑی مثال بیرسٹر فروغ نسیم، میاں عتیق،بیرسٹر محمد علی سیف ،خوش بخت شجاعت کی بھی دی جاسکتی ہے اسی طرح قومی اسمبلی کی نشست سے نبیل گبول کو کامیاب کرانا ، اردو بولنے والے علاقوں سے دیہی سندھ کے رہنے والوں مثلاََ اشفاق منگھی، نثار پہنور ودیگرکو شہری نشستوں سے کامیاب کرانا، وغیرہ وغیرہ ۔ لیکن اس میں صرف ایک نمایاں فرق تھا جیسے اب بخوبی سمجھا جاسکتا ہے کہ ماضی کے فیصلوں میں بانی ایم کیو ایم کا حکم ہوتا تھا اس لئے ویٹوپاور کی وجہ سے کوئی حکم عدولی نہیں کرتا تھا ۔ اب ایسا نہیں ہے ۔ ایک بڑی تعداد رابطہ کمیٹی میں موجود ہے اور ڈاکٹر فاروق ستار’ میڈیا شو مین’ رہے ہیں اس لئے انتظامی معاملات میں گرفت عامر خان کے مقابلے میں کمزور ہے۔

موجودہ واضح اختلافات نے ایم کیو ایم کے اندرونِ خانہ معاملات کو مزید واضح کردیا ۔ تاہم تمام تر صورتحال کے باوجود کراچی و حیدرآباد میں سیاسی خلا پورا کرنے کیلئے کوئی قومی جماعت اپنا کردار بھرپور نہیں ادا کرسکی ہے اس لئے ایم کیو ایم کی تقسیم در تقسیم کراچی و حیدرآباد میں ایک بہت بڑے سیاسی خلا کو جنم دے رہی ہے ۔ جو شہری علاقوں میں احساس محرومی کو مزید وسعت دینے کا سبب بن سکتا ہے۔ ایم کیو ایم کا مکمل خاتمہ تو فی الوقت ممکن نہیں ہے لیکن مسلسل دھڑے بندیوں سے شہری علاقوں میں نمائندگی ختم یا کم ہونے سے کئی گنجلگ معاملات جنم لے سکتے ہیں ۔ اس لئے ضروری ہے کہ کراچی کی عوام فرسٹریشن میں کوئی ایسا فیصلہ نہ کریں جو مستقبل میں ان کے لئے مزید مشکلات کا سبب بن جائے ۔ لسانی و قوم پرستی کی سیاست کے دورکا ختم کرنا اور صوبائی تقسیم کے نعروں کا دفن ہونا سندھ کے شہریوں کے مفاد میں ہے۔

Qadir Khan Yousafzai

Qadir Khan Yousafzai

تحریر : قادر خان یوسف زئی