تحریر : پروفیسر ڈاکٹر شبیر احمد خورشید ملک میں ریڈیمیڈ سیاست دانوں کی کبھی بھی کمی نہیں رہی یہ ریڈی میڈ سیاست دان سیاست کے کھلاڑی تو ہوتے ہی نہیں ہیں مگر یہ ایجنسیوں کے سیاسی مہرے ضرور ہوتے ہیں ۔ یہ ہی سیاسی مہرے اکثر اُسوقت ڈان کا کردار بھی بن جاتے ہیں جب اُن سے کہہ دیا جاتا ہے کہ اب پیسہ بنانے کی مشن آپ کو بنایا جا چکا ہے۔ اب اپنے لئے بھی کماؤ اور کچھ حصہ ہمارا بھی رکھ لینا ۔ایسے لوگوں کو نہ تو سیاست آتی ہے اور نہ ہی وہ سیاسی تربیت سے ہو کر گذرے ہوتے ہیں۔ اس کی واضح مثال مثال ایجنسیز کا پیدا کردہ سیاسیت کے نام پر لانڈھی کا رہائشی ہے جس کی تربیت سارا پاکستان جانتا ہے کس نے کی ۔کونسلر سے لیکر صوبائی و قومی اسمبلی کی نشستوں پر کہیں بھی عوام کے ووٹ حاصل کر کے وہ جیت نہ سکا ۔وہ بھی اُس دور میں جب ایم کیو ایم زیرِ عتاب ہوا کرتی تھی۔جب ایم کیو ایم پاور آئی تو اس کے غنڈہ گروہ کو چھپنے کی جگہ بھی وہیں ملی جہاں کی وہ پیداوار تھا۔یہ گروہ پیدا کیا گیا تو اس کے سربراہ کی مثال اُس گورکن کے بیٹے کی تھی جو مُردوں کے کفن چرا لیا کرتا تھا۔
میں ایم کیو ایم کا اس کی پالیسیوں کی وجہ سے کبھی بھی حامی نہیں رہا مگر اس حقیقت کا میں منکر بھی نہیں ہو سکتا کہ ایک زمانہ تھا جب ایم کیو ایم کا بھر پور ووٹ بینک تھا۔مگر ان کی جارحانہ پالیسیوں نے اس کو ڈبویا اور آج جو کچھ اس کے ساتھ ہورہا ہے وہ کوئی ظلم نہیں ہو رہا ہے۔بلکہ جو کچھ انہوں نے بویا تھا وہی فصل پک کر تیار ہوئی اور اپنے ثمرات دے رہی ہے۔مگر یہ ایک مکا فاتِ عمل کا حصہ بھی ہے جس سے کوئی ذی شعور انکار نہیں کر سکتا ہے۔اس عمل سے فی الوقت ایم کیو ایم کی طاقت مسدود ہوگئی ہے۔ اسی کیفیت میں مقامی حکومتوں کے الیکشن ہوئے تو کمزوری کے باوجود وہ ہر ہر سیٹ پر وہ کامیاب بھی ہو گئے۔
اس الیکشن کے دور ان گنہگار کانوں نے خود سنا کہ لاندھی کی بابر مارکیٹ میں یہ ریڈی میڈ سیاست دان اپنے چند اسلحہ برداروں کے ساتھ لوگوں سے گاڑی کے شیشے سے گردن نکال کر کہہ رہا تھا کہ یہ (الطاف حسین کا پوسٹر) مجھے آئندہ نظر نہ آئے،یہ ہے موصوف کی سیاست!ایم کیو ایم جیسے ہی کمزور پڑی اس کی جگہ ایم کیو ایم حقیقی کہلانے والیخوف کی علامت گردوں نے لے لی ۔آج کل تو لانڈھی، کورنگی، ملیر، شاہ فیصل کالونی اور لائنز ایریا میں چوری چکاری چھین جھپٹ اور اسنیچنگ کا ایسا بازار گرم کر دیا گیا ہے کہ ایم کیو ایم کی طرف سے یا اُس دور میں پیش آنے والے جرائم کو لوگ بھول کر اپنی عافیت کی فکر میں لگے ہوئے ہیں۔ ایجنسیز نے اس دہشت گرد گروہ کی جانب سے شائد جان بوجھ کر آنکھیں موند لی ہیں۔
Altaf Hussain
کہمذکورہ علاقوں میں گذشتہ تقریباََ چھ ماہ سے زیادہ عرصے سے لانڈھی نمبر ایک تا لانڈھی نمبر چھ تک ایسی آفت مچائی ہوئی ہے کہ لوگ انتہا درجے کی پریشانی میں مبتلا ہو چکے ہیں ۔بلکہمزکورہ تمامہی علاقوں میں یہ سر گرمیاں جاری ہیں۔لگتا یوں ہے کہ پولیس اور رینجرز نے ان علاقوں میں مجرمو ں کو فری ہینڈ دیا ہوا ہے۔ کل کراچی کا ڈان بننے کے شوقین یعنی آٖفاق احمد(جن کو کراچی کے لوگ آفات احمد کہتے ہیں) کی پریس کانفرنس سن کر لگا کہ وہ ایم کیو ایم پر بھی قابض ہونے کے خواب دیکھنے لگے ہیں اور ادارے کراچی کے لوگوں بانیانِ پاکستان کی اولادوں کو شائد پاکستان بنانے کی سزائیں ہی دینا چاہتے ہیں ۔مذکورہ لوگوں کو نا تو اُس وقت کراچی کے لوگوں نے سوائے چند غنڈوں کے پسند کیا تھا اور نہ اب پسند کرتے ہیں۔وہ دور پوریکراچی کو یاد ہے،جب اداروں کے لوگ انہیں اور ان کے حواریوں کو کندھوں پر بٹھا بٹھا کر علاقوں پر قابض کرا رہے تھے۔بعد کے آنے والے انتخابات نے بھی ایجنسیوں کی سپورٹ کے باوجود دودھ کا دودھ پانی کا پانی کر دکھایا تھا۔ ایم کیو ایم کی پریشانیوں کا فائدہ اٹھا کر اب موصوف اس پر قابض ہو کر کراچی کے باسیوں کا نا جا نے کیا حشر کریں گے۔
ایم کیوایم کی کمزوری سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے موصوف نے تُرپ کا پتہ پھینکا کہ اور اپنے گھر پر پریس کانفرنس کر کے ایم کیو ایم پر قابض ہونے کی تیاریاں شروع کر دیں ہیں۔جس کو ایم کیو ایم نے مسترد کر دیا ہے۔ موصوف کا کہنا ہے کہ سیاست سے کبھی دستبردار نہیں ہو ؤن گا۔ مگر یہاں سوال یہ ہے کہ کیا کبھی موصوف نے سیاست کی ہے؟؟؟کہتے ہیں،مہاجر حقوق کی جدو جہد کیلئے نائن زیرو پر جانے کے لئے تیار ہوں۔لوگ کہتے ہیں مہاجر حقوق نہیں مہاجروں کی لوٹ کھسوٹ کے لئے وہ ہر حد عبور کرنے کو تیار ہیں۔کوئی میرے پاس نہیں آتا تو نا آئے مجھے نائن زیرو میں داخل ہونے دیا جائے!مزید کہتے ہیں کہ متحدہ تصادم کی سیاست سے گریز کرے۔
میرے بھائی تصادم تو تم نے کیا کہ ہزروں جوانوں کو پکڑ پکڑ کر سفاکی سے قتل کر کے اُن کے اعضاء ناک کان کاٹ کر اور دل نکال نکال کر ان میں ڈرلمشینسے سوراخ کر کے ان کی جیبوں میں ڈال کر اُن کے علاقوں میں نعشیں کس نے پھینکیں ؟؟؟مزید کہتے ہیں کہ مہاجر حقوق کی جدوجہد کے لئے تیار ہیں ؟؟؟؟ نہیں جناب نہیں مہاجروں کو مزید لوٹ نے کا آپ کا پکا پلان ہے اور شائد اس پلان میں تمہارا ساتھ دینے والے طاقتور لوگ بھی تمہارے ساتھ ہیں….آفاق کہتے ہیں کہ یہ وقت مہاجر قوم کے زخموں پر مرہم رکھنے کا ہے مگر میرے محترم آپ کے لوگ تو زخموں پر نمک پاشی کر رہے ہیں بلکہ اُن کے زندہ رہنے کا بھی حق چھین رہے ہیں۔
Karachi
کیا یہ ہی آپ کی سیاست ہے؟ چلئے ملیر کو ہی زیرِ بحث لے آتے ہیں…. ایم کیو ایم کے کمزور ہوتے ہی حقیقی نے لوٹ مار چندہ بھتہ کے کاروبار میں چار چاند لگا لئے ہیں ۔اپنے ایجنسیز کے ذریعے حاصل کئے گئے عروج کے دور میں ملیر ٹنکی کے ایک وسیع میدان پر چائنا کٹنگ کے ذریعے پورا علاقہ جس میں ہزاروں دوکانوں کے پلاٹ کاٹ کر لوگوں کو چار چار لاکھ روپے لے کر فروخت کر دیئے گئے تھے۔ جس نے دیکھتے ہی دیکھتے ایک بہت بڑے بازار کی شکل اختیار کر لی ہے۔ جوجامعہ سُپر مارکیٹ ملیر ٹنکی کے نام سے ملیر کے علاقے میں مشہور ماکیٹ بن چکا ہے۔اب جب کہ یہ مار کیٹ چل نکلی تو ہر دوکان سے ان کے لوگ ہزاروں روپے بھتہ وصول کرتے گویا آفاق صاحب کی اوران کے گروہ کی لاٹری کھل گئی تھی۔
جب ایم کیو ایم پاور میں آئی تو ان کے بھتہ مافیا رو پوش ہونا شروع ہو گئے اور ان صاحب کو پروٹیکشن کی خاطر جیل میں اے کلاس فراہم کر کے ان کو محفوط کر کے رکھا گیاتاکہ بوقتِضرورت کام آئیں اور اب جس وقت ایم کیو ایم اپنے ماضی کے افعال کی وجہ سے ایک مرتبہ پھر وینٹی لیٹر پر جا رہی ہے اورکمزور ہوگئی ہے۔ تو انہوں کراچی کے ہر اپنے اثر والے علاقے میں عام لوگوں کی زند گی اجیرن کر کے رکھی ہوئی ہے اور کوئی ادارہ ان پر ہاتھ ڈالنے کو تیار نہیں دکھائی دیتا ہے۔ اب جبکہ ایم کیو ایم حقیقی اور ان کے کارندوں کو پھر موقعہ ہا تھ آگیا ہے۔تو حقیقی کے کارندے افضال اور اقبال پھر ایک مرتبہ سر گرم ہو چکے ہیں۔
ان لوگوں نے ملیر کی مذکورہمارکیٹ میں ہر دوکاندار کو وارن کیا ہے کہ دس لاکھ روپے بھتہ دیں ورنہ وہ اس مارکیٹ میں کاروبار کرنے کے قابل نہیں رہیں گے!!! اسکے ساتھ ہی ماکیٹ میں داخل ہونے کے اکثر را ستوں پر قبضہ کر کے ہر گلی میں اپنی انکروچنگ کے ذریعے راستے بند کرکے دوکانیں نکالنے کے لئے پلر تک کھڑے کر دیئے گئے ہیں اور لوگوں کو دھکیان دی گئی ہیں کہ جس نے اس کے خلاف آواز اٹھائی اس کی آواز ہمیشہ کے لئے بند کر دیں گے ۔مزید یہ کہ ان لوگوں اس انکروچنگ کی قیمت بھی تیس لاکھ روپے مقر ر کر دی ہے۔
جب اداروں کو اس کی اطلاع دی گئی تو متعلقہ افراد کو پکڑا تو ضرور گیا مگر دو تین دن کے بعد وہ پھر دندناتے ہوئے گئے ہیں۔ عوام اداروں سے درخواست کرتے ہیں کہ آزمائے ہوؤں کو آزمانے کا کوئی فائدہ نہیں ہے کراچی کے اس نام، نہاد سیاسی ڈان کو لگام دیں تاکہ جو سکوں کراچی کے لوگ اس آپریشن ضربِ عضب سے محسوس کر رہے ہیں وہ برقرار رہے۔لُوٹ کھسوٹ اور بھتہ مافیہ کا بازار جو بند کرایا جا چکا ہے وہ دوبارہ جو لگ کھول رہے ہیں اُ نہیں لگام دی جائے۔
Dr. Shabir Ahmed Khurshid
تحریر : پروفیسر ڈاکٹر شبیر احمد خورشید shabbirahmedkarachi@gmail.com